تھڑوں کی سیاست

511

زاہد عباس
انتخابات قریب آتے ہی جہاں ایک طرف سیاسی پرندے اپنے گھونسلے بدلنے لگتے ہیں تو دوسری طرف اندرونِ شہر بنے سیاسی تھڑوں کی رونقیں بھی بحال ہونے لگتی ہیں۔ ایسا ہی ایک تھڑا ہمارے محلے میں بھی ہے۔ ویسے تو یہاں سارا سال ہی لوگوں کی بیٹھک لگی رہتی ہے، لیکن انتخابات سے قبل یہاں ہونے والی ’’کچہریوں‘‘کا اپنا ہی مزا ہے۔ ظاہر ہے جب مختلف سیاسی نظریات رکھنے والے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی جائز و ناجائز حمایت کریں گے تو بڑھتے سیاسی درجہ حرارت کو کون روک سکتا ہے! اب گزشتہ رات ہوتی بحث کو ہی لے لیجیے۔ ابرار ہماری جانب آتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھ کر اشارے کررہا تھا، قریب آتے ہی بولا’’مجھے تو ہر طرف پتنگیں ہی اڑتی دکھائی دے رہی ہیں، ہمشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی پتنگ کی اڑان اونچی ہی ہو گی،کراچی کل بھی متحدہ کا گڑھ تھا، آج بھی لوگ پتنگ سے ہی رومانس کرتے ہیں، جب جب مہاجروں کے خلاف کارروائی کی گئی، لوگوں نے پہلے سے زیادہ ایم کیو ایم کو سپورٹ کیا، ہمیں آزادی سے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، ہمارے لوگ علاقوں میں نہیں آسکتے، دوسری جماعتیں کھل کر کام کررہی ہیں، ایک پارٹی میں زبردستی بھرتی کروائی جارہی ہے، سارے جرائم پیشہ افراد لگائی گئی لانڈری میں دھل کر ’’صاف ستھرے‘‘ ہورہے ہیں، نہ جانے کون سا ایسا سرف ایجاد ہوگیا ہے جو سارے ہی داغ دھبے صاف کردیتا ہے! ہمارے خلاف آپریشن نئی بات نہیں، ہم نے پہلے بھی قربانیاں دی ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں، 25 جولائی کو ساری قوم باہر نکلے گی اور اپنی پارٹی کو ہی کامیاب کروائے گی، پتنگ کے نشان پر ٹھپے لگیں گے، سب کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی۔ یہ ظہیر بیٹھا ہے، اس سے پوچھ لو کہ اسے کس طرح دباؤ ڈال کر دوسری پارٹی میں جانے پر مجبور کیا گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا، نہ چاہتے ہوئے بھی پی ایس پی میں جانا پڑا، لیکن دل سے یہ آج بھی متحدہ کا ہی کارکن ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں، ابرارکو محض غلط فہمی ہے‘‘۔ ظہیر نے دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا ’’بھائی میں اپنی مرضی سے خوشی خوشی پی ایس پی میں گیا ہوں، متحدہ میں رات رات بھر ڈیوٹیاں دینی پڑتی تھیں۔ نہ دن میں چین اور نہ رات کو سکون… ایک قسم کی جنگی قیدیوں والی زندگی تھی۔ اپنے علاقے میں رہ کر اپنے ہی گھر چوروں کی طرح آیا جایا کرتا تھا۔ ماں باپ، بہن بھائی، یہاں تک کہ اپنی اولاد سے بھی آزادی سے نہیں مل سکتا تھا، ہر لمحے موت کا خوف طاری رہتا تھا… میں آج اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں سکون سے سوتا ہوں، یہ متحدہ کی پالیسی تھی کہ کارکنوں کو ٹینشن میں رکھیں تاکہ جائز ناجائز کام کروائے جا سکیں… بہت ہوگیا قوم قوم کا ڈراما، تیس سال مختلف حکومتوں کے مزے لوٹنے کے بعد پھر سے حقوق دلانے کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ جب سے مصطفی کمال نے پی ایس پی بنائی ہے لوگوں کو تحفظ ملا ہے۔ ہمیں تمام قومیتوں سے لڑایا گیا، مصطفی کمال نے لوگوں کے درمیان محبتیں پیدا کیں۔ آج اورنگی والے کٹی پہاڑی جاسکتے ہیں، اسی طرح لیاری والے آزادی سے ناظم آباد جارہے ہیں۔ لوگوں کے درمیان نفرتیں ختم ہورہی ہیں۔ یہ سارا کریڈٹ ہمارے ہی لیڈر کو جاتا ہے۔ اب کراچی بدل گیا ہے۔ پہلے متبادل نہیں تھا، اب پی ایس پی ہے۔ یہ ہمارے ہی لیڈر کا کمال ہے کہ شہر میں امن آیا۔ لوگ ہماری امن پسندی کے باعث ہمیں ووٹ دیں گے۔ اب ٹھپے لگانے کا دور گیا،25جولائی کا سورج ہماری کامیابی کی نوید لے کر طلوع ہوگا۔‘‘
