عورت اور سیاست

1606

افشاں نوید
پاکستان:
کیا پاکستان کی تاریخ یہ گواہی پیش کرسکتی ہے کہ بے نظیر بھٹو جن کو دو بار ملک کی وزیر اعظم بننے کا شرف حاصل ہوا ان کے دور اقتدار میں پاکستان میں عورتوں کی حالت زار میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی!! عورتوں کی شرح خواندگی میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیاہو یا ان کے حلقہ انتخاب لاڑکانہ ہی میںخواتین یونیورسٹی بن گئی ہو۔ زچہ بچہ کے صحت کے مراکز کا جال بچھ گیا ہو۔ تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہو۔ وٹہ سٹہ کی قبیح رسم کا خاتمہ ہوگیا ہو۔ یا خواتین کے لیے ملازمتوں اور انصاف کے دروازے کھل گئے ہوں!!
سب کچھ ہمارے سامنے ہے اور تاریخ نے یہ گواہی ثبت کردی کہ کسی عورت کے سربراہِ مملکت ہونے سے عورتوں کو حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے عادل حکمرانی شرط ہے، کسی صنف کے حقوق کا تحفظ اس صنف کی سربراہی سے مشروط نہیں ہے۔
اسلام میں مردوزن کی مساوات
اسلام نے عورت کو تمدن اور معاشرت میں اس کے فطری مقام پر رکھ کر عزت وشرف کا مرتبہ عطا کیا ہے۔ ہماری اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ وہاں عورت کو اس وقت تک حقوق نہیں ملتے جب تک وہ مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ اسلامی تہذیب عورت کو ساری عزت اور تمام حقوق عورت کی حیثیت میں ہی دیتی ہے اور تمدن کی انہی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔
’’اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوعورت دنیا میں پھیلادئیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو اللہ تم پرنگرانی کررہا ہے۔ (سورۂ نساء آیت نمبر1)
قرآن نے بتایا کہ جس نفس واحدہ سے مرد وجود میں آیا ہے اسی سے عورت بھی وجود میں آئی ہے۔ وہ مرد ہی کی طرح معاشرہ کا ایک اہم رکن ہے۔ دونوں کو معاشرے کی خدمت میں اپنی اپنی استعداد وقوت کے مطابق اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘
یہاں ثابت ہوگیا کہ قدرت کی طرف سے خصوصیات عورتوں اور مردوں کو عطا کی گئی ہیں اس میں کسی پر کسی کی فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ قدرت اپنی بخشش میں بخیل نہیں ہے۔ ہر اک کو وہی دیا گیا ہے جس کی اس کو اپنے دائرہ کار کے لیے ضرورت تھی۔
اسلام نے اس تصور ہی کی جڑکاٹ دی کہ مرد اس لیے سربلند اور باعزت ہے کہ وہ مرد ہے اور عورت اس لیے فروتر ہے کہ وہ عورت ہے۔ اس کے نزدیک عورت اور مرد دو اکائیاں ہیں نہ کسی کے لیے برتری کا پروانہ ہے صنفی بنیاد پر نہ کمتری کا۔
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت اگر وہ مومن ہے تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ضرور ان کے اچھے کاموں کا اجر عطا کریں گے۔‘‘ (النحل 97)
مرد اور عورت کے درمیان فرق وامتیاز انسان کے ایک بازو اور دوسرے بازو کے درمیان فرق وامتیاز ہے۔ ایک کل کے دو اجزاء کے مابین تفریق ہے۔ مردوزن کی مساوات کی اس سے بہتر مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔
اسلام کا منشاء یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ امورخانہ داری کے علاوہ سارے کام عورت کے لیے ممنوع ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اصلاً گھر کی مالکہ اور منتظمہ ہے اس کی سماجی خدمات اس کے اصل قلعہ ’’گھر‘‘ کو کمزور کرنے کا باعث نہ بن جائیں۔
خانگی ذمہ داریوں کے تقاضے پورے کرنے کے بعد وہ نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی جدوجہد بھی اپنے حالات، ذوق اور رجحان کے مطابق حصہ لے سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان خواتین نے اپنے فطری دائرے میں رہتے ہوئے اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں نہ صرف دلچسپی لی بلکہ کار ہائے نمایاں انجام دئیے۔
