عورت کہانی

670

ماریہ مسعود
شام کا اندھیرا اب گہرا ہوچلا تھا۔ پرندے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ دور کہیں آسمان پر ایک ستارہ ٹمٹماتا نظر آرہا تھا۔ ثنا نے کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھا اور کھڑکی بند کرکے پردے برابر کیے۔ دونوں بچیاں بھی سوچکی تھیں۔ ثنا نے ان کی طرف دیکھا اور سوچوں کے دریا میں غوطے کھانے لگی۔
’’ثنا بیٹا! ذرا چائے تو بنالو‘‘۔ ثنا کالج جانے کے لیے تیار ہورہی تھی کہ امی نے آواز لگائی۔
’’اچھا امی!‘‘ ثنا نے چولہے پہ چائے کا پانی رکھا اور امی کو بتانے لگی ’’امی آج میں دوپہر میں دیر سے آؤں گی بلکہ عصر تک آؤں گی۔ نوشین کی سالگرہ ہے تو اُس کے گھر پر ہم سب دوستوں نے پارٹی رکھی ہے۔‘‘
’’اور تمہارا کوچنگ سینٹر؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’وہ تو مغرب کے بعد ہے ناں امی!! گھر آکر کوچنگ چلی جاؤں گی۔‘‘ ثنا نے کہا۔
’’اچھا بیٹا ٹھیک ہے۔‘‘ امی نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
سالگرہ سے واپسی پر ثنا کے ساتھ اُس کی ایک سہیلی بھی آئی۔ پھر دونوں کتابیں اٹھا کر کوچنگ سینٹر کی طرف چل پڑیں۔ کوچنگ سینٹر سے واپسی پر ثنا امی کو ساری روداد سنا رہی تھی:
’’امی اتنا مزا آیا، نوشین تو حیران رہ گئی جب ہم سب نے اُسے اُس کی پسند کے گفٹس دیے، اور بہت خوش بھی ہوئی۔ اُس کی امی نے بہت مزے کا کھانا بنایا تھا۔ ہم سب نے وہاں خوب ہلہ گلّا کیا۔ اب میری برتھ ڈے پر بھی سب میرے گھر آئیں گے۔‘‘
’’ہاں تو تم بھی اُن سب کو بلانا۔‘‘ امی مسکرا دیں۔’’ چلو اب اپنی کہانی ختم کرو۔ بھائی آگیا ہوگا، مجھے اُس کو کھانا بھی دینا ہے۔‘‘
چار بہن بھائیوں میں ثنا سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی۔ بڑی دو بہنیں شادی شدہ تھیں، اُس کے بعد بھائی اور آخری نمبر ثنا کا تھا۔ دونوں بہنیں، بہنوئی اور بھائی سب مل کر اُس کے لاڈ اُٹھاتے، اور ابو کے لیے تو وہ ایک گڑیا تھی۔ اُس کو کوئی کام کرتے دیکھتے تو فوراً ٹوک دیتے:
’’ارے بیگم! تم میری گڑیا سے اتنا کام نہ کروایا کرو، تھک جائے گی۔‘‘
’’ارے بھئی آپ بھی ناں!! لڑکیوں کو کام کی عادت ہونی چاہیے۔ آخر کو اگلے گھر جانا ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی ثنا کا گھر کے کاموں میں دل کم لگتا ہے۔‘‘
اتنے میں ثنا آگئی۔’’امی امی!! میری دوست صبا ہے ناں! وہ فیشن ڈیزائننگ کا شارٹ کورس کررہی ہے تو میں بھی کرلوں؟ اور میں نے آپ سے کمپیوٹر سیکھنے کا بھی پوچھا تھا؟‘‘
’’ہاں ہاں بیٹا کرلو، اور مجھ سے کورس کی فیس لے لینا۔‘‘ امی سے پہلے ابو بول اُٹھے۔
’’تو اُس کے پاس گھر کے کاموں کے لیے وقت کہاں سے بچے گا؟‘‘ امی نے سوال اُٹھایا۔
