بزم شعر و سخن کے زیراہتمام تعزیتی ریفرنس اور عید ملن مشاعرہ

1039

ڈاکٹر نثار احمد نثار
۔21 جون بروز جمعرات بزم شعر و سخن کے زیر اہتمام خالد میر کی رہائش گاہ پر مشتاق احمد یوسفی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس ترتیب دیا گیا اس کے بعد مشاعرہ ہوا۔ پروفیسر منظر ایوبی عید ملن مشاعرے کے صدر تھے۔ ڈاکٹر آفاق اختر اور ڈاکٹر ماجد حامد مہمانان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے دونوں حصوں کی نظامت کی۔ مشتاق احمد یوسفی پر سلمان صدیقی‘ فہیم برنی‘ پروفیسر جلال اکبر‘ شکیل خان‘ فیروز ناطق خسرو اور پروفیسر منظر ایوبی نے سیر حاصل گفتگو کی۔ فہیم برنی نے کہا کہ وہ مشتاق یوسفی کی تدفین کے مراحل میں شامل تھے ان کے لیے یہ لمحات ناقابل فراموش ہیں کہ ایک چراغ زمین مین دفن ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشتاق احمد یوسفی کی کتابوں کو اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ پروفیسر جلال اکبر نے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی طنز و مزاح نگاری کی صف میں ایک معتبر نام ہے‘ ان کی ادبی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں ’’کمالِ فن ایوارڈ‘‘ پیش کیا تھا۔ ان کے جملوں کی کاٹ بہت مشہور ہے ان کے انتقال سے ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ مشتاق یوسفی کی پانچ کتابیں چراغ تلے‘ خاکم بہ دہن‘ زرگزشت‘ آبِ گم اور شام شہرِ یاراں منظر عام پر آچکی ہیں جو کہ اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ان کے طنز و مزاح میں پھکڑ پن نہیں ہوتا تھا بلکہ انتہائی شائشتگی کے ساتھ وہ بڑی سی بڑی بات کہہ جاتے تھے۔ شکیل احمد خان نے کہا کہ مشتاق یوسفی نے بھرپور زندگی گزاری تھی ان کی عمر 95 سال تھی‘ وہ 1923 میں پیدا ہوئے اور 20 جون 2018 کو وفات پائی اس وقت ان کے پائے کا کوئی طنز و مزاح نگار نہیں ہے۔ ایک عہد ختم ہوا۔ فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ:

خسرو فضائے شعر و سخن بھی اداس ہے
اب کوئی دل کے زخم سیے بھی تو کیا سیے
اک باب ختم ہو گیا طنز و مزاح کا
بن عہدِ یوسفی کے جیے بھی تو کیا جیے

