محنت کا پھل

1883

احمد زمان
احمد ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا اس کو ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا۔ وہ ڈاکٹر بن کر غریبوں کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن اس کو لکھنے پڑھنے میں مشکل در پیش تھی۔ ایک دن اسکول سے بہت کام ملا۔گھر آتے ہی اسکول کا ہوم ورک شروع کیا۔ کام کرتے کرتے وہ تھک گیا۔ بہت رات ہو گئی تھی احمد کے والد نے کہا۔ بیٹا اتنی رات گئے مت پڑھو نظر کمزور ہو جائے گی باقی کام کل صبح کر لینا۔ احمد نے حامی بھری اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔ رات دیر سے سونے کی وجہ سے صبح بہت دیر سے آنکھ کھلی تو ساڑھے گیارہ بج رہے تھے جب وہ کام کرنے کے لیے بیٹھا تو امی نے دوکان سے کچھ سامان لانے کو کہا اور وہ کام ادھورا چھوڑ کر دوکان چلا گیا۔ دوکان سے لوٹتے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی یہاں تک کہ اس کے اسکول کا وقت ہو گیا۔ اور وہ تیار ہو کر اسکول روانہ ہو گیا۔
پہلے پیریڈ کی بیل بجی تو سر کلاس میں داخل ہوئے سر نے سب سے ہوم ورک کا پوچھا۔ سر نے احمد سے پوچھا: احمد ہوم ورک کیا ہے؟ احمد نے ڈرتے ڈرتے سر کو نہ میں جواب دیا۔ سر نے غصے سے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں سر نے سب بچوں کو قائدِاعظمؒ کا قول سناتے ہوئے مخاطب کیا: ’’تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جتنی بھی مشکل پیش آئے ثابت قدم رہنا چاہیے بس سننا تھا کہ احمد نے دل میں عہد کیا کہ جتنی بھی مشکل آئے وہ ڈٹ کر مقابلہ کرے گا اور ڈاکٹر بن کر غریبوں کو مدد کرے گا اس دن کے بعد احمد میں بہترین تبدیلی آئی وہ خوب محنت کرکے پڑھنے لکھنے لگا اور وہ کل کا احمد آج کا بہترین ڈاکٹر بن گیا۔ احمد نے ایک فلاحی ادارہ کھولا جس کے ذریعے وہ ضرورت مندوں کی مدد کرنے لگا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم محنت کرتے رہیں اور احمد کی طرح محنت وہ مشقت کرکے اپنا اور اپنے ملک و قوم کا نام روشن کریں اور سچے دل سے لوگوں کے کام آئیں۔

حصہ