البتہ اسلام عفت وعصمت کے معاملے میں بڑا حساس واقع ہوا ہے۔ وہ آزادانہ میل جول، بے تکلفی اور اختلاط کی کسی صورت اجازت نہیں دیتا۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اجنبی عورتیں اور مرد مخلوط میٹنگز میں شریک ہوں ، بے تکلفانہ ماحول خواتین کے لیے آزمائش بن جائے شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اسلام اپنی سوسائٹی کو ایک مضبوط حصار میں رکھتا ہے۔
ترجمہ: ’’زنا کے قریب بھی مت پھٹکو، اس لیے کہ وہ بے حیائی کا کام ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل 32)
سیاسی محاذ کیوں؟
دورِ اول کی مسلمان خواتین اگرچہ اعلیٰ سیاسی مناصب پر نظر نہیں آتیں لیکن وہ سیاست سے غیر متعلق کبھی نہیں رہیں۔ صرف یہی نہیں کہ وہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتی تھیں بلکہ انہوں نے بوقت ضرورت اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں بھی پیش کیں۔ مشورے بھی دئیے اور سیاسی خدمات بھی انجام دیں۔ جنگ جیسے حساس اور نازک مواقع پر بھی ہمیں خواتین کی شمولیت کی روایات ملتی ہیں۔ لیلیٰ الغفاریہ کے بارے میں علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں وہ جاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔‘‘(الاستیعاب)
طبقات ابن سعد میں درج ہے کہ ’’ام سلیط اسلام لائیں بیعت کی ا ور خیبر اور حنین مین شریک ہوئیں۔‘‘ (ابن سعد طبقات الکبریٰ)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ ہمارے لیے احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں۔ (ابن عبدالبر، الاستیعاب)
فاطمہ بنت قیس مشہور صحابیہ ہیں۔ ابتدائی مہاجرین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے حالات میں علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
’’وہ صاحب جمال اور عقل وکمال والی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان ہی کے مکان پر اصحاب شوریٰ جمع ہوئے تھے اور انہوں نے وہ تقریریں کی تھیں جو ان سے منقول ہیں۔ زبیر (ابن بکاء) نے کہا کہ وہ شریف خاتون تھیں۔ (ابن عبدالبر، الاستیعاب)
اس وقت سیاسی صورت احوال یہ ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر خواتین زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں داخل ہوچکی ہیں۔ عالمی منظر نامے میں خواتین سیاست میں اہم مقام حاصل کرچکی ہیں۔ دین کی علمبردار اور باپردہ خواتین یہ محاذ خالی نہیں چھوڑ سکتیں۔ سیاست اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ اقامت دین کے لیے ناگزیر ہے۔ جب دین قائم ہوگا تو نظام عبادت سمیت معاشرت، تمدن ہر چیز محفوظ ہوگی۔ جب سیلابی ریلا آتا ہے تو صرف اپنے گھر کی فکر سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ریلے کے آگے اجتماعی قوت صرف کر کے بند باندھ دیا جائے تو سب محفوظ ہوجائیں گے۔ صرف خود کو بچانے کی کوشش سب کو بہالے جائیگی۔ اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کی جدوجہد کو ’’دفع اللہ‘‘ اللہ کا دفع کرنا سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر اللہ ایمان والوں کے ذریعہ کفار کو دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی، مسجدیں اور دینی مراکز تک قائم نہ رہتے۔‘‘ یعنی دین کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ لادین لوگوں سے اقتدار چھین لیا جائے۔ اصل مقصد فساد کا خاتمہ ہے۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین نے تنہا ہجرتیں بھی کیں، جنگ کے میدانوں میں بھی گئیں، جہادی مہمات میں کھانا تیار کرنے، زخمیوں کو پانی پلانے، مرہم پٹی کرنے، شہداء کی میتوں کو میدان جنگ سے اٹھا کر واپس لانے کی ذمہ داری بھی ادا کی۔
