قرآنی آیات سے مزین شعری متن

1058

ڈاکٹر عزیز احسن
اس وقت حضرت علامہ محمد بشیر رزمیؔ صاحب کا شعری کارنامہ موسوم بہ ’’یا اللہ‘‘ میرے پیشِ نظر ہے۔ رزمی صاحب ایک قادرالکلام شاعر ہیں اور فن کے حوالے سے استاد کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی قابلِ رشک ہے۔
میں نے ’’یا اللہ‘ کے متن (Text) کے مطالعے سے قبل ان کی شاعری کے کچھ اور نمونے بھی دیکھے تو معلوم ہوا کہ وہ بڑے اعتماد سے اس بات کا اظہار فرماتے ہیں:
’’شاعر، شعر نہیں کہتا بلکہ شعر، شاعر کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتا ہے‘‘ (کہکشانِ نعت، ص۱۸)
زرمی صاحب کے اس بیانیے سے میری توجہ غالب اور رولاں بارتھ کی جانب مبذول ہوئی۔غالبؔ نے کہا تھا:

ما نہ بودیم بدیں مرتبہ راضی غالبؔ
شعر خود خواہشِ آں کرد کہ گردد فنِ ما

(اے غالب ہم تو شاعر ہونا پسند نہیں کرتے تھے ۔شعر نے خود ہی ہمیں اپنا فن بنالینے کی خواہش کی تھی)۔
اور جدید تنقیدی دنیا کے، رولاں بارتھ کا بھی یہ خیال ہے ‘Writing writes not Authors’ یعنی تحریر لکھتی ہے لکھاری نہیں۔اس کا خیال ہے کہ ہر فن پارہ پہلے سے لکھی گئی تحریروں پر اضافہ ہے۔ کیوں کہ مصنف پر ثقافت، زبان، ادبی روایات وغیرہ کا غیر شعوری اثر ہوتا ہے۔
مشرقی شعریات میں ’’آمد‘‘ کا تصور بھی شعراء کو اس بات کے اظہار پر اکساتا ہے کہ شاعر شعر نہیں کہتا بلکہ شعر خود اپنے اظہار پر شاعر کو مجبور کرتا ہے۔
تخلیقی قوت کے جبر کا اظہار وہی ادیب یا شاعر کرسکتا ہے جس کا ہمہ وقتی وظیفہ تخلیقی دنیا کی سیر ہو۔ چناں چہ اس اعتبار سے رزمی صاحب روایت اور جدیدیت کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں کہ ان کے خیالات ہماری شعری روایت کے بڑے ستون ’’غالب‘‘ سے بھی ملتے ہیں اور جدیدادب کے نمائندے رولاں بارتھ سے بھی۔
دوسری بات جو بشیر رزمی صاحب کو عصری شعری منظر نامے میں ایک منفرد شاعر کے طور پر نمایاں کرتی ہے وہ ان کی استادانہ حیثیت ہے۔ ہماری شعری فضا میں شعر گوئی کا قافلہ ہمیشہ ہی سے اساتذہ کی نگرانی میں تخلیقی سفر طے کرتا رہا ہے۔ غالب نے استاد کی رہنمائی کے بغیر شاعری شروع کی تو اسے، بے استادا ہونے کے طعنے بھی سننے پڑے تاہم غالب کی یہ آزادہ روی عام نہ ہوسکی۔ہماری شعری روایت میں، غالب کے بعد سو ڈیڑ ھ سو برس تک استادی شاگردی کا نظام قائم رہا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف کراچی میں بہت سارے شعراء استادی کے منصب پر فائز تھے مثلاً شاعر لکھنوی، ماہرالقادری، رئیس امروہوی، بہزاد لکھنوی، تابش دہلوی، فدا خالدی دہلوی، نازش حیدری ، قمر جلالوی وغیرہ وغیرہ۔
استادی شاگردی کا رشتہ تو اب کمزور ہوا ہے، کیوں کہ ہر شاعر اپنے آپ ہی کواستاد ماننے لگا ہے۔ اسے کسی کی رہنمائی کی ضرورت نہیں۔استادی شاگردی کا ادارہ قائم تھا تو زبان و بیان کے حوالے سے بعض اساتذہ اپنے شاگردوں کی رہنمائی کے لیے کچھ نکاتِ سخن پیش کرتے رہتے تھے مثلاً
ڈاکٹر ساجد امجد کے مقالے ،’’ اردو شاعری پر بر صغیر کے تہذیبی اثرات‘‘ سے ہمیں یہ معلو ہوا کہ تنقیدی اصولوں کی بازگشت ،سب سے پہلے دیوانِ فائزؔ دہلوی کے دیباچیمیں سنی گئی تھی، جنھوں نے لکھا تھا:
’’تمام اقسامِ شعر میں چاہیے کہ نظم بدیع ہو، قافیے درست ہوں، معنی لطیف ہوں، الفاظ شیریں ہوں، عبارت صاف ہو، یعنی اس کے سمجھنے میں دقت نہ ہو بیان میں تکلف نہ ہو،حروف زائد سے پاک ہو اور الفاظ صحیح ہوں شاعر کے لیے لازم ہے کہ نظم کے طور و ترکیب کو پہچانتا ہو۔تشبیہ کے قاعدوں ، استعارے کی قسموں اور زبان کے محاوروں سے واقف ہو۔قدما ء کی تاریخ اورنظم سے با خبر ہو اور حکماء کے کلام کا تتبع نہ کرے اور اپنی طبع سلیم سے جزیل اور رکیک لفظوں میںامتیاز کرے۔جھوٹی تشبیہوں ، مجہول اشاروں، ناپسندیدہ ایہاموں، غریب وصفوں، بعید استعاروں، نادرست محاوروں اور نامطبوع تکلفوں سے پرہیز کرے‘‘ ۔
ناسخؔ نے شاعری میں تازہ گوئی کی شعوری کوشش کی جس کو ان کے شاگردوں نے ایک تحریک کے طور پر آگے بڑھایا۔ناسخؔ کی اصلاحات اور ان کی شاعری کے اختصاصی پہلوؤں کی نشاندہی رشید حسن خاں نے ’’انتخابِ کلامِ ناسخؔ‘‘ میں کی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ (جلد سوم) میں کچھ تفصیل دی ہے۔
ناسخؔ کے عہد سے زبان کے لیے ریختہ کے بجائے ’’اردو‘‘ کا لفظ مقرر ہوا۔اسی طرح غزل کے لیے ریختہ کے بجائے ناسخ ؔ نے لفظ ’غزل‘ کو رواج دیا۔اسی طرح آئے ہے، جائے ہے ، جیسی افعال کی صورتیں، نیز کسو، کبھو اور ’جا‘ [جگہ] کے لیے’ جائے‘ وغیرہ کے استعمال کی مثالیں بھی ناسخؔ کے ہاں نہیں ملتیں۔ناسخؔ نے اپنے پیشرووں کے متروکات کے ترک کی سختی سے پابندی کی۔
پھر دنیائے سخن میں داغ دہلوی نے بھی زبان و بیان پر خاص توجہ دے کر فن کے اصولوںکو نہ صرف خود اپنایا بلکہ اپنے شاگردوں کے لیے ایک ’’ہدایت نامہ ‘‘ بھی نظم کردیا تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنا کلام جانچنے کے قابل ہوجائیں۔ اس ہدایت نامے میں اس عہد کی تنقید کے اصول بڑی خوبی سے نظم ہوگئے ہیں، مثلاً وہ لکھتے ہیں:

یہی اردو ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے
اہل دہلی نے اسے اور سے اب اور کیا
مستند اہل زباں خاـص ہیں دھلی والے
اس میں غیروں کا تصرف نہیں مانا جاتا
جوہری نقد سخن کے ہیں پرکھنے والے
ہے وہ ٹکسال سے باہر جو کسوٹی نہ چڑھا
بعض الفاظ جو دو آئے ہیں اک معنی میں
ایک کو ترک کیا ایک کو قایم رکھا
شعر میں حشو وزوائد بھی برے ہوتے ہیں
ایسی بھرتی کو سمجھتے نہیں شاعر اچھا
گر کسی شعر میں ایطائے جلی آتا ہے
وہ بڑا عیب ہے کہتے ہیں اسے بے معنٰی
استعارہ جو مزے کاہو مزے کی تشبیہ
اس میں اک لطف ہے اس کہنے کا پھر کیا کہنا
اصطلاح اچھی مثل اچھی ہو بندش اچھی
روز مرہ بھی رہے صاف فصاحت سے بھرا
ہے اضافت بھی ضروری مگر ایسی بھی نہ ہو
ایک مصرع میں جو ہو چار جگہ بلکہ سوا
عطف کا بھی ہے یہی حال یہی صورت ہے
وہ بھی آئے متوالی تو نہایت ہے برا
لف و نشر آئے مرتب وہ بہت اچھا ہے
اور ہو غیر مرتب تو نہیں کچھ بے جا
ایک مصرعے میں ہو تم دوسرے مصرعے میں ہو تو
یہ شتر گربہ ہوا ، میں نے اسے ترک کیا
شعر میں ہوتی ہے شاعر کو ضرورت اس کی
گر عروض اس نے پڑھا ہے وہ سخنور دانا
مختصر یہ ہے کہ ہوتی ہے طبیعت استاد
دین ، اللہ کی ہے ، جس کو یہ نعمت ہو عطا
بے اثر کے نہیں ہوتا کبھی مقبول کلام
اور تاثیر وہ شے ہے جسے دیتا ہے خدا
گرچہ دنیا میں ہوئے اور ہیں لاکھوں شاعر
کسب فن سے نہیں ہوتی ہے یہ خوبی پیدا
پند نامہ جو کہا داغؔ نے بے کار نہیں
کام کا قطعہ ہے یہ وقت پہ کام آئے گا