ابو بولے ’’ارے ساری زندگی گھر کے کاموں کے لیے پڑی ہے۔ ابھی بچی کو سیکھنے دو جو سیکھنا چاہ رہی ہے۔‘‘ امی خاموش ہوگئیں۔
روز و شب اسی طرح گزرتے جا رہے تھے۔ آج ایک جگہ پارٹی، تو کل دوسری جگہ۔ کبھی باہر تو کبھی کسی سہیلی کے گھر! کبھی بہنیں آئی ہوں تو ساتھ مل کر پروگرام بن جاتے کہ گھر میں کھانا نہ پکے۔ سب باہر جاکر کھانا کھا کر آتے۔ اور شاپنگ تو ثنا کے ساتھ ہی کرنی ہوتی کہ اُس کی چوائس بہت اچھی تھی۔
’’امی اس بار ہم دوستوں نے سوچا ہے کہ عید کی تیاری سب ایک ساتھ کریں گے۔ اصل میں سب کو میری چوائس بہت پسند ہے ناں، تو اِس لیے سب کا ساتھ جانے کا پروگرام ہے۔‘‘ ثنا نے جلدی جلدی امی کو خبر سنائی اور اُن کی طرف دیکھنے لگی۔
’’تو پھر!! ؟‘‘ امی جو ثنا کے پٹر پٹر کرنے سے عاجز آچکی تھیں، اکتاہٹ بھرے لہجے میں اِس طرح بولیں جیسے اس کے کچھ بھی کرنے سے انہیں فرق ہی نہ پڑتا ہو۔
’’آپ پریشان نہ ہوں، میں نے ابو سے پیسے بھی لے لیے ہیں۔‘‘ ثنا نے اپنی دانست میں مسئلے کا حل بھی پیش کردیا۔
’’میری جان ثنا! میں نے تم سے رمضان سے پہلے کہا تھا کہ اپنی شاپنگ مکمل کرلو۔ اور پھر روزے میں اِس طرح خوار پھرنے سے کیا فائدہ؟ اور یہ تو دیکھو کہ گھر میں کتنے کام ادھورے پڑے ہیں؟ تمہارے روز روز جانے سے میں اکیلی ہوجاتی ہوں۔ تمہاری آپی اور باجی کو بھی کل آنا ہے۔ میں اکیلے کس طرح یہ سب نمٹاؤں گی؟‘‘ امی نے نرمی سے سمجھایا۔
’افوہ امی! میں کل کی نہیں پرسوں کی بات کررہی ہوں۔ اور میں اپنی دوستوں سے ہامی بھر چکی ہوں۔ میں انہیں منع کروں گی تو وہ ناراض ہوجائیں گی۔‘‘ ثنا نے مکھی اڑائی اور ہر بات کی طرح لاپروائی سے بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے چل دی، گویا بات ختم۔ امی نے ٹھنڈی سانس بھری اور مصروف ہوگئیں۔
دن گزرتے رہے اور ثنا نے انٹر کے بعد بی۔ اے میں داخلہ لے لیا۔ اب کی بار باجی آئیں تو اپنے کسی سسرالی رشتہ دار کا رشتہ ثنا کے لیے لے کر آئیں۔ اُن کے بقول ثنا کو اس سے اچھا رشتہ نہیں ملنے والا تھا۔ لڑکا اکلوتا تھا اور اچھا کماتا تھا۔ امی اور ابو دونوں کو یہ رشتہ پسند آیا۔ ویسے تو رشتے اور بھی آئے ہوئے تھے، لیکن کچھ باجی کا انداز تھا اور کچھ امی کی ثنا کو اپنے گھر بھیجنے کی فکر کہ اِس رشتے کو منظور کرلیا گیا۔
کچھ ہی دنوں میں منگنی کی تقریب رکھی گئی اور ثنا فیصل کے نام سے منسوب ہوگئی۔ چھ ماہ بعد شادی کی تاریخ رکھی گئی۔ ثنا نے ساری تیاری اپنی پسند سے کی۔ روز بازار جانا ہوتا۔ کبھی باجی آجاتیں تو کبھی آپی۔ رہی پڑھائی، تو اِس سے ثنا کو ویسے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اِس لیے اُس نے غنیمت جانا کہ پڑھائی ختم! اور شادی کی تیاریوں میں مگن ہوگئی۔
شادی کے بعد فیصل بہت اچھا شوہر ثابت ہوا جو کہ اکلوتا ہونے کے باوجود بہت ذمے دار تھا۔ ثنا کی ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرتا۔ ساس بھی ثنا کی ناز برداریوں میں مصروف کہ وہ اکلوتی بہو جو ٹھیری۔ دو مہینے گزرنے کا پتا بھی نہ چلا۔ تیسرا مہینہ اپنے ساتھ نئی مصروفیات لایا۔ متلی، الٹی اور طبیعت کا بوجھل ہونا… ثنا کے لیے یہ سب بہت مشکل تھا لیکن نئی خوشی میں سب برداشت کررہی تھی۔ سال پورا ہوا تو ایک ننھی کلی ثنا کی گود میں بریرہ کی شکل میں مسکرانے لگی۔ ثنا یہ تحفہ پاکر بہت خوش تھی۔ لیکن بریرہ کو سنبھالنا ثنا کو بہت مشکل لگا۔ رات رات بھر جاگنا اور دن بھر اُس کو فیڈ کروانا، نہلوانا، سنبھالنا… ثنا کو تو ٹی وی دیکھنے تک کا ٹائم نہ ملتا تھا۔
’’کیا سب بچے اسی طرح تنگ کرتے ہیں؟‘‘ ثنا سوچتی اور پھر اپنے اندر کڑھتی کہ ماں بننا کس قدر مشکل کام ہے! فیصل کے گھر آتے ہی ثنا کی چڑچڑاہٹ شروع ہوجاتی۔ دن یوں ہی گزرتے رہے۔ بریرہ چھ ماہ کی ہوگئی تھی اور اُس کا رونا بہت حد تک کم ہوچکا تھا۔ اُس کے سوتے ہی ثنا بھی سوگئی اور جب اٹھی تو شام ہوچکی تھی۔
’’ثنا چائے پی لو۔‘‘ ساس کی آواز پر ثنا جلدی سے اُٹھ گئی۔ مگر اتنی زور سے چکر آیا کہ دوبارہ بستر پہ گر گئی۔ ساس نے جب یہ دیکھا کہ ثنا بے وقت سورہی ہے تو چائے کمرے میں لے آئیں۔ وہ ثنا کو اپنی بیٹی ہی سمجھتی تھیں، اور گھر کی بھی تھوڑی ہی ذمے داری ثنا پہ ڈالی تھی۔
’’ثنا، کیا ہوا بیٹا؟‘‘ ساس کو کمرے میں دیکھ کر ثنا آنکھیں مسلتے ہوئے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اپنی تمام تر لاپروائی کے باوجود بڑوں کا احترام ثنا کے اندر بدرجۂ اتم موجود تھا۔
’’کچھ نہیں امی، بس وہ ذرا سر چکرا رہا تھا۔ شاید نیند پوری نہیں ہوئی۔‘‘
’’اوہ… اچھا تو یہ چائے پی لو اور سر درد کی گولی کھا لو۔ ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا۔ اور فیصل آئے تو ڈاکٹر کے پاس چلی جانا۔‘‘
’’جی اچھا امی۔‘‘ ثنا نے کہا۔
ڈاکٹر نے ٹیسٹ لکھ کر دیے جو کہ فیصل نے فوراً ہی کروا لیے۔ رپورٹ آئی تو اُسے دیکھتے ہی ثنا کی چیخ نکل گئی۔
’’یہ کیا!!‘‘ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔ فیصل ثنا کو اِس طرح روتے دیکھ کر بے تاب ہوگیا۔
’’کیا ہوا ثنا؟ ایسے کیوں رو رہی ہو؟‘‘
’’آپ نے دیکھا نہیں، میری رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔ ابھی بریرہ اتنی چھوٹی ہے اور پھر اب دوبارہ…! بھئی نہیں ناں!‘‘ ثنا روتے روتے بولی۔
