شریکِ مطالعہ

1460

نعیم الرحمٰن
اردو ادب کا عہدِ زریں مشتاق احمد یوسفی کے انتقال کے ساتھ ختم ہوگیا۔ مشتاق احمد یوسفی نے 70 سالہ ادبی زندگی میں اردو ادب کو صرف پانچ تصانیف ہی دیں۔ ان کی یہ پانچ کتابیں گزشتہ اور آئندہ تمام ادیبوں اور مصنفین کی بے شمار تخلیقات پر بھاری ہیں۔ ان کی تحریروں میں انشائیہ، خاکے، آپ بیتی، پیروڈی، مزاح کے تمام رنگ موجود ہیں۔ ابن انشا نے بجا کہا تھا کہ ’’مزاحیہ ادب کے موجودہ دورکو ہم کسی نام سے منسوب کریں تو وہ یوسفی کا ہی نام ہوگا‘‘۔ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کا کہنا ہے کہ ’’ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘‘
جے پور میں 1923ء میں پیدا ہونے والے مشتاق احمد یوسفی نے 1945ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس پوزیشن کے ساتھ فلسفے میں ماسٹرز اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اسی دور میں اردو کے ایک اور بے مثال نثر نگار مختار مسعود بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ اردو کے ان دو ادیبوں کی تحریروں کا کمال ان کی ریڈ ایبلٹی ہے۔ مختار مسعود اور مشتاق احمد یوسفی کی تحریر کی کوئی لائن، کوئی فقرہ یا پیرا قاری چھوڑ نہیں سکتا، بلکہ کئی پیراگراف لطف لینے یا سمجھنے کے لیے بار بار پڑھنے پڑتے ہیں۔ یہی حال ان کی کتابوں کا بھی ہے جنہیں کئی بار پڑھنے کے باوجود ہر مرتبہ نیا لطف آتا ہے اور قاری کوگراں نہیں گزرتا۔
مشتاق احمد یوسفی کی پہلی تحریر 1955 میں ’’صنفِ لاغر‘‘ تھی، جسے اردو کے نامور افسانہ نگار اور ادبِ لطیف کے مدیر میرزا ادیب نے شائع کرنے سے انکار کردیا، لیکن یوسفی مایوس نہ ہوئے، انہوں نے مضمون ترقی پسند ادب کے ترجمان رسالے ’’سویرا‘‘ کو بھیج دیا۔ سویرا کے ایڈیٹر حنیف رامے نے نہ صرف مضمون شائع کیا بلکہ مزید لکھنے کی ترغیب بھی دی۔ مصنف، مصور اور سیاست دان حنیف رامے کا اردو ادب پر یہ بڑا احسان ہے کہ انہوں نے مشتاق احمد یوسفی کو وقت کی گرد میں گم ہونے سے بچا لیا۔ یوسفی کا یہ مضمون اُن کے مضامین کے پہلے مجموعے ’’چراغ تلے‘‘ میں شامل ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ 1961ء میں ان کے عہدِ جوانی میں شائع ہوئی جس میں خالص مزاح اور چلبلا پن نمایاں ہے۔ کتاب کے منفرد انداز پر یہ بحث بھی چھڑی کہ ان مضامین کو ادب کی کس صنف میں شامل کیا جائے۔ انشائیہ، مضامین، افسانے یا رپورتاژ، انہیں جو نام بھی دیا جائے، شائع ہوتے ہی اس کتاب نے دھوم مچادی۔ اب تک اس کے 20 کے قریب ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
یوسفی صاحب کی دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ 1969ء میں شائع ہوئی، جس میں بڑھتی عمر کے ساتھ زندگی کو نئے رُخ سے دیکھنے کی کوشش واضح نظرآتی ہے، مزاح میں طنزکی آمیزش بھی نمایاں ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی کے موضوعات ’’کتے‘‘ اور ’’چارپائی‘‘ کو بھی موضوع بنایا، لیکن ان مضامین کو بالکل نئے اور منفرد انداز سے پیش کیا۔ پطرس بخاری کے مضمون میں انسان کے کتے سے خوفزدہ ہونے کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یوسفی صاحب نے کتے کی پرورش، اس کی عمرکے بارے میں غلط فہمی اور اس کی گھر میں موجودگی سے پیدا صورتِ حال کو طنز و مزاح کے انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی طرح رشید احمد صدیقی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی میں ’’چارپائی‘‘ کی اہمیت کے مضحک پہلو اجاگر کیے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے بدلتے سماج میں ’’چارپائی اور کلچر‘‘ کے نام سے مضمون میں چارپائی کے گوناگوں استعمال کے ساتھ اس کے کئی نام اور قسمیں بھی اپنے منفرد چلبلے انداز میں گنوائی ہیں۔ اسی طرح ’’صبغے اینڈ سنز‘‘ میں کتابوں کے عاشق ایک ریٹائر شخص کے کاروبار کے مضحکہ خیز پہلوؤں کو دل چسپ موضوع بنایا ہے۔ ’’بارے آلوکا کچھ بیاں ہوجائے‘‘ اور ’’کافی‘‘ کے عنوان سے مضامین کو پڑھ کر ان چیزوں سے قاری کا ایک بالکل نیا شگفتہ تعارف ہوتا ہے۔
