الیکشن 2018ءاٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!

318

عبدالحکیم ناصف

تم اپنے ووٹ کی طاقت کو دیکھو! کم نہیں سمجھو
بقائے نسل کا ہے مسئلہ، اس بار تو سوچو
تمھارے حق کے جو غاصب ہیں گدّی سے انھیں پکڑو
خدارا! مستقل پس ماندہ اس تقدیر کو بدلو
ضروری ہے گھروں سے ووٹ دینے کے لیے نکلو
اٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!

ہمہ وقت اشکِ غم آنکھوں میں بھرنے کی سہولت ہے
ہوئی بارش ، گٹر میں ڈوب مرنے کی سہولت ہے
سسک کر تم کو دنیا سے گزرنے کی سہولت ہے
پر اب ڈْوبے ہوؤں کو پھر اْبھرنے کی سہولت ہے
یہ ستر سال کی ہاری ہوئی اب بازیاں جیتو!
اٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!

کہاں پہنچا ہے وہ ترکی ، چلا ہے اب کہاں وہ چین
تمہاری آستیں کے سانپ لے کر آ گئے پھر بین
نہ کرنا فیصلہ اس بار بے سوچے کوئی سنگین
صفوں میں اپنی ڈھونڈو آج ’’ایوبی صلاح الدین‘‘
بدل جاتی ہیں قومیں اس طرح تاریخ سے سیکھو!
اٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!

تمہارے مال سے یہ جائدادوں کو بڑھانے پھر
تمہارے خوں پسینے کی کمائی کو گھٹانے پھر
درندے، چور، ڈاکو آ گئے ہیں ملک کھانے پھر
بھلا کیوں آزمائے کو چلے ہو آزمانے پھر؟
الیکشن میں عوامی اپنے جیسا رہنما ڈھونڈو!
اٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!

سسکتے بھوک سے بے حال پھر کیا بلبلائیں گے؟
یہ کب تک پھول سے بچے یہاں تکلیف پائیں گے؟
یہاں اولاد کا ماں باپ کب تک دکھ اٹھائیں گے؟
مشقت کرتے یہ معصوم کب اسکول جائیں گے؟
تم اپنے ووٹ کو سمجھو، نظامِ زندگی بدلو!
اٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!

اگر ہو ٹھیک استعمال تو فولاد ہے یہ ووٹ!
خزانہ علم کا ھے معتبر استاد ہے یہ ووٹ!
ترقی کی ضمانت اور زندہ باد ہے یہ ووٹ!
اگر محکوم ہو تم، کیا ہوا آزاد ہے یہ ووٹ!
وڈیروں کی غلامی سے، چلو اے ہاریو، نکلو!
اٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!

ابھی ہیں ناتواں لیکن اٹھا سکتے ہیں ہم طوفان
لگن محنت سے بن سکتے ہیں ہم سب ’’ایشیا کے ڈان‘‘
ہمیں بیرونی قرضوں سے چھڑانی ھے وطن کی جان
چلو مل کر بچائیں قائدِ اعظم کا پاکستان!
سوئے خوش حالی منزل برق کی رفتار سے دوڑو!
اٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!

تمہارا ووٹ اجالوں کا مقدر، شانِ کوہِ طور!
تمہارا ووٹ اندھیرے ’’لوڈشیڈنگ‘‘ کے کرے گا دور!
تمہارے ووٹ سے مضبوط ہو گی حالتِ مزدور!
چڑھے گا ووٹ سے سولی کرپشن کا سیہ ناسور!
تمہارا ووٹ بیعت ہے، تقدس ووٹ کا سمجھو!
اٹھو، جاگو! اے پاکستان کے سوئے ہوئے لوگو!
٭٭٭
روٹی چُرا رہا تھا کہ پکڑا گیا ہوں میں
اے ایچ خانزادہ
قانون کے شکنجے میں جکڑا گیا ہوں میں
بس عام آدمی تھا جو رگڑا گیا ہوں میں
اربوں کا لوٹ لینا کرپشن نہیں جناب
روٹی چُرا رہا تھا کہ پکڑا گیا ہوں میں
لت اب عدالتوں کی بھی تاریخ ساز ہے
مجبور یاں تھیں باندھ کے کپڑا گیا ہوں میں
آئین اور ایان عیاں ہوگئے ہیں سب
جمہوریت کا حسن ہوں تگڑا گیا ہوں میں
گستاخؔ کس طرح یہاں امن و امان ہو
کرتا جب اپنے آپ سے جھگڑا گیا ہوں میں
٭٭٭

ووٹ ہے کتاب کا
ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر
اک حسین خواب کا
صبح انقلاب کا
ووٹ ہے کتاب کا

جبر کی روش مٹے
ظلم اب نہیں چلے
اک نیا شہر لگے؛

ووٹ ہے کتاب کا
صبح انقلاب کا

اب یہاں ہو زندگی
اب یہاں ہو روشنی
الفت اور آشتی

ووٹ ہے کتاب کا
صبح انقلاب کا

دھونس، دھاندلی نہ ہو
خوف کی گھڑی نہ ہو
کوے بے بسی نہ ہو

ووٹ ہے کتاب کا
صبح انقلاب کا

علم کی قبائیں ہوں
پھر وہی فضائیں ہوں
پھر وہی ادائیں ہوں

ووٹ ہے کتاب کا
صبح انقلاب کا

راہ سے جو ہٹ گئے
ٹکریوں میں بٹ گئے
اصل میں وہ گھٹ گئے

ووٹ ہے کتاب کا
صبح انقلاب کا

امن اور امان ہو
ایک خاندان ہو
اک نیا جہان ہو

ووٹ ہے کتاب کا
صبح انقلاب کا

کالج، یونی ورسٹی بھی
بجلی اور پانی بھی
جینے کی کہانی بھی

ووٹ ہے کتاب کا
صبح انقلاب کا

حصہ