’’دیکھو ثنا یہ تو اللہ کی مرضی ہے۔ اور اللہ اولاد دے رہا ہے۔ جن لوگوں کی اولاد نہیں ہے، وہ تڑپ رہے ہیں۔ اللہ سے اولاد مانگ رہے ہیں۔ تم اِس طرح ناشکری نہ کرو۔ میں اکلوتا ہوں، میری خواہش ہے کہ ہمارے بہت سارے بچے ہوں۔ چلو اچھا اٹھو، میں اسی خوشی میں تمہیں ڈنر کرواتا ہوں۔‘‘
ثنا نے اپنے آنسو پونچھے اور فیصل کے سمجھانے پر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مگر دل میں کہیں ایک پھانس سی اٹک گئی تھی اور آنسو بلا وجہ ہی بہے جا رہے تھے۔ روتے دھوتے، بڑی مشکل سے نوماہ گزرے۔ اب بریرہ سوا سال کی ہوچکی تھی۔ اُس کی شرارتیں بہت بڑھ چکی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں سب گھر والوں کا دل بہلاتی تھیں تو ثنا کا دل بھی تھوڑی دیر کے لیے بہل جاتا تھا۔ مگر اب چلنا پھرنا محال تھا۔ اس حالت میں بریرہ اگر ماں کی گود کے لیے مچلتی تو ثنا پریشان ہوجاتی۔ کچھ ہی دنوں میں دوسری رحمت بھی ثنا کے گھر آگئی۔ زینب بھی بریرہ کی طرح بہت پیاری تھی، مگر دونوں کو سنبھالتے سنبھالتے ثنا بے حال ہوجاتی۔ نازوں میں پلی تھی، مگر اب اوپر تلے کی دو بچیوں کو سنبھالنا اُس کے بس کی بات نہ تھی۔ کوئی بھی بچی روتی تو ساتھ ہی ثنا بھی رونا شروع کردیتی۔
’’یہ تو چپ ہی نہیں ہورہی!‘‘ اور ساتھ ہی ذہن اُلٹے سیدھے خیالات کی آماجگاہ بن جاتا۔ ’’میری ساری دوستیں مزے کررہی ہیں اور ایک میں ہی ان جھنجھٹوں میں پھنس گئی ہوں۔ نہ تو شاپنگ پر جا سکتی ہوں اور نہ ہی اپنی پسند کا کوئی ٹی وی پروگرام دیکھ سکتی ہوں۔ کیا میرے لیے تفریح کا کوئی ذریعہ نہیں ہے؟ کیا میری کوئی زندگی نہیں ہے؟ بس گھر اور بچے! میں تو عاجز آچکی ہوں۔‘‘ دل کے اوپر تالے پڑے ہوں تو دماغ بھی اُلٹے ہی مشورے دیتا ہے۔ ڈپریشن اور اداسی کے ہاتھوں مجبور ثنا کے ساتھ بھی اُس شام یہی ہوا۔ دونوں بیٹیوں کو بخار چڑھا ہوا تھا اور ثنا نے دوا پلا کر دونوں کو سلایا تھا اور اپنی سوچوں میں غرق تھی۔ دل تھا کہ مسلسل باغی ہوا جا رہا تھا۔
’’میری زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ بے رنگ، بے کیف۔ اس سب جھنجھٹ سے اچھا تھا کہ میں اپنے اماں ابا کے گھر ہی رہتی۔ کم سے کم اپنی مرضی سے سوتی اور اپنی مرضی سے گھومتی پھرتی۔ بس بہت ہوچکا، اب میں برداشت نہیں کروں گی۔ یہ فیصل کے بچے ہیں، وہ سنبھالیں۔ میں اب اپنی امی کے گھر جارہی ہوں۔ تنگ آگئی ہوں میں اس وبال سے!!‘‘چادر اوڑھ کر جب ثنا باہر نکلنے لگی تو اُس کی ساس اچانک نکلنے پر حیران رہ گئیں۔
’’کیا ہوا ثنا؟‘‘
