مہرالنساء ، سچی کہانی

258

فارحہ شبنم (کینیڈا)
(تیسری قسط)
’’آئی ایم سوری مہرالنساء، میں شاید ضرورت سے زیادہ بول گئی۔ میرا مقصد تم کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔‘‘
’’نہیں باجی، آپ کی غلطی نہیں ہے، میں ویسے ہی آج کل کچھ ڈپریس ہوں ‘‘۔ میں پہلے اپنے رو پڑنے اور پھر اس پر اُن کی شرمندگی سے مزید بوکھلاہٹ محسوس کررہی تھی۔
’’اچھا تو ایسا کرو ناں، ہفتے کی رات تم میاں بیوی ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔ میں اپنی دو تین اور دوستوں کو بھی بلا لوں گی، ایک تو انڈیا کی ہی ہے۔ تمہیں مل کر بہت اچھا لگے گا۔‘‘
’’باجی میں اپنے میاں سے پوچھ کر بتاسکو ں گی‘‘ میں نے ٹالنے کے لیے کہا۔
’’ارے پوچھنا نہیں بس بتا دینا کہ جانا ہے۔ بھئی اتنا رعب تو ہونا چاہیے ناں شوہر پر‘‘۔ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنس پڑیں۔ پھر کہنے لگیں ’’ارے میں تو مذاق کررہی تھی لیکن میاں جی کو راضی تو تم کو کرنا پڑ ے گا۔ میں انتظار کروں گی تمہارے فون کا، اور دیکھو تمہارا جواب ہاں میں ہی چاہیے مجھے۔‘‘
’’اچھا باجی، میں آپ کو کل تک بتاتی ہوں‘‘ یہ کہہ کر میں نے فون بند کردیا۔
مجھے پتا تھا کہ ابھیشک کو اُن کے یہاں جانے میں کوئی اعتراض نہ ہوگا، لیکن مجھے خوف اس بات کا تھا کہ جب باجی کو پتا چلے گا کہ میرا شوہر ہندو ہے تو اُن کا کیا ردعمل ہوگا۔ وہ اپنے حلیے سے ایک کٹر مسلمان دِکھتی تھیں جو سر سے پیر تک برقعے میں تھیں، حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی اسکارف پہنا رکھا تھا۔ البتہ ان کی گفتگو میں مجھے کہیں روایتی تنگ نظری دکھائی نہیں دی تھی بلکہ وہ خاصی مہذب اور تعلیم یافتہ لگتی تھیں۔ لیکن بہرحال ان سے یہ بات چھپانا نہ تو میرے لیے ممکن تھا اور نہ ہی مناسب، لہٰذا اگلے دن میں نے بڑی ہمت کرکے ان کو فون کر ہی لیا۔ انہوں نے سلام دعا کے بعد بڑی خوشی سے میرا حال چال پوچھا۔ میں ان کو مزید دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتی تھی لہٰذا جلد ہی صاف صاف حقیقت ان کو بتادی۔ میری بات سن کر وہ ایک دم خاموش ہوگئیں اور میں گویا اس خاموشی میں اپنے دل کی دھڑکنیں سن رہی تھی۔ اگرچہ میں ان کی طرف سے ہر قسم کے ردعمل کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی، مگر میرا رواں رواں خدا سے دعