اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

1436

نازیہ احمد علی ،جامعۃ المحصنات سنجھورو
قرآن پڑھنا۔اللہ تعالی سے سننا اس سے باتیں کرنا اور اس کے راستے پر چلنا ہے ۔جن لوگوں نے اسے سب سے پہلے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا ان کے لئے قرآن ایک چلتی پھرتی حقیقت ہے ۔ان کے سینوں پر بارش کی پھوار کی طرح وہ اثر کرتا تھا۔اور وہ اس کے ہر لفظ کو زندگی کے معاملات اور تجربات سے سے بالکل متعلق پاتے اور اسے مکمل طور پر اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیتے تھے۔اس قرآن نے ان کو فرد اور معاشرے کی دونوں حیثیتوں سے ایک بالکل نئے زندہ اور حیات آفریں وجود میںمکمل طور پر تبدیل کردیا تھا۔جو بھیڑ،بکریاں چراتے تھے اونٹوں کی نگہبانی کرتے تھے معمولی کاروبار کرتے تھے۔انسانیت کے رہنما بن گئے ۔ آج ہمارے پاس وہی قرآن ہے اس کے لاکھوں نسخے گردش میں ہیں ۔گھروں میں مسجدوں میں منبروں سے دن رات مسلسل اس کی تلاوت کی جاتی ہے اس کے معنی و مطلب جاننے کے لئے ۔تفاسیر کے ذخیرے موجود ہیں۔اس کی تعلیمات کو بیان کرنے کے لئے اور ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کے لئے تقاریر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ۔لیکن آنکھیں خشک رہتی ہیں ۔دلوں پر اثر نہیں ہوتا ۔دماغوں تک بات نہیں پہنچتی ۔زندگیوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔ایسا لگتا ہے کہ ذلت و پستی قرآن کو ماننے والوں کے لئے لکھ دی گئی ہے ۔ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ اب ہم قرآن کو زندہ حقیقت کے طور پر نہیں پڑھتے ۔یہ کتاب ہمیں صرف ماضی کی معتوب شدہ قوموں کی باتیں اور کافروں ، مومنین اور منافقین کے بارے میں ہی نہیں بتاتی اور نہ ہی یہ صرف چند احکامات کا مجموعہ ہے ۔ نہیں بلکہ یہ تو دنیا میں شر اور باطل کی قوتوں کے مقابلے میں جدوجہد کے لئے ہے یہ آپ کے کمزور وجود کی مدد اور روحانی طاقت ہے۔ آپ کے خوف اور پریشانی کو قابو کرنے کے لئے یہی واحد زریعہ ہے ۔آج ہم اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ۔ہمارے لئے نجات کا ذریعہ یہی قرآن ہے ۔ہمارے نفس کے امراض کے لئے ،ہماری فطرت ، منصب و فرائض ،ہمارے خطرات اور انعامات کے لئے مسلسل یاد دہانی اور ذکر ہے ۔آپ کے دل کی پکار ہے ۔مگر آج وہی قرآن ہمارے پاس موجود تو ہے مگر اس سے دوری کے سبب کھڑے ہونے والے مسائل ہمارے سامنے ہیں ۔ ا س قرآن سے دوری نے بحیثیت فرد اور امت ہمیں ذلت و خوری میں مبتلا کردیا ہے۔ہم اگر روہنگیا میں مسلامنوں کی املاک کو جگہ جگہ آگ لگائی جا رہی ہے ۔لاکھوں بچے ،عورتوں اور بوڑھوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے ۔حلب میں لوگوں کو زندہ جلایا جارہا ہے اور ان کی صنعاء کو راکھ کیا جارہا ہے اور موصل اور غوطہ سلگ رہا ہے اور شہریوں جنگی طیارے کلورین بم برسا رہے ہیں اور ملک شام پر بھی ظلم کی انتہا کر دی گئی ہے اور اسی طرح کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر ماں اور بیٹی کی عزتوں کو پامال کیا جارہا ہے اور کس طرح وہ لوگ صبح سویرے اٹھ کر سڑکوں پر پتھر لگادیتے ہیں اور شام میں آتے وقت وہ پتھرہٹا کر گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور اس خدشے اور احساس سے مغلوب ہوکر سوتے ہیں کہ معلوم نہیں کب سیکیورٹی فورسز کے کارندے انہیں اٹھاکر لے جائیں اور وہ واپس لوٹے یا نہیں ۔بیت المقدس جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا قبلہ اول رہا ہے دشمن اس کی حرمت کے در پے ہے ۔ زمیں کا ہر خطہ صرف مسلمانوں پر ہی طلم ڈھا رہا ہے۔کیوں کہ مسلمان قرآن سے دور ہوگئے ہیں ۔ ہماری خواری کا سبب سوائے ترک قرآن کے اور کچھ نہیں ہے ۔کیا آج بھی قرآن ہمارے لئے اسی طرح طاقت بخش نہیںہوسکتا ہے جیسا وہ قرون اولیٰ میں تھا۔کہ جب تین سو تیرہ کا لشکر ہزاروں پر بھاری تھا۔کہ جب فرشتے مدد کو اترا کرتے تھے۔ یقین کیجئے یہ قرآن ہی ہے جو کل بھی ہمارا نجات دہندہ تھا اور آج بھی ہماری بقا اسی قرآن سے تعلق میں پوشیدہ ہے۔نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے غافل مسلمانوں ۔۔۔ ۔

حصہ