’’کچھ نہیں ہوا امی، بس میں ذرا ایک کام سے جارہی ہوں!‘‘ یہ کہہ کر ثنا اُن کی طرف دیکھے بغیر تیزی سے باہر نکل گئی کہ کہیں قدم نہ رک جائیں۔ اور پیدل ہی اپنی امی کے گھر روانہ ہوگئی۔ چلتی گئی، چلتی گئی، اپنی سوچوں میں غلطاں و پیچاں چلی جارہی تھی۔ پتا نہیں کتنی دیر اسی طرح چلتی رہی۔ قدم اس راستے کے عادی تھے اس لیے خودبخود بڑھتے چلے گئے، حتیٰ کہ ایک موڑ پر پہنچ کر رک گئی۔ سامنے والی گلی میں اُس کے اماں ابا کا گھر تھا۔ دل اور دماغ میں ایک زبردست جنگ شروع ہوچکی تھی۔
’’تو ثنا بیگم! تم اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر آچکی ہو۔ دنیا کیا سوچے گی؟ تم اس سماج کو کیا منہ دکھاؤ گی؟ لوگ کیا کہیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر تمہارے بوڑھے ماں باپ پر کیا گزرے گی؟ اور تمہاری بچیاں…؟ اُن کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ اُن کے لیے کیا مثال پیش کرنے چلی ہو؟ گھر چھوڑنے والی عورت کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ اور تم خود ہی اپنا گھر تباہ کرنے چلی ہو! پلٹ جاؤ ابھی بھی وقت ہے۔ اس سے پہلے کہ آخری وقت بھی گزر جائے اور تم تہی داماں تشنہ لب کھڑی رہ جاؤ۔‘‘
قدم آگے چلنے سے انکاری ہوچکے تھے۔ ثنا کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ دل کہہ رہا تھا کہ چلو ثنا رک کیوں گئیں؟ سامنے تمہاری منزل ہے۔ لیکن دماغ!! دماغ اُس وقت کچھ اور ہی زاویہ پیش کررہا تھا۔
’’تمہارے بچے ثنا!! تم ماں ہو ناں!! کیسی ماں ہو جو اپنے بچوں کو بوجھ سمجھ رہی ہو۔ اولاد کب بوجھ ہوتی ہے؟ کیا تم اپنے ماں باپ پر بوجھ تھیں؟ ارے تم تو پیغمبروں کو پروان چڑھانے والی ہو۔ عورت کی گود میں تو نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ تمہارا کام مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ تم آج اگر یہ مشکل کام نہ کرسکیں تو تمہاری بیٹیاں بھی نہ کرسکیں گی۔ اب تمہیں انہیں صدقۂ جاریہ بنانا ہے۔ ان کی پرورش کرنی ہے۔ لوٹ جاؤ ثنا، ابھی بھی وقت ہے، لوٹ جاؤ! یہ فریضہ تمہیں ہی سر انجام دینا ہے۔ اس معراج کو مت مٹاؤ۔ تمہارا ہر قدم تمہاری اولاد کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے۔ اسی راستے سے گزر کر تم جنت میں جاسکتی ہو۔‘‘
آگے اس کی من پسند زندگی تھی اور پیچھے وہ دشوار گزار راستہ جسے وہ ناسمجھی میں ناقابلِ عبور قرار دے چکی تھی۔ بالآخر دماغ کی جیت ہوئی اور ثنا بھاری قدموں واپس پلٹ گئی۔
گھر واپس جاکر اُس نے بیل بجائی۔ ساس بے چین بیٹھی تھیں، انہوں نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ثنا اُن سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگی۔
’’امی مجھے معاف کردیں۔ امی! میں راستہ بھول گئی تھی۔‘‘ ثنا روتی جارہی تھی۔
’’ارے بیٹا ثنا، صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔‘‘ ساس نے مسکرا کر ثنا کو اپنے ساتھ لگا لیا۔

حصہ