انہوں نے مزید کہا کہ مشتاق یوسفی سیدھے سادے الفاظ میں طنز و مزاح لکھا کرتے تھے تاکہ عوام تک ان کی بات پہنچ جائے۔ وہ ایک قادر الکلام نثر نگار تھے۔ ان کی شخصیت و فن پر گفتگو کے لیے ایک سیمینار کیا جائے تاکہ ہم اس عظیم مصنف کو شاندار خراج عقیدت پیش کرسکیں۔ پروفیسر منظر ایوبی نے کہا کہ وہ بزم شعر و سخن کے عہدیداران و اراکین کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے مشتاق یوسفی کے لیے یہ اجلاس بلایا۔ مشتاق یوسفی کے لیے یہ سب سے پہلا تعزیتی ریفرنس ہے انہوں نے مزید کہا کہ مشتاق یوسفی ایک اچھے قلم کار بھی تھے اور اچھے انسان بھی۔ ان میں غرور و تکبر نہیں تھا‘ وہ منسکرالمزاج تھے ان کے جملوں میں طہارت و تقدس پایا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کے صوبے راجستھان کے علاقے ٹونک میں پید اہوئے‘ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی انہوں نے مسلم علی گڑھ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا تھا جس کی بنا پر وہ بینک میں ملازم ہوئے ان کی ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں‘ اس قسم کے عظیم لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں‘ ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی تلافی ناممکن ہے۔ اس موقع پر امجد محمود نے ایک قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ کوئی اہم شاہراہ یا پارک کو مشتاق یوسفی کے نام سے منسوب کریں تمام شرکائے محفل نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں پروفیسر منظر ایوبی‘ ڈاکٹر آفاق اختر‘ آصف رضا رضوی‘ فیروز ناطق خسرو‘ ڈاکٹر طاہر حسین‘ ڈاکٹر ابونعیم فاروقی‘ سلمان صدیقی‘ ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ نورالدین نور‘ احمد جہانگیر‘ خالد میر‘ بابر فاروقی‘ باقر نقوی‘ احمد سعید خان‘ تنویر سخن‘ عبیداللہ کیہر‘ عمار خان‘ ثروت سلیم اور حمیرہ گل تشنہ نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ اس مشاعرے میں کم از کم ایک سو سامعین موجود تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ راقم الحروف بزمِ شعر و سخن کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ انہوں نے عمدہ گیدرنگ کا اہتمام کیا۔ یہ پروگرام دوسری ادبی تنظیموں کے لیے مشعل راہ ہے‘ پروگرام میں شفیق اللہ اسماعیل نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور حمد باری تعالیٰ راحیل احمد نے پیش کی۔ خالد میر نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اردو ادب کے طالب علم ہیں اور شعر و سخن کے لیے کام کررہے ہیں ہم ہر مہینے مشاعرہ کراتے ہیں جس میں نئے نئے شاعروں کو متعارف کراتے ہیں۔ طارق جمیل نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ سامعین کو ادبی روایات سے جوڑنا قلم کاروں کی ذمے داری ہے ہم چاہتے ہیں کہ نئی نسل میں کتب بینی کو پروان چڑھائیں۔ مشاعرہ کلچر پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے اس موقع پر طارق جمیل نے اعلان کیا کہ وہ اگست 2018ء میں کُل پاکستان مشاعرہ کریں گے جس میں کم از کم دو ہزار سامعین موجود ہوں گے۔ ہم اس مشاعرے میں منتخب شعرا کو دعوتِ کلام دیں گے جس کا فیصلہ بزم شعر و سخن کی کمیٹی کرے گی۔ پروفیسر منظر ایوبی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ مشاعرے تو ہر زمانے کی ضرورت ہیں یہ ہماری تہذیبی اقدار کے فروغ میں معاونت کرتے ہیں حکومتی سطح پر مشاعروں کا انعقاد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اچھا ادب تخلیق کریں۔