1975ء میں مشتاق احمد یوسفی کی تیسری کتاب ’’زرِگزشت‘‘ منظرعام پرآئی جس میں بطورکامیاب بینکار انہوں نے اپنی ترقی کے سفرکو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ 1950ء میں بھارت سے پاکستان ہجرت اور پھر مشکل حالات میں نئے ملک اور نئے شعبۂ زندگی میں قدم رکھنے کا بیان بھی کیا خوب ہے۔ زرگزشت کو یوسفی صاحب نے ’’سوانح نوعمری‘‘ کا نام دیا ہے لیکن یہ ایک ادھیڑ عمر شخص کی زندگی کے تجربات پرمبنی تحریر ہے جس میں ایک کامیاب بینکار بننے کا ذکر پڑھنے والوں پر بھی محنت کی عظمت واضح کرتا ہے۔ یوسفی صاحب کی تصانیف کا اہم حصہ ان کے دیباچے یا مقدمے ہیں جو انہوں نے خود اپنے منفرد اور دل چسپ اسلوب میں لکھے ہیں۔ کسی کتاب میں کاتب، توکسی میں اہلِ زبان اورکسی میں اہلیہ سے گفتگو سے مزاح پیدا کیا ہے۔ زرگزشت کا مقدمہ ’’تُزکِ یوسفی‘‘ کے نام سے ہے جس کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے:
’’ایک زمانے میں دستور تھا کہ امرا و رؤسا عمارت تعمیرکراتے تو اس کی نیِو میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق کوئی قیمتی چیز رکھ دیا کرتے تھے۔ نواب واجد علی شاہ اپنی ایک منہ چڑھی بیگم معشوق محل سے آزردہ ہوئے تو اس کی حویلی ڈھا کر ایک نئی عمارت تعمیرکرائی۔ معشوق محل ذات کی ڈومنی تھی، اسی نسب سے اُس کی تذلیل و تضحیک کے لیے نیِو میں طبلہ، سارنگی رکھوا دیے۔ میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں کہ ’’پیشہ سمجھے تھے جسے ہوگئی وہ ذات اپنی‘‘۔ یہ ایک عام آدمی کی کہانی ہے، جس پر بحمدللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ایک ایسے آدمی کے شب و روز کا احوال جو ہیرو تو کُجا اینٹی ہیرو ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتا، میں خود کو سکندراعظم سے زیادہ خوش نصیب و کامران سمجھتا ہوں، اس لیے کہ میں زندہ ہوں، میری ایک سانس کی بادشاہت ابھی باقی ہے۔ نہاں خانۂ دل کی ہیرو گیلری پر نگاہ کی توکسی کی رمق تک اپنی ذات میں نظر نہ آئی۔‘‘
بلاشبہ مشتاق احمد یوسفی کی سانس کی بادشاہت اب باقی نہیں لیکن اردو ادب میں ان کی لافانی حیات کو کبھی فنا کا ذائقہ نہیں چکھنا پڑے گا۔ ان کی تحریر کا جادو، جب تک اردو زبان زندہ ہے، قائم و دائم رہے گا اورکسی دورکا قاری بھی اس کے سحر سے آزاد نہ ہوسکے گا۔ چند اور اقتباسات پیش ہیں: ’’نامۂ اعمال میں چند تبدیلیاں بوجوہ ناگزیر تھیں۔ اس میں پردہ نشینوں کے علاوہ کچھ کرسی نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ چنانچہ، باستثنائے مسٹراینڈرسن، نام ومقام بدل دیے گئے ہیں۔ کہیں کہیں واقعات اور ابواب میں تقدیم و تاخیر نظرآئے گی۔ چند کردار بھی عمداً گڈمڈ کردیے ہیں اور خوفِ فسادِ خلق سے سیاہ و سفید کو سفید وسیاہ کردیا ہے۔ اس کے باوجود اگر کہیں کسی شخصیت یا حقیقت سے مماثلت پائی جائے تو اسے فکشن کا سقم تصور کیا جائے۔ یہ ایک نوآموز بینکار کی آشفتہ بیانی ہے،کسی مقتول کا بیانِ نزعی نہیں جس کے اختتام پر اسے مرنے کی اجازت اور ملزم کو پھانسی دے دی جائے۔‘‘
