قیدی خواتین کی معاشی و روحانی نشونما، جیل کہانی

379

قدسیہ ملک
حقوقِ نسواں سے مراد وہ حقوق (rights) اور قانونی استحقاق (entitlement) ہیں جن کا مطالبہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں خواتین اور لڑکیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے، اور جن کے مطالبے نے انیسویں صدی کی حقوقِ نسواں تحریک اور بیسویں صدی کی تحریکِ نسائیت (feminist movement) کو بنیاد فراہم کی۔ بہت سے ممالک میں ان حقوق کو غصب یا نظرانداز کیا جاتا ہے۔ حقوقِ نسواں کی اصطلاح عام طور پر جن حقوق کے لیے استعمال کی جاتی ہے اُن میں خواتین کے لیے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خودمختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائشِ نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔
یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کردیا۔ ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کر مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی عیسائی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔ سینٹ جیروم(St. Jerome) نے کہا:
“Woman is the gate of the devil, the path of wickedness, the sting of the serpent, in a word a perilous object.”
مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوقِ نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے womyn کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انہوں نے نوعی امتیاز (Gender Discrimination) سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔ مختلف اَدوار میں حقوقِ نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین میں (1820-1906) Susan B. Anthony کا نام نمایاں ہے جس نے National Woman’s Suffrage Association قائم کی اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی، جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے fair hiring paid maternity leave practices اور affordable child care کی منظوری دی گئی۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی۔ Jeanette Rankin of Montana پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہوسکی۔اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقاء کی اعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ مجرم معاشرے میں جو مقام پاتاہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ مرد اور عورتوں کی بھی تخصیص ہے۔ مجرم اگر مرد ہو تو معاشرے کا رویہ مختلف ہوتا ہے، اور اگر وہی جرم کسی عورت نے کیا ہو تو معاشرے کا رویہ کیسا ہوتا ہے، اور آیا معاشرہ اسے معاف بھی کرتا ہے یا نہیں، اس سلسلے میں اگر ہم عورتوں کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا جائزہ لیں کہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس خلا کو پُر کرنے میں کس حد تک کامیاب ہیں، آیا وہ اپنا کام احسن انداز میں انجام دے بھی رہی ہیں یا نہیں، زیرنظر تحقیق اسی موضوع کو سامنے رکھ کرکی گئی ہے۔
٭عنوان:
’’جیلوں میں خواتین کی فکری و معاشی نشوونما میں این جی اوز کاکردار‘‘
2۔مسئلہ تحقیق (Statement of the Problem):
دور جدید میں این جی اوز نے بہت زیادہ اہمیت اختیار کرلی ہے۔ ہر معاشرے میں ان کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ سول سوسائٹی کو بہت زیادہ ان کے ذریعے منظم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ این جی اوز کا تصور بجائے خود برا نہیں۔ ان کے اساسی اہداف نیک ہی ہیں۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث صحت، تعلیم، غربت اور سماجی شعور کے متعلق مسائل گمبھیر شکل اختیار کرچکے ہیں۔ حکومتوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ سرکاری سطح پر یہ مسائل حل کرسکیں۔ اس پس منظر میں این جی اوز کے قیام کا رجحان کسی نیک مشن سے کم نہیں، لیکن یہ نیک مشن اُس وقت معاشرے کے لیے عذاب بن جاتے ہیں جب ان کے ظاہری اہداف کے پیچھے خفیہ مقاصد بھی دبے پاؤں چلے آتے ہیں۔ یہ این جی اوز ترقی یافتہ ممالک کے فنڈز اور ڈونر ایجنسیوں کی امداد سے چلتی ہیں۔ امداد کے ساتھ ساتھ این جی اوز اپنے مشنری، مذہبی، اقتصادی، جغرافیائی اور دیگر خفیہ مقاصد کو بھی ایکسپورٹ کرنے لگیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈونر ممالک میں زیادہ تر غیرمسلم مغربی ممالک شامل ہیں۔ اس لیے ان مخصوص اہداف اور مقاصد کا شکار زیادہ تر تیسری دنیا کے مسلم ممالک ہیں۔ اس تحقیق میں پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کی جانب سے پاکستان میں موجود قیدی خواتین کی ترقی کا جائزہ لینا ہے۔ یہ بھی جاننا مقصود ہے کہ جیل سے نوآموز مجرم عادی مجرم بن کر کیوں نکلتے ہیں۔ یہی اس تحقیق کا مقصد بھی ہے۔
٭ تحقیقی سوالات(Research Question):
1۔ این جی اوز معاشرے کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کررہی ہیں؟
2۔ جیلوں سے چھوٹنے کے بعد فرد کی سماجی تربیت میں این جی اوز کیا کردار ادا کررہی ہیں؟
3۔ جیلوں میں موجود خواتین کی ذہنی و معاشی نشوونما میں این جی اوز کا کیاکردار ہے؟
4۔کیا این جی اوز معاشرے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے ذیلی مقاصد بھی حاصل کرتی ہیں؟
5۔ معاشرے کا ایک عام فرد ان این جی اوز پرکتنا بھروسا کرتا ہے؟
٭مفروضہ (Hypothesis):
عمومی رائے یہ ہے کہ ’’جیلوں میں قیدی کی ذہنی و روحانی نشوونما کے حوالے سے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کوئی مثبت کام نہیں ہورہا۔ جیلوں میں جانے والے نوآموز مجرم عادی مجرم بن کر نکلتے ہیں جس کے باعث معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا۔‘‘
٭محدودات (Limitation):
تحقیق کے لیے جس طریقہ کار کا انتخاب کیا گیا ہے وہ کیس اسٹڈی ہے۔ اس کی کچھ محدودات بھی ہیں جن کا جاننا ضروری ہے۔
٭ ذہنی جھکائو(Bias): اس کام میں بہت امکان یہ ہوتا ہے کہ تحقیق کار تمام تحقیق کو اپنے نکتہ نظر سے دیکھے، لیکن تحقیق میں حتی الامکان یہ کوشش کی گئی ہے کہ تحقیقی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیق کی جائے اور ذہنی جھکائو کو ایک جانب رکھا جائے۔
٭ناممکن تعمیم(Impossible Generalization): کیس اسٹڈی کے نتائج کسی طور پر قابلِ تعمیم نہیں ہوتے۔ ان کا تعلق صرف اس عصری اکائی سے ہوتا ہے جس پر تمام توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
٭ وقت طلب(Time Consuming): یہ طریقہ تحقیق بہت زیادہ وقت طلب ہوسکتا ہے۔ ممکنہ طور پر مواد کا جائزہ لینے میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
٭خرابیٔ یادداشت سے مغالطے: غلط یادداشت کا پکڑنا ناممکن ہوتا ہے۔ ملاقاتوں میں ایسے معاملات زیر تذکرہ آسکتے ہیں جن کا انحصار یادداشت کی درستی اور صحت پر ہو۔
فوائد (Advantages):
کیس اسٹڈی ایک اہم تحقیقی طریقہ ہے جس کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ زیرنظر تحقیق میں تمام فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
٭بھرپور تفصیلات (Wholesome Details): مواد کے متعدد ذرائع بروئے کار لانے سے غیر معمولی اور بھرپور تفصیلات جمع ہوتی ہیں۔
٭ حقیقی سیاق و سباق(Real Life Context):کیس اسٹڈی میں یہ سوالات اہم ہوتے ہیں کہ کوئی شخصیت کسی خاص سانچے میں کیوں ڈھلی؟ کوئی خاص واقعہ کیسے رونما ہوا؟ اکائی کا مطالعہ ایسے سوالات کے مکمل جوابات فراہم کرتا ہے۔ تحقیق کرنے والا پورے ماحول کو دوبارہ مرتب کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
٭متاثر کن شواہد(Convincing Evidence):محقق کو اپنے اخذ کردہ نتائج کے شواہد بڑی تعداد میں میسر آتے ہیں۔ یہ شواہد دوسرے طریقہ ہائے تحقیق میں اتنے وافر نہیں ہوتے۔
مزید تحقیق کے امکانات (Possibility Of Further Research): حاصل ہونے والی غیر معمولی تفصیلات سے مزید تحقیق کے خیالات، اشارے مل سکتے ہیں۔
٭ ضرورتِ تحقیق (Need Of Study):
جرم ریاست کے فوجداری و دیوانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ گناہ اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ برائی اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ ان تینوں کی خلاف ورزی انحراف ہے۔ جرم کی سزا ریاست کے قانون کے مطابق دی جاتی ہے۔ مجرم(Criminal)، گنہگار(Sinner)اور براآدمی(Bad man) کہلاتا ہے۔ یہ تینوں منحرف کردار ہیں۔ اس پر تحقیقات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ لیکن ایک مجرم، جرم کی سزا کے بعد معاشرے میں اپنا کیسا مقام پاتا ہے، دوبارہ معاشرے میں کیسے سلوک کا مستحق ٹھیرتا ہے، کیا اپنا وہی مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرپاتا ہے جو جرم کی سزا پانے سے پہلے وہ معاشرے میں بناچکا تھا؟ ایسے لوگوں پر یا تو تحقیق نہیں کی جاتی یا پھر جرم سے پہلے کی زندگی کو بیان کیا گیا ہوگا۔ تحقیق کا مقصد مجرم خواتین میں سزا کے بعد کی سماجی زندگی اور اس میں ہونے والی مشکلات پر بذریعہ کیس اسٹڈی تحقیق کی گئی ہے۔
٭ رفعت بانو کا عصری مطالعہ:
نام: رفعت بانو۔ موجودہ ذریعہ معاش: سلائی کڑھائی۔ بچوں کی تعداد:4 لڑکے۔ موجودہ رہائش: احسن آباد،گلشن معمار۔
’’میں ایبٹ آباد میں پیدا ہوئی۔ وہیں پلی بڑھی۔گھر میں ٹی وی تھا، اُس سے مجھے شہر کے حالات پتا چلتے۔ شہر بہت بڑے ہوتے ہیں۔ وہاں عورتیں بھی جاب کرتی ہیں۔ بہت پیسہ ہوتا ہے وہاں سب کے پاس۔ شادی ہوگئی۔ میں نے اپنے شوہر کو کراچی شہر آنے کے لیے راضی کرلیا۔ میرے میکے والے اس بات سے بہت ناراض ہوئے۔ لیکن ہم پھر بھی کراچی آگئے۔ یہاں آکر ہم ایک چھوٹے سے کمرہ نما مکان میں رہنے لگے جس کا کرایہ بھی دینا ہوتا تھا۔ میرا شوہر روز کے 100 روپے کماتا تھا۔ وہ ہوٹل میں برتن دھوتا تھا۔ شادی کے دو برسوں میں دو بچے بھی ہوگئے۔ میں ایک پیکجنگ کمپنی میں ملازمت کرنے لگی جہاں گارمنٹس کا سامان پیک ہوکر بیرونِ ملک جاتا تھا۔ زندگی کی گاڑی بہت مشکل سے چل رہی تھی۔ میں چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں، لیکن میرے کراچی آنے پر ناراض ہوکر سب نے میری مدد سے ہاتھ کھینچ لیے تھے۔ ہم دونوں میاں بیوی بہت پریشان رہتے تھے۔ ایک دن میرے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی نے جب میرے حالات سنے تو مجھے اپنے ساتھ چلنے کوکہا۔ چھٹی پر جب میں اُس کے ساتھ گئی تو کیا دیکھا کہ ایک تنگ گلی میں جاکر اُس نے اپنے بیگ سے ایک پستول نکالا اور کہا ’’دیکھو آمدنی میں کیسے اضافہ ہوتا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر واپس پستول کو اپنے پرس میں چھپایا اور مصروف سڑک پر آگئی۔ وہاں ٹریفک جام تھا۔ اُس نے ایک گاڑی کے قریب جاکر پستول سے شیشہ نیچے کرنے کو کہا۔ گاڑی میں بیٹھی عورت نے جلدی سے شیشہ نیچے کیا اور اپنے کڑے، لاکٹ اور کان کے ٹاپس نکال کر اس کے حوالے کردئیے۔ وہ میرے ساتھ یہ سب چیزیں لے کر سنار کے پاس گئی اور بیچ دیں۔ اسی وقت اُس کے ہاتھ میں 20 ہزار روپے موجود تھے۔ اُس نے یہ طریقہ مجھے بھی بتایا۔ ایک ٹی ٹی بھی لاکر دی۔ بس پھر کیا تھا، میں بھی فیکٹری سے واپسی پر یہی کام کرنے لگی۔ پولیس آتی تو ہم سب بھاگ جاتے۔ اب میں بھی بہت اچھے کپڑے پہنتی، اچھا کھاتی۔ شوہر سے کہہ دیا کہ تنخواہ بڑھ گئی ہے۔ وہ بھی مطمئن ہوگیا۔ اب میں دوبارہ امید سے ہوئی لیکن وہی کام کرتی رہی۔ اچانک ایک دن پولیس آگئی۔ سب بھاگ گئے۔ چونکہ میں حاملہ تھی، بھاگ نہ سکی اور پکڑی گئی۔ مقدمہ چلا، مجھے جیل ہوگئی۔ سی آر پی سی 392 کے تحت مجھے سزا ہوئی۔ جیل سے عملے کے ساتھ ہسپتال جاکر جب میرا میڈیکل چیک اپ ہوا تو پتا چلا میں جڑواں بچوں کی ماں بننے والی ہوں۔ میں اپنے دو بچوں اور شوہر کے لیے بہت پریشان رہتی۔ یہیں میری ملاقات اقبال باجی سے ہوئی جو ہمیں قرآن سکھانے جیل آتی تھیں۔ جناح ہسپتال میں، میں نے دو بچوں کو جنم دیا۔ ایک پیدائش کے کچھ عرصے بعد فوت ہوگیا، دوسرا جیل میں کچھ عرصہ رہ کر اللہ کو پیارا ہوگیا۔ وہیں مجھے قرآن سے انسیت پیدا ہوئی۔ دکھی تھی، اپنے گناہ یاد کرکے بہت روتی تھی۔ پھر 7 سال بعد مجھے رہائی مل گئی۔ لیکن اب مجھے عزت سے روزگار کمانا تھا۔ پہلے میں نے اپنا گھر شفٹ کیا۔ پھر باجی سے رابطہ کیا۔ وہ میرے بچوں کے اسکول کی فیس، ماہانہ راشن اور مکان کے کرائے کے پیسے خود گھر لے کر آتیں۔ مجھے کہتیں کہ تم بھی سلائی کرو تاکہ کچھ پیسے آتے رہیں۔ بقرعید میں گوشت بھجواتیں۔ میں نے جیل میں انہی لوگوں سے سلائی سیکھی تھی۔ مجھے کچھ عرصے بعد مشین دے دی۔ میرے گھر والوں سے بھی ’’ویٹ‘‘ والے رابطہ کرتے، لیکن وہ ان کی ایک بات سننے کو بھی تیار نہ تھے۔ اس واقعے کے بعد وہ مجھ سے اور بدظن ہوگئے تھے۔ خیر میں نے فیکٹری چھوڑ کر سلائی کا ہی کام شروع کردیا تھا۔ اچانک ایک دن بھائی نے مجھ سے رابطہ کیا۔ اس نے مجھے معاف کردیا تھا۔ مجھے اللہ نے دو اور بیٹوں سے نوازا۔ اب میرے 4 بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا میٹرک کرچکا ہے۔ میرے بھائی نے احسن آباد میں مجھے فلیٹ لے کر دیا ہے۔ اب ہم بہت خوش ہیں۔ اللہ سب کو گناہوں کی دلدل سے بچائے۔ میں اقبال باجی کا بہت شکریہ ادا کرتی ہوں، وہ اب بھی ہر بقرعید میں پہلے کی طرح مجھے گوشت بھجواتی ہیں۔اللہ انہیں خوش رکھے۔ اب میں خوش ہوں۔
(جاری ہے)

حصہ