اس ہدایت نامے میں داغ نے جو نکات بیان کیے یعنی ،فصاحت کا ہونا،شعری بندش میں چستی کا ہونا استعارے اور تشبیہات کا بر محل استعمال، روزمرہ کی نگہداشت، لف و نشر مرتب اور غیر مرتب کا استعمال،، ردیف کا چست اور درست بیٹھنا، قافیے کا درست ہونا وغیرہ تو محاسن میں شمار کئے جاتے تھے، اور شتر گربہ ، عروضی سقم، حر ف کا دبنا یا گرنا، عیب تعقید، عیب تنافر کا شعر میں ہونا عیب سمجھے جاتے تھے۔
یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ حضرت بشیر رزمی نے بھی اپنے شاگردوں کے لیے ایسے ہی نکات اپنے ایک قطعے، بعنوان ’’چند رموزِ شاعری‘‘ میں پیش کردیئے ہیں،وہ لکھتے ہیں:

معروف بھی حروف ہیں مجہول بھی حروف
آہنگ و نغمگی کا خیال آپ کیجیے
رکھیے نگاہِ تیز الف، واؤ، یائے پر
آواز گستری کا خیال آپ کیجیے
یائے خیال کون گراتا ہے شعر میں
ہاں یائے زندگی کا خیال آپ کیجیے
ہر گز نہ اختلافِ ضمیر آئے شعر میں
اس، تو میں فرق ہی کا خیال آپ کیجیے
آئے کسی طرح نہ شتر گربہ شعر میں
بلی اور اونٹنی کا خیال آپ کیجیے
تعقیدِ لفظی آتے ہی معنی بدل نہ دے
تعقیدِ معنوی کا خیال آپ کیجیے
بچنا عیوب ہی سے محاسن کی شان ہے
رزمیؔ سخنوری کا خیال آپ کیجیے

(آسمانِ غزل، ص۱۹۲)
رزمی صاحب نے ’’چند رموزِ شاعری ‘‘ لکھ کر روایت آگاہی اور احترامِ روایت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے زبان و بیان کی خوبیوں اور خامیوں کی طرف شعرائے عصر کوبالعموم اوراپنے شاگردوں کو بالخصوص محتاط رہنے کی نصیحت کی ہے۔ یہ اشعار لکھ کرحضرت رزمی، فائز دہلوی، ناسخ اور داغ کے اس گروہ میں داخل ہوگئے ہیں جنھوں نے شاعری کو محض کھیل تماشہ نہیں بلکہ ایک بہت زیادہ سنجیدہ سرگرمی کے طور پر قبول کیا اور بیان کی صلاحیت کو امانت کے طور پر استعمال کیا۔کیوں کہ انسان کو بیان کی صلاحیت، عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر اس کا ذکر فرمایا تھا…خَلَقَ الاِنْسَانَo عَلَّمَہُ الْبَیَانَ [الرحمٰن]o (پیدا فرمایا اس نے انسان کو۔اور سکھایا اس کو بولنا[بیان کرنا]) ۔رزمی صاحب کا ادب اور زبان و بیان سے پُر خلوص برتاؤدیکھ کر بے ساختہ میر یاد آگئے:

پیدا کہاں ہیں ایسے پرا گندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

(کلیاتِ میر، دیوانِ دوم، ص۲۸۳)
رزمی صاحب کی شعری تخلیقات ، شاعری سے ان کا قلبی لگاؤ، زبان و بیان سے کلاسیکی تعلق اور اظہار کی طرفگی کی طرف اسلوبیاتی حسن کی تلاش و جستجو کا رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شاعری کو محض شاعری نہیں بلکہ معاشرے میںصالح اقدار کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نعتیہ شاعری کی طرف توجہ دے کر ادبی سطح پر ’’حَیَّ عَلَی الخَیْرِ الاِنْسَان…حَیَّ عَلَی ثنائیِ محمد ﷺ‘‘ کا نعرہ لگایا۔

آہنگِ احترامِ محمدؐ سنائی دے
مدحت سرا غلامِ محمد ؐ سنائی دے

(کہکشانِ نعت، ص۱۷۲)
ایران کی ایک معروف شاعرہ تھی قرۃ العین طاہرہ۔اس کی ایک غزل ، صوتی دروبست اور معنیاتی ارژنگ صفتی کے باعث اتنی مقبول ہوئی کہ بڑے بڑے شعراء نے اس کا یا تو تتبع کیا یا اس کا ذکر کیا۔ علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں اپنے روحانی سفر کے دوران میں ’’نوائے طاہرہ‘‘ سنوائی ہے:

گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رو برو
شرحِ دہم غمِ ترا نکتہ بہ نکتہ مو بہ مو

اس غزل میں طاہرہ نے روبرو،مو بہ مو، کو بکو، جو بجو، پو بہ پو، تو بہ تو ، وغیرہ قوافی استعمال کیے ہیں۔رئیس امروہوی نے اسی طرز پر ایک نعت کہی تھی۔ جس میں مصرع ہائے اول میں اردوکا التزام ہے اور مصرع ہائے ثانی فارسی ہی کے پیٹرن پر ہیں۔ مثلاً

کس کا جمالِ ناز ہے جلوہ نما یہ سو بہ سو
گوشہ ، بگوشہ، دربدر، قریہ بہ قریہ، کُو بہ کُو
عالمِ شوق میں رئیس کس کی مجھے تلاش ہے
خطہ بہ خطہ، رہ بہ رہ، جادہ بہ جادہ، سُو بہ سُو

(ارمغانِ نعت، ص ۲۵۹)
رئیس امروہوی کے مطلع اور مقطع میں پہلے مصرعے اردو میں ہیں اور دوسرے مصرعے کامل فارسی میں ہیں۔ لیکن یہ طرز اردو والوں کے لیے بھی اجنبی نہیں ہے۔ سخن گوئی کے اس اندازمیں لفظوں کی اصوات سے نغمگی پیدا کی گئی ہے۔ رزمی صاحب نے بھی ایک نعت مکمل اسی انداز سے کہی ہے۔مطلع ملاحظہ ہو:

رَحْمَتُہٗٗ جَمَالُہ،ٗ شِدَّتُہٗ جَلَالُہٗ
حِکْمَتُۃٗ ‘ کَمَالُہٗ ، دیکھ رہا ہوں ہشت سُو

اس مطلع میں تین زبانیں استعمال ہوئی ہیں۔ پہلا مکمل مصرع اور دوسرے مصرعے کی ابتداء (رکن اول) عربی میں ہے۔حشو [درمیانی حصہ] ’’دیکھ رہا ہوں‘‘ اردو ہے اور ضرب [آخری حصہ] ’’ہشت سُو‘‘ فارسی ہے۔ اس طرح یہ مطلع صنعتِ تلمیع[ذو لسانین یا کثیراللسان] کی اچھی مثال ہے۔

صَلِّ عَلیٰ محمَّدٍ صَلِّ عَلیٰ مُخَلَّدٍ
نطق بہ نطق لب بہ لب بزم بہ بزم سُو بہ سُو

(کہکشانِ نعت، ص۱۵۱)
یہ شعربھی صنعتِ تلمیع کا حامل ہے۔ پہلا مصرع عربی اور دوسرا فارسی میں ہے۔ پوری نعت ہی اس صنعت کا اشاریہ ہے۔ بحر مترنم ہے اور صوتیاتی دروبست ایک سرشاری و نغمگی کی فضا قائم کرتا ہے۔ علامہ رزمی کی یہ نعت جدید اصولِ نقد یعنی اسلوبیات(Stylistics) کے مطالعے کے لیے اچھا لوازمہ فراہم کرتی ہے۔
مجھے اس موقع پررزمی صاحب کی عام شاعری اور نعتیہ شاعری کا حوالہ دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان صلاحیتوں کے اظہار کی فنی نزاکتوں سے کچھ آگاہی حاصل ہوجائے۔ فن آگاہی، روایت پسندی، کلاسیکی طرزِ سخن کی پیروی اور لسانی اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے رزمی صاحب کو قرآنِ کریم فرقانِ حمید کے اسلوب کی جمالیات میں عروضی اوزان و بحور کا التزام تلاش کرنے کی جستجو ہوئی تو انھوں نے قرآنِ کریم کا اس زاویہء نگاہ سے مطالعہ کیا اور جوئندہ یابندہ کے مصداق ایسی بہت ساری آیات تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلی جن میں معنیاتی روشنی، اظہاری الوہیت، بیانی ترفع اور عروضی وزن کے جملہ اوصاف موجود پائے۔ پھر انھوں نے ان تمام آیات کو اپنے تین تین مصرعے کہہ کر اشعار میں بحیثیت ’’اقتباس‘‘ نقل کردیا۔ اس طرح ان کا شعری عمل (Poetic work) ایک ایسا ارژنگ بن گیا جس میں معنیاتی ہیولوں کے ساتھ ملفوظاتی تنوع کی دیدنی تصاویر سجی ہوئی ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