’’آپ بیتی کی ایک مصیبت یہ ہے کہ آدمی اپنی بڑائی آپ کرے تو خودستائی کہلائے، اور ازراہِ کسرنفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کرلیں گے۔ ممکن ہے بعض پڑھنے والوں کو اس خودنوشت میں لکھنے والا خود کہیں نظر نہ آئے، تو یہ عین قرینِ حقیقت ہوگا۔ عام آدمی کی پہچان یہ بھی ہے کہ اس کی زندگی میں صرف تین موقعے ایسے آتے ہیں جب وہ تنہا سب کی نگاہوں کا مرکز ہوتا ہے: عقیقہ، نکاح اور تدفین۔‘‘
’’اگر آپ کو بھی انکشاف احوال واقعی پر اصرار ہے تو مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ 1974ء میں میرے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کا پریذیڈنٹ ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ جس انگریز جنرل منیجر نے 1950ء میں انٹرویو کرکے مجھے بینک میں ملازم رکھا، وہ اس وقت نشے میں دُھت تھا۔ اس واقعے سے سبق ملتا ہے کہ شراب نوشی کے نتائج کتنے دوررس ہوتے ہیں۔‘‘
’’زرگزشت‘‘میں مسٹر اینڈرسن کے مشتاق احمد یوسفی کے انٹرویو، اور زیڈ اے بخاری کی آپ بیتی ’’سرگزشت‘‘ میں مسٹر فیلڈن کے انٹرویو کی جھلک نظر آتی ہے۔ زیڈ اے بخاری صاحب ِاسلوب اور صاحبِ طرز مزاح نگار پطرس بخاری کے برادرِ خرد ہیں تو ان کا اندازِ بیان بھی خوب ہے۔ لیکن یوسفی صاحب کا بیان تو بقول سیف الدین سیف… ’’سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں‘‘۔
’’بینکاری کے اسرار و رموز تو کُجا، ہم نے تو زندگی میں کسی مسلمان بینکر کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے اس آؤٹ آف باؤنڈز پیشے میں اعلیٰ ہی نہیں ادنیٰ عہدوں پر بھی انگریز اور ہندو فائز تھے، البتہ مسلمانوں پر اپنی جمع جتھا سیونگ بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے پرکوئی پابندی نہیں تھی اور بے چارے مسلماں سے فقط وعدۂ سود۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی کے، کتاب سے اقتباسات دیے جائیں تو مضمون شیطان کی آنت بن جائے گا لیکن اقتباس ختم نہیں ہوں گے۔ تو ’’زرگزشت‘‘ کا ذکر یہیں ختم کرتے ہیں۔ یوسفی کی چوتھی کتاب ’’آبِ گم‘‘ 1990ء میں شائع ہوئی جس میں 67 سالہ مشتاق احمد یوسفی کی عملی زندگی سے سبکدوشی، دوستوں کی جدائی کا غم اور کھوئے ہوئے وقت کی تلاش نمایاں ہیں، جس میں ان کا فن عروج پرنظرآتا ہے۔ ’’آبِ گم‘‘ کو مزاح کی کتاب کہنا یکسر غلط ہوگا۔ یہ مزاحیہ سے زیادہ سنجیدہ کتاب ہے جس میں المناک واقعات کو مزاح کے شوگر کوٹڈ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے بارے میں یوسفی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’اس مجموعے کے بیشترکردار ماضی پرست، ماضی زدہ اور مردم گزیدہ ہیں۔ ان کا اصل مرض ناسٹل جیا ہے۔ جب انسان کو ماضی، حال سے زیادہ پُرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظرآنا ہی بند ہوجائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے۔ رقصِ طاؤس میں ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ ناسٹل جیا اسی لمحۂ منجمدکی داستان ہے۔‘‘
’’آب ِ گم‘‘ کے طویل مقدمہ کا عنوان ’’غنودیم غنودیم‘‘ ہے۔ کتاب میں پانچ مضامین ہیں: ’’حویلی‘‘، ’’اسکول ماسٹر کا خواب‘‘، ’’کار، کابلی والا اور الٰہ دین بے چراغ‘‘، ’’شہرِ دو قصہ‘‘ اور ’’دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ‘‘۔ کتاب کے بارے میں یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ ’’میں نے زندگی کو اور اپنے آپ کو ایسے ہی افراد و حوادث کے حوالے سے جانا پہچانا اور چاہا ہے۔ یہ ایسے ہی عام اور درماندہ لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنی ساخت، ترکیب اور دانستہ و آراستہ بے ترتیبی کے اعتبار سے مونتاژ اور پھیلاؤ اور فضابندی کے لحاظ سے ناول سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ یہ مشتاق احمدیوسفی کے دو جگری دوستوں کی باتیں اور یادیں ہیں جنہیں رسمی خانہ پُری کی خاطر میاں احسان الٰہی اور منورحسین کے فرضی نام دیے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے، دوست کوکسی بھی نام سے پکاریں، گُلوں ہی کی خوشبو آئے گی۔’’یہ اُن دوستوں کی یادوں پر مبنی و مشتمل دس خاکے اور مضامین ہیں جنہیں لندن میں لکھ کر حسبِ عادت پال میں لگا دیا۔ دونوں دوستوں نے بہ خوشی اور غیر مشروط اشاعت کی اجازت دے دی۔ چند سال بعد مسودہ نکالا تو محسوس ہوا کہ یہ کسی اور نے لکھا ہے۔ دس خاکے ایک کتاب میں نہیں سما سکتے تھے۔ ایک مسودے سے دو کتابیں برآمد کرنے کا جتن کررہے تھے تو منورحسین نے مختصر خط میں لکھا کہ مجھے ذاتی طور پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن ممکن ہے اس کی اشاعت میرے اعزہ واقربا کو اچھی نہ لگے۔ قبل اس کے کہ میں کراچی جاکر ان سے اس موضوع پر مفصل گفتگو کرتا، دو تین مہینے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اب میں عجیب پس و پیش میں مبتلا ہوگیا۔ دونوں کی یادیں اور باتیں ایک دوسرے میں کچھ اس طرح گتھی اورگندھی ہوئی تھیں کہ ان جُڑواں سیامی تحریروں کو بے ضرر عملِ جراحی سے علیحدہ کرنا میرے بس کا کام نہ تھا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ سارے مسودے کو یک قلم مسترد کرکے نہ صرف نام اور مقام بدل دوں بلکہ اول تا آخر سب کچھ فکشنلائز کردیا جائے جس کا ان دونوں سے تعلق نہ ہو‘‘۔ اور انہوں نے یہی کیا۔
کہتے ہیں کہ ’’آبِ گم‘‘ میں پانچ کہانی نما خاکوں میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے اس کا ان دوستوں کے واقعاتِ زندگی یا ان کے احباب، بزرگوں اور لواحقین سے قطعاً کوئی تعلق یا مماثلت نہیں ہے۔ گزارش ہے کہ فکشن کو فکشن سمجھ کر ہی پڑھا جائے۔ اگر کوئی واقعہ سچ اور کردار اصلی نظرآئے تو اسے محض سوئے اتفاق تصور فرمائیں۔ تمام تر واقعات و کردار فرضی ہیں، البتہ جن مشاہیرکا ذکر جہاں کہیں بربنائے تنقیص آیا ہے، اسے جھوٹ نہ سمجھا جائے۔
یوسفی صاحب نے بقیہ پانچ مضامین یا خاکے جلد پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن زرگزشت کے دوسرے حصے کی طرح یہ بھی کبھی منظرعام پر نہ آسکے۔ افتخار عارف نے مشتاق احمد یوسفی کے ایک سفرنامے کا بھی ذکرکیا ہے۔ یہ کتب اگر محفوظ ہیں تو یوسفی صاحب کے پرستاروں کے لیے تحفۂ خاص ہوں گی۔ ان کے مسودات کی تلاش اور اشاعت کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
2014ء میںکم و بیش 24 سال بعد مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب ’’شام شعر یاراں‘‘ شائع ہوئی۔ کتاب سے اکثر قاری مایوس ہوئے کیونکہ ان کی ہرکتاب پہلی سے بڑھ کر تھی اور قارئین کو اِس بار بھی ’’آبِِ گم‘‘ سے بہترکتاب کی امید تھی، لیکن ڈھلتی عمر میں اردو ادب میں سنگِ میل کتاب سے بہتر پیش کرنا ممکن نہ تھا۔ 2007ء میں اہلیہ ادریس فاطمہ کے انتقال کے بعد یوسفی صاحب بجھ کررہ گئے تھے۔ دوستوں کی جدائی کے بعد یہ آخری صدمہ ان کے لیے برداشت کرنا ممکن نہ تھا۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کتاب یوسفی صاحب کی مختلف اوقات میں کی گئی تقاریر اور تحاریر پر مبنی ہے جس پر انہیں نظرثانی کا موقع بھی خرابیٔ صحت کی وجہ سے نہیں مل سکا۔ کتاب کا حاصل ابن حسن برنی کی یادوں پر مبنی طویل مضمون ہے جس میں یوسفی صاحب کا مخصوص رنگ نمایاں ہے۔ اس مضمون سے آبِ گم کا مقدمہ بھی سمجھ میں آتا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی اب ہم میں نہیں لیکن وہ اپنی کتابوں اور تحریروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

حصہ