حتیٰ کہ ام عمارہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے سیکورٹی گروپ میں شامل ہوگئیں اور آپ ؐ کی حفاظت کا فریضہ مردانہ وار ادا کیا۔ آپ ؐ نے تحسین فرمائی ایک عورت کی اس شجاعت اور دلیری کی۔ فرمایا: ’’میں احد کے موقع پر جدھر بھی رخ کرتا ام عمارہ کو سامنے موجود پاتا۔‘‘
آپؐ نے ام عمارہؓ کو اس خدمت پر مامور نہیں فرمایا تھا۔ انہوںنے اجتہاد کیا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت دراصل اسلامی ریاست کی حفاظت تھی۔ آپؐ نے ان کی تعریف فرمائی۔ گویا اسلامی ریاست کی حفاظت عورتوں پر مردوں کی طرح لازم نہیں ہے لیکن عورتیں اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ لینا چاہیں اور شریعت کی حدود کی پابند رہیں تو انہیں روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ عورت کے ہاتھ میں خنجر دینا اس کی فطرت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام عورتوں کو اپنی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم خواتین کو فوجوں میں بھرتی کرنا ان سے مردوں والی خدمات لینا اسلام کی پالیسی سے خارج ہے۔ جنگ حنین میں ام سلیم ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگیں اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔‘‘ ( مسلم)
ام عطیہ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت، سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا، زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپرد تھا۔ (ابن ماجہ)
حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ جو خواتین جنگی خدمات انجام دیتی تھیں ان کو اموال غنیمت میں سے انعام دیا جاتا تھا۔ (مسلم)
اس وقت امت مسلمہ پر صلیبی حملہ ہوچکا ہے۔ یہ حملہ اس وقت سے ہے جب انگریز اور دیگر استعماری قوتوں نے مسلمان ممالک پر قبضے کیے۔ اس وقت سے استعماری قوتوں نے اللہ کے نظام کو معطل کر کے طاغوتی نظام رائج کیے۔ آزادی کے بعد بھی اس نے اس بات کا اہتمام کیا ہوا ہے کہ اس کا نظام جاری وساری رہے۔ اگر کسی ملک میں جزوی طور پر اسلامی احکام جاری ہوگئے ہیں تو انہیں منسوخ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس بنا پر پاکستان میں اسلامی حدود تعزیرات اور ناموس رسالت کے قوانین کو ختم کرنے کا شور کیا جاتا ہے۔
اس وقت خواتین کو سیاست میں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ عالمی ایجنڈوں کے تحت تو خواتین کی مساوی شمولیت کی کوششیں ہیں ایسے میں دین دار خواتین کی اس میدان کے لیے عملی تربیت نہ کی گئی تو بڑے خسارے کا سودا ہوگا۔ مسلم امہ کے حالات بہت دگرگوں ہیں اس وقت اجتماعی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے طاغوتی نظاموں کے خلاف۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپؐ کے اتباع کے معنی یہ ہیں کہ میدان کو لادینیت کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے۔
جس وقت خواتین لادینیت کی تبلیغ کررہی ہوں کیا دین دار خواتین کو میدان لادین طبقہ کے لیے خالی چھوڑ دینا چاہیے۔ اس وقت سیاسی میدان میں لادین قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ خواتین اسلام ان کے لیے میدان کیوں خالی چھوڑدیں۔
قابل مبارک باد ہیں وہ خواتین جو ایک طرف چادر اور چار دیواری کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خانگی امور انجام دے رہی ہیں تو دوسری طرف سیاست کے میدان میں لادین عورتوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔ ان شاء اللہ وہ اللہ کے ہاں دہرے اجر کی مستحق ہوں گی۔

کتابیات

۱… اسلام اور مسلم خواتین
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
۲…عورت اور سیاسی حقوق
ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی حلقہ خواتین
۳…عورت اور اسلام
مولانا سید جلال الدین عمری
۴…عورت اور سیاست
ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی
۵…اسلام اور مسلم

حصہ