ایک خلائی جہاز سورج کی طرف

536

قاضی مظہر الدین طارق
جناب’ ٹِم والینس‘ نے لکھا؛
۲۹ ؍ مارچ ۱۹۷۴؁ء کو ایک خلائی جہاز ’میرینر دہم ‘ پہلی مرتبہ سورج کے سب سے قریب عطارد (مرکیوری) کے انتہائی قریب پہنچا ۔
اس وقت جب انسان نے ’میرینر دہم‘ کے واسطے سے سورج کے قریب ترین سیّارے ’عطارد ‘سے صرف سات سو کلومیٹر کے فاصلے سے گذرتے ہوئے اس کامشاہدہ کیا ۔
اس سے پہلے دس ۱۰سال میںروس اور امریکہ نے مل کر چاردرجن سے کچھ زائد خلائی مشن زمین کے پڑوسیوں کی طرف بھیجے، جن میں سے صرف سترہ۱۷ کامیاب ہوئے ۔
عطارد کی طرف جانے سے پہلے ’ناسا‘نے اپنے قریب ترین پڑوسیوں[زہرہ اور مریخ ]کی طرف کئی میرینر مہمات روانہ کیں۔
خلائی مہم ،نظامِ سمشی باہر والے سیّارے[مریخ ]پر بھیجنا، اندروالے سیّاروں [زہرہ اور عطارد] کی نسبت بہت آسان ہے ، اس لئے کہ سورج دُور جاتے وقت سورج کششِ ثقل کمزور ہوتی جاتی ہے ، اس میں ایندھن بھی کم لگتا ہے ۔ پھرسورج کی طرف جاتے ہوئے اُس کی کشش بڑھتی جاتی ہے اور ایندھن کی بھی بہت زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔
’میرینر دہم‘کی خاص بات صرف یہ نہیں کہ وہ عطارد کی طرف پہلی مہم تھی ، بلکہ یہ بھی کہ یہ ایک ساتھ دو سیّاروں کی جانب تھی ۔ حالانکہ یہ زہرہ کے لئے ساتویں مہم تھی مگر اس مہم نے زیادہ قریب سے قیمتی معلومات فراہم کیں ۔ اس کے علاوہ ایک خاص بات اور تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ بہت فاصلے سے ، اوربہت بلند ’فریکیوئنسی‘ والا ’ٹرانسمیٹر‘ کاتجربہ کیا گیا ۔
’میرینر دہم ‘کا جسم ہشت پہلو ( آکٹاگونل ) چوڑائی سات فِٹ اور لمبائی پندرہ فِٹ تھی،اس کے دو ’سولر پینلز‘ تھے ، مائع ایندھن سے چلنے والے جَیٹ کے دو سَیٹ تھے جس کی مدد سے اس جہاز کو جس طرف چاہیں موڑا جا سکتا تھا ۔ سب آلوں سمیت اس کا وزن پانچ سو کلو تھا ۔
اس جہاز پر کئی قسم کے آلات تھے ؛ ایک ریڈیو میٹرجس کو ’انفرا ریڈ ریڈیایشن ‘ کا کھوج لگانا تھا ؛ دو’اِسپَکٹومیٹرز ‘ جن کو ’الٹرا وائے لیٹ ریڈی اَیشن‘کا کھوج لگانا تھا ؛ ایک ’ پازما ڈِٹِکٹر ‘تاکہ شمسی ہوائوں کا تجزیہ کیا جاسکے؛دو ’مَیگنیٹومیٹرز‘،کومقناطیسی میدان کی معلومات حاصل کرنا تھی؛ ایک دور بین تاکہ دیکھا جاسکے کہ مقناطیسی میدان نے کتنے چارجڈ ذرّے (پارٹیکلز) پکڑے ہیں ؛ اور دو دوربینیں جو ایک ’ویڈیو رکارڈینگ سسٹم ‘سے منسلک تھے ؛ یہ سب اس جہاز کے پہلو میں نسب تھے تاکہ ان کو سورج کی حدّت سے بچایا جائے، حدّت سے بچانے کے لئے ان پر ایک چھتری کا سایا بھی کیا گیا تھا۔