’’چھوٹی پارٹیاں ہیں، ان سے ہمارا کیا مقابلہ! کراچی سے باہر سیاست کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ ایک ہی پارٹی تقسیم در تقسیم ہورہی ہے۔ نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے! نیم کے درخت میں آم نہیں آتے۔ سیاست کیسے کی جاتی ہے ہم سے پوچھو۔ سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا، بھٹو نے ہی غریبوں کی پارٹی بنائی۔ پیپلز پارٹی کے قیام سے پہلے مسلم لیگ سمیت ایک آدھ اور پارٹی ہوا کرتی تھی جو کہ زیادہ فعال نہ تھی۔ رہی بات مسلم لیگ کی، تو وہ ایک مخصوص طبقے کی پارٹی سمجھی جاتی تھی جس پہ نوابوں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری تھی، جو آج تک قائم ہے، غریبوں کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہ تھا، یہ ہمارا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو ہی تھا جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک نظریاتی پارٹی ہے جس نے مزدور کو آواز دی، کسان کی بات کی، جس سے عام آدمی سیاسی عمل میں شامل ہوا اور پھر پاکستان میں باقاعدہ سیاست کا آغاز ہوا۔ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر گلی، محلے، اور تھڑوں تک لانا بھٹو صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد مزدور سڑک پر آکر سرمایہ دار کو للکارنے لگا، کسان جاگیردار سے اپناحق مانگنے لگا۔ 1970ء کے الیکشن میں ایسے لوگوں نے جن کے پاس گاڑی تو دورکی بات سائیکل تک نہ تھی، بڑے بڑے نوابوں اور چودھریوں کی ضمانتیں ضبط کروادیں۔ ہماری جماعت نے ہی اس ملک کو آئین دیا، ہماری پارٹی نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی چار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ ہمارے ہی لیڈر کا خاندان پا کستان کی سیاست میں وہ واحد خاندان ہے جس نے اس ملک کی سیاست کو چار قیمتی جانوں کا نذرانہ دیا اور پارٹی کے تقریباً تمام لیڈروں نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اسٹیل مل، پورٹ قاسم سمیت بڑے بڑے منصوبے لگائے، ملک کو ایٹمی طاقت بنایا، دوسری طرف پی ایم ایل(ن) کے قائد میاں نوازشریف کو جنرل ضیا الحق، جنرل غلام جیلانی،اور جنرل حمیدگل کا منظورِ نظر سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح پی ٹی آئی کو جنرل پاشا سمیت کئی وردی والے ’’مہربان‘‘ میسر آئے۔ ماضی میں ایم کیو ایم اور آج پی ایس پی کے پیچھے کون ہے، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم نظریاتی لوگ ہیں، عوام تیر کو ہی ووٹ دیں گے۔ تم دیکھنا 25جولائی جیالوں کی فتح کا دن ہوگا، سارے پاکستان میں بس یہی نعرہ گونجے گا ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘۔
خانو کی باتیں سن کر رشید تو جیسے پھٹ پڑا ’’چپ کرجا، بہت منجن بیچ لیا تُو نے۔ آدھے گھنٹے سے تیری ہی سنے جارہے ہیں۔ کس کو سنا رہا ہے یہ فضول باتیں! ابے کون نہیں جانتا کہ 1979ء میں تیرے لیڈر کو کس جرم میں پھانسی لگی تھی۔ اُس وقت سے ہی یہ ’’زندہ ہے، زندہ ہے‘‘ کا راگ سنتے چلے آرہے ہیں، کان پک گئے ہیں سن سن کر۔ بھائی اگر بھٹو زندہ ہے تو لے آؤ۔ میرے ساتھ چلو اور دیکھو سندھ کی حالت… خاک اڑتی ہوئی ملے گی۔ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے عوام کو زبردستی اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ تعلیم ہے اور نہ صحت کی کوئی سہولت۔ غریب کے پیروں میں چپل تک نہیں۔ پاکستان میں، خاص طور پر صوبہ سندھ میں زیادہ تر تمہارا ہی اقتدار رہا ہے، سندھ کارڈ جیسے کھوکلے نعرے اور سندھ کی ترقی کے سبزباغ دکھاکر غریبوں سے ووٹ لینا تمہارا وتیرہ بن چکا ہے، سندھ کے حقوق کے نام پر کھربوں کی کرپشن تمہاری جماعت کے لوگوں نے ہی کی ہے، کل کے کنگلے آج ارب پتی بنے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کی بات تمہاری زبان سے اچھی نہیں لگتی۔ سیاسی مخالفین کو ایف ایس ایف کے ہاتھوں کس نے مروایا؟ تُو اپنی تقریر اپنے ہی پاس رکھ، اور سن، لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں۔ عمران خان ہی وہ واحد لیڈر ہے جو اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ یوتھ ہمارے ساتھ ہے، سمجھ لے تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہماری حکومت آئے گی اور سب کا احتساب ہوگا۔ نوازشریف تو گیا، اب تمہاری باری ہے۔ ایک ایک پیسہ وصول کیا جائے گا۔ عوام 25 جولائی کو ہمیں ووٹ دے کر روایتی اور خاندانی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیں گے۔ اب عمران خان کے کھلاڑی میدان میں اتر چکے ہیں، ہر جگہ سے بلا ہی جیتے گا۔‘‘
محفل خاصی گرم ہوتی جارہی تھی، ہر شخص دوسرے کو اپنی پارٹی کی کارکردگی بتاکر قائل کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ یہ ماحول دیکھ کر لگتا جیسے قومی اسمبلی کا اجلاس ہو۔ انتخابات قریب ہوں اور ہر شخص کو سیاست پر اپنی رائے دینے کی آزادی بھی ہو، ایسی صورت میں اصغر کیسے چپ رہ سکتا تھا! لمبی انگڑائی لیتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں بولا: ’’بہت شور مچا رکھا ہے تم نے، باتیں تو ایسے کررہے ہو جیسے ایم اے سیاسیات کر رکھا ہو۔ کل تک زبانیں پیٹ میں گری ہوئی تھیں، آج بڑھ چڑھ کر سیاسی تجزیے دے رہے ہو۔ یہ جو سڑک کنارے بیٹھ کر باتیں بگھار رہے ہو یہ سیاسی آزادی ہماری ہی حکومت کی وجہ سے ہے۔ یہ نوازشریف کا ہی جگرا تھا جس نے دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا، سیکورٹی اداروں کو اختیارات دیے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، تب ہی یہاں امن آیا۔ ہماری ہی حکومت نے چندہ، بھتہ، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ہماری جماعت کی کارکردگی سب سے بہتر ہے۔ نیشنل گرڈ میں ہزاروں میگاواٹ بجلی کا اضافہ کرکے ملک کو بجلی کے بحران سے نکالا، موٹر وے، اورنج ٹرین، سی پیک منصوبہ، ملک کے ہر بڑے شہر میں بین الاقوامی معیار کے ائیرپورٹ کی تعمیرسے لے کر تعلیم اور صحت کے منصوبوں کی تکمیل ہماری ہی حکومت کے کارنامے ہیں۔ یار کم سے کم ان منصوبوں کا اعتراف تو کرو جو ساری دنیا کو نظر آتے ہیں۔ مخالفت برائے مخالفت اچھی بات نہیں، تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ مان لو کہ ترقی کا دوسرا نام میاں نوازشریف ہے۔ جب جب نون لیگ کامیاب ہوئی، ملک ترقی کی جانب گامزن ہونے لگا۔ لہٰذا ’’جیتّے گا وئی شیر اک واری فیر‘‘۔
نوازشریف کی تعریفیں سن کر عدنان سے نہ رہا گیا، کہنے لگا: ’’یہ گو نواز گو کیوں ہورہا ہے؟ نیب میں ریفرنسز کس کے داخل ہورہے ہیں؟ لندن کی جائدادیں کس کی ہیں؟ حدیبیہ پیپر مل کیس میں کون نامزد ہے؟ پاناما میں کس کا نام آیا؟ پارلیمانی سیاست کرنے پر تاحیات پابندی کس پر لگائی گئی ہے؟ سب چور ہیں، سب کو حساب دینا پڑے گا۔ قوم سے لوٹی ہوئی دولت ہم واپس لائیں گے۔ ’’چہرے نہیں نظام بدلو، غریبوں کی صبح وشام بدلو‘‘۔ جماعت اسلامی کا اعلان ہے آئو ہمارے ساتھ، مل کر اس گلے سڑے نظام اور ان فرسودہ قوانین کا خاتمہ کریں جس کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں، یہ ہمارا وعدہ ہے کہ ہم اقتدار میں آکر دینِ اسلام کو اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی جس میں سیاست، معیشت، عدالت، معاشرت اور تعلیم وصحت وغیرہ شامل ہیں، میں عملاً نافذ کریں گے۔ نوجوانوں کو باعزت روزگار دیں گے، غریبوں کے لیے گزارہ الاؤنس کا بندوبست کیا جائے گا، امن وامان کو یقینی بنائیں گے، رشوت اور سفارش کے کلچر کو ختم کردیں گے، اسلامی نظام معیشت کو نافذ کرکے بلا سود بینکاری کو فروغ دیں گے۔ اس کے علاوہ اصراف کا خاتمہ، سادگی کو فروغ دینا، وسائل کی تقسیم کو یقینی بنانا، معاشی ترقی اور خوشحالی کا حصول، ہر شہری کے لیے خوراک، مکان اور علاج کی ضمانت، یکساں تعلیمی نظام کا نفاذ، دریائوں اور نالوں پر پن بجلی کے منصوبوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاستی وسائل میں اضافہ کرنا، ملک سے تھانہ کلچر اور پٹواری کلچر جس کے ذریعے غریب عوام کو دبایا جاتا ہے، کا خاتمہ کرکے اسے ایسی جدید اسلامی فلاحی ریاست بنادیں گے جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب جماعت اسلامی کو عوامی خدمت کی ذمے داری ملی، اس کے دور میں ریکارڈ ترقی ہوئی۔ کراچی کی ہی مثال لے لیجیے، بابائے کراچی میئر عبدالستار افغانی کے دور میں مثالی کام ہوئے، خاص کر شہر میں پانی کے منصوبے قابلِ تعریف ہیں۔ اور نعمت اللہ خان کا زمانہ کون بھول سکتا ہے! ہماری جماعت کے ترقیاتی منصوبوں نے کراچی کا نقشہ بدل دیا۔ سارے شہر میں پلوں، سڑکوں اور انڈر پاسز کا جال بچھا دیا، لوگوں کو سفری سہولیات دیں۔ جبکہ آج کراچی کا شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ بدترین سیاسی مخالف بھی جماعت اسلامی پر ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا۔ ہمارے ہاتھ صاف ہیں، ہم نے ہمیشہ بے لوث خدمت کی ہے۔ جماعت اسلامی اصولوں اور ایشوز پر سیاست کرتی ہے۔ جماعت اسلامی ان انتخابات میں دینی و سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے حصہ لے رہی ہے۔ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑنے کا واحد مقصد دینی جماعتوں کے ووٹ کو تقسیم سے بچانا ہے۔ سب سے درخواست ہے کہ 25 جولائی کو کتاب پر مہر لگائیں تاکہ اچھے اور باکردار افراد منتخب ہوں۔‘‘
عدنان کی جانب سے کی جانے والی باتوں کی کسی نے بھی مخالفت نہ کی۔ ہر شخص اس بات سے واقف تھا کہ جماعت اسلامی پر کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا کوئی الزام نہیں۔ اس جماعت کے اکابرین کو ہر شخص بڑی عزت سے دیکھتا ہے۔ رات تھڑے پر لگنے والی کچہری تو ختم ہوگئی لیکن دورانِ بحث اٹھنے والے سوالات ایک عام ووٹر کو یہ پیغام دے گئے کہ آپ کے ووٹ کا صحیح حق دار وہ ہے کہ جس کا ماضی اور حال عوام کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہو۔ اگر ہم اپنے ووٹ سے ایمان دار اور محب وطن افراد کو منتخب کریں تو پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

حصہ