ملک ادبی فورم میرپور خاص کی عید ملن اورمشاعرہ

ملک ہائوس‘ رتن پھاٹک میرپور خاص میں ملک ادبی فورم میرپور خاص کے زیر اہتمام ملک ہائوس غوثِ اعظم سٹی میرپور خاص کے تعاون سے کُل سندھ عید ملن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کے صدر محمد حسین ماہر اجمیری تھے۔ مہمان خصوصی میںڈاکٹر جاوید منظر‘ پروفیسر عتیق جیلانی‘ راقم الحروف نثار احمد اور حمیرہ راحت شامل تھے۔ صفدر علی انشا‘ یاسمین زاہد اور نزہت عباسی مہمانان خصوصی تھے۔ حبیب الرحمن چوہان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سیاسی و سماجی رہنما راجا عبدالحق اس پروگرام کے میزبان تھے۔ نعت رسولؐ اور تلاوت کلام مجید کی سعادت مولانا نظام الدین کے حصے میں آئی۔ عبدالغفار چوہان نے کلمات تشکر ادا کیے۔ ملک نور محمد طالب نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج کے مشاعرے میں شریک تمام شعرا و سامعین کا تہہ دل سے شکر ادا کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ محفل جگمگا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک برادری میرپور خاص کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہے اس برادری میں مختلف قبائل شامل ہیں جن کی فلاح و بہبود کے لیے ملک یوتھ ونگ قائم کیا گیا ہے جس کے تحت ملک برادری میں شامل قبائل و خاندان کی History مرتب کی جائے گی۔ ملک ہیلپ لائن کے تحت متاثرہ افراد کی مدد کی جائے گی‘ ملک ڈاکٹرز فورم کے پلیٹ فارم سے مریضوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جائیں گی ملک ادبی فورم کے تحت مشاعرے اور دیگر ادبی پروگرام ترتیب دیے جائیں گے آج اسی فورم کے زیر اہتمام کُل سندھ مشاعرہ جاری ہے ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ادب کی خدمت کرتے رہیں۔ راجا عبدالحق نے کہا کہ وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میرپور خاص سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ میں قلم کاروں کا بہت احترام کرتا ہوں‘ یہ وہ طبقہ ہے جس کو ہم معاشرے کا معمار کہہ سکتے ہیں۔ میں اگر الیکشن میں کامیاب ہو گیا تو میرا وعدہ ہے کہ میں قلم کاروں کے مسائل حل کرانے میں سرکاری طور پر مدد کروں گا‘ خدانخواستہ میں ہار گیا تب بھی میں ادیبوں اور شعرا کے دکھ درد میں شریک رہوں گا اور ہر ممکن ان کی مدد کروں گا۔ ناظم مشاعرہ حبیب الرحمن چوہان نے بہت عمدہ نظامت کی انہوں نے کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ تیز اور ہلکے پھلکے جملوں سے سامعین کے دلوں کو گرماتے رہے اپنی نظامتی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس مشاعرے کی افادیت پر بھرپور روشنی ڈالی جس کا لب و لب و لباب یہ تھا کہ سندھی اور اردو زبانوں کے فروغ کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا‘ ہمیں متحد ہو کر زبان و ادب کے کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ مشاعرے انسانی ذہن کو تازہ دَم رکھتے ہیں۔ ہم مشاعروں کی محفلیں سجاتے رہیں گے۔ اس مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھے جو ہر اچھے شعر پر داد دے رہے تھے۔ مشاعرے میں سندھ کے تمام علاقوں کے نمائندہ شعرا کو شریک کیا گیا تھا یہ مشاعرہ رات 11 بجے شروع ہوا تھا اور ڈھائی بجے اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ رفیق ساغر‘ یعقوب خاور‘ یونس عظیم سعیدی جاوید خان جاوید‘ رشید شاداب‘ غلام مصطفی تبسم‘ احمد عمران قریشی‘ مرزا عاصی اختر‘ پروفیسر سلیم اقبال‘ نوید سروش‘ شبیر جہانگیر‘ جاوید پارس‘ محمد علی منظر‘ جاوید شیخ‘ مرتضیٰ چشتی‘ صدیق ہمایوں‘ ماجد حسین‘ نعیم الدین نظر‘ عابد توصیف‘ ڈاکٹر صدیق نوحانی‘ دلبر علی‘ عابد علی‘ اعجاز بابو خان‘ ملک ندیم شاہ‘ عدنان قمر‘ نعمان سعید‘ لاریب رحمانی‘ یوسف چوہان اور معاذ عالم نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ مشاعرے کو کامیاب بنانے میں نوید سروش کی خدمات بھی شامل تھیں ویسے بھی وہ میر پور خاص کے ادبی منظر نامے کا اہم حصہ ہیں ان کی ادبی تنظیم تواتر کے ساتھ وہاں ادبی پروگرام منعقد کرتی ہے۔ کئی شاندار پروگرام ان کے کریڈٹ پر ہیں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کی عید ملن مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو علم دوست شخصیت ہیں وہ شاعر بھی ہیں انہوں نے جب سے کراچی سرکل کا چارج سنبھالا ہے اپنے آفس کے حیدری ہال میں باقاعدگی سے شعری نشستیں‘ مذاکرے‘ تعزیتی ریفرنس‘ میٹ ٹو رائٹر پروگرام اور مجالس مسالمہ منعقد کر رہے ہیں ان پروگراموں میں قلم کاروں کی اچھی خاصی تعداد شریک ہوتی ہے گزشتہ دنوں انہوں نے عید ملن مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے شاعر منیف اشعر نے کی۔ راقم الحروف کو مہمان خصوصی بنایا گیا جب کہ کوئٹہ سے آنے والے مہمان شاعر راغب تحسین اور اقبال سہوانی مہمانان خصوصی تھے۔ قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ شہناز رضوی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ یہ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے دور میں اردو شاعری اور نسائی شعور کے موضوع پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا اس موقع پر قادر بخش سومرو نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ادرے کے تحت پاکستان کی تمام علاقائی زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں ہمارے صوبے سندھ کی سرکاری زبان سندھی ہے جب کہ اردو ہماری قومی زبان ہے ہم اردو‘ سندھی مشاعروں کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور خالصتاً اردو یا سندھی مشاعرے بھی ترتیب دیتے ہیں۔ ہمارا مقصد لوگوں میں بھائی چارہ‘ پیار و محبت اور مواخات کے رشتوں کو مضبوط کرنا ہے جب تک متحد نہیں ہوں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے اور ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکے گا‘ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور تباہی میں اہلِ قلم بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بالخصوص کراچی میں ادبی سرگرمیاں مثبت انداز میں جاری و ساری ہیں انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں نسائی ادب و شعور نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اردو شاعری میں تذکیر و ثانیت کی تقسیم مناسب نہیں لگتی۔ خواتین نے بھی شاعری میں نام کمایا ہے انہوں نے ہر صنف سخن میں اشعار کہے ہیں‘ افسانے‘ کہانیاں‘ ڈرامے اور ناول بھی لکھے ہیں۔ نسائی ادب میں آج بھی قابل قدر اضافہ ہورہا ہے۔ صاحبِ صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کے پروگرام میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی قادر بخش سومرو کا یہ حوصلہ قابل ستائش ہے کہ وہ ایک ماہ میں چار پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیارِ غیر میں آباد قلم کاروں کی تحریروں میں ہجرت کا کرب نمایاں نظر آتا ہے کینیڈا میں کئی ادبی ادارے اپنی مدد آپ کے تحت اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں ان شاء اللہ اردو زبان مزید عزت و شہرت پائے گی۔ پاکستان میں عدالتی فیصلے کے مطابق اردو زبان سرکاری طور پر نافذ العمل نہیں ہو پائی لیکن اس کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سید علی اوسط جعفری‘ پروین حیدر‘ محسن سلیم‘ عبدالمجید محور‘ صغیر احمد جعفری‘ تنویر سخن‘ مہتاب شاہ‘ عارف شیخ‘ شاہ روم ولی‘ شگفتہ شفیق‘ تاج علی رانا‘ اکرم راضی‘ یوسف اسماعیل‘ کاشف علی ہاشمی‘ نجیب عمر‘ حمیرا گل تشنہ‘ رفیق مغل‘ شبیر نازش صدیق راز‘ شکیل وحید‘ فرح دیبا‘ شہناز رضوی‘ فہمیدہ مقبول‘ زارا صنم‘ عشرت حبیب‘ حدیفہ دعا‘ نشاط غوری اور دیگر نے اپنا کلام پیش کیا جب کہ شبیر نازش نے کلام سنانے سے قبل کہا کہ شاعری کے لیے مصرع کا بحر میں ہونا ضروری ہے جب کہ کچھ لوگوں نے آج کے مشاعرے میں بے بحر اشعار بھی پیش کیے ہیں اس لیے تمام شعرا کو چاہیے کہ مشاعرہ پڑھنے سے پہلے مشاورت سخن کیا کریں۔

حصہ