خلا میں جانے کے کچھ دیر بعد اس جہاز نے پلٹ کر ۲۶ کروڑ کلومیٹر دور سے زمین اور چاند کی تصاویر لیں ، جس کا
مقصد اس پہلی مرتبہ استعمال کئے جانے والے ٹرانسمیٹر کو ٹیسٹ کرنا تھا ؛ کیوں کہ اس نے پہلی مرتبہ خلا میں اتنی دور سے رنگین ’ ڈجیٹل ہائی ریزولیوشن ‘ تصاویر زمین پر بھیجنا تھی۔
اس تصویر میں زمین اور چاند کی تصاویر اکھٹّا کردی گئی ہے تاکہ ان کے حجم کا تناسب دیکھا جا سکے ۔
تین ماہ بعد یہ جہاز اپنے پہلے حدف پر پہنچا ، یہ سیّارہ زہرہ کے قریب ۳۸۶۰۰ کلومیٹرفی گھنٹے کی رفتارسے گزرتے ہوئے اس کی صاف اور تفصیلی تصاویر بھیجیں ، حالانکہ اس سے پہلے اس پر سات مہمات بھیجیں جا چکی تھیںمگر کوئی بھی اتنی تفصیل نہ بھیج سکا تھا ۔
اس نے زہرہ کی چارہزار تصاویر بھیجیں ، جس میں سے قریب ترین ۵۶۰۰ کلومیٹردور سے لی گئی تھیں ۔ اس کے علاوہ بہت سے اہم سائنسی مشاہدات جہاز پر نسب کمپیوٹر سے کئے ، حالانکہ محدود’کمانڈز‘کے کمپیوٹرسے یہ بہت ہی مشکل کام تھا ۔
اگرچہ عام روشنی میںیہ تصویریںگہرے بادلوں کی بنا پر واضح نہیںہیں ، مگر ’الٹرا وائے لیٹ لائیٹ‘ میںاس کی فضا بہت ہی متحرّک نظر آتی ہے ، لیکن انسان اس سطح دیکھنے کی توقعہ کر رہا تھا ، جو توقعہ کے مطابق پوری نہ ہو سکی ۔
زہرہ کی کشش نے پہلے تو میرینر دہم کی رفتار کو ۳۸۶۰۰ کلو میٹر سے ۱۶۰۰۰ کلومیٹرفی گھنٹہ کر دیا ، مگر اس کو جُھولا دے کر عطارد کی طرف جانے والے نئے مدار میں پہنچا دیا ۔
پانچ ہفتے بعد ، ۲۳ مارچ کو ’میرینردہم ‘ نے ۵۳ لاکھ کلومیٹر دور سے عطارد (مرکیوری) کی تصویریں بھیجنا شروع کردی تھی ۔ پہلے پہل تو یہ تصاویر زمین سے دور بین سے لی ہوئی تصوروں سے تھوڑا ہی بہتر تھیں ، مگر قریب آتے آتے مزید بہت بہتر ہوتی چلی گئیں ۔ جب جہاز عطارد سے ۳۵ لاکھ کلومیٹر دور تھا تو تصویروں میں اِس کی صاف سطح نظر آنے گی ، ہمارے چاند کی طرح کریٹر، کھائیاں اور میدان نظر آنے لگے ، جہاں میدان نہیں تھے وہاں کریٹر ایک دوسرے پر بے ہنگم طریقہ سے چڑھے ہوئے تھے ۔
۲۸ ؍ مارچ سے میرینر دہم نے نگرانی تیز کردی اور ہر ۴۲ سیکنڈ میں ایک تصویر بھجنے لگا ۔
۲۹ ؍ مارچ کو یہ جہاز عطارد کی سطح کے قریب ترین صرف ۷۰۵ کلو میٹر دور تھا ، کیونکہ جہاز عطارد کی اندھیری رات کی طرف تھا اس لئے وہ اس کی کوئی کسی کام کی تصویر نہ بھیج سکا ، لیکن پہلے اور بعد میں بہت صاف اورواضح تصویریں بھیجیں۔
’میرینر دہم ‘ مسلسل ۳ ؍ اپریل تک تصاویر بھیجتا رہا جب تک وہ عطارد سے۳۵ لاکھ دورنہ پہنچ گیا ۔
اُس نے مجموعی طور پرعطارد کی ۲ ؍ ہزار تصویریں بھیجیں جو ۳ ؍ زمینی اسٹیشنز پر موصول ہوتی رہیں ، ان اسٹیشنوں میں ایک، گولڈسٹون، کیلیفورنیا میں؛دوسرا ، ٹِڈبِنبِلا ، آسٹیلیا میں ؛ تیسرا،مڈرڈ، اسپین میں نسب ہے۔
اِن مشاہدات سے جو’ میرینر دہم‘ نے بھیجیں سائنسدان عطارد کے بارے میںبہت کچھ جان سکے ، عطارد بہت کثیف (ڈَینس )ہے ،مگراس کا مقناطیسی میدان زمین کا صرف ۰۱۶ء۰ فیصدہے ۔
عطارد کی تصاویر بتا رہی ہیں کہ وہ ہمارے چاند جیسا ہے، اور اِس سے ۴ء۱ گُنا بڑا ہے ؛ اگرچہ اِس کی کمیّت (ماس)کثافت کی وجہ سے چاند سے ۶ء۴ گُنا زیادہ ہے ، اِس کی سطح پر اَشہاب کی بمباری کے نشانات (کریٹرز) بالکل چاند جیسے ؛ بنجر ، کریٹر ، پہاڑیاں اور میدان ہیں ۔
’ناسا‘ کی رپورٹ کے مطابق ؛ ’’جہاں میدان نہیں ہیں وہاں ’کریٹرز‘بے ہنگم طریقہ سے ایک دوسرے کے اُوپر چڑھے ہوئے اور ایک دوسرے کے اندر بھی ہیں ۔ میدانی مادّوں کی بناوٹ چاند کے سمندر ’ماریا‘ جیسی ہے اورکریٹرز کی ترتیب بھی تقریاً چاند جیسی ہے ۔ ‘‘
’میرینر ‘ سورج کے گرد مدار میں گردش کرتے ہوئے مزید دو بار ( ستمبر اور مارچ ۱۹۷۴؁ء میں ) عطارد کے قریب سے گزرا ( یعنی تین دفعہ ) ، تیسری دفعہ وہ محض ۳۳۰ ؍ کلومیٹر سیّارے کی سطح کے قریب تھا ، اس کے فوراً بعد جب اِس جہاز کا ایندھن ختم ہوگیاتو ناسا نے اس کی ٹرانسمیشنز بند کر دیں ۔
زمین ، چاند ، زہرہ اور عطارد ؛ سب ملا کر ’ میرینر دہم‘ نے سات ہزار تصاویر زمین کو اِرصال کیں ، یہ عطارد کی طرف میرینرز مہم کا آخری مشن تھا ، اس کے باوجود کہ یہ اس مہم کا آخری مشن تھا ، مگر یہ عطارد کا پہلا مشن ہی رہے گا ۔ اِس کے تقریباً ۳۳ ؍ سال بعدناسا نے ’میسنجر‘ نام سے عطاردکی سمت مشن بھیجا۔
میرینر دہم نے عطارد کے صرف ایک رُخ کے مشاہدات بھیجے تھے ،’ میسنجرمشن‘ کے ذریعہ عطارد کا مکمل نقشہ بنایا اور اس کی کیمیائی ساخت کا بھی تجزیہ کیا جا سکا ۔ اس کے ساتھ ہی عطارد کی کئی خصوصیات معلوم ہوئیں ۔
یہ ہے اُس سوال کے جواب کا ایک حصہ ، جو اللہ رب العٰلمین نے پندرہ سو سال پہلے انسان سے پوچھا تھا، کہ ’’بتائو میں نے اِس تخلیق کی ابتدا کیوں اورکیسے کی؟‘‘
جتنی بھی سائنسی تحقیقات ہیں وہ اسی بنیادی سوال کے جواب کی تلاش میںہی حیران و پریشان ہیں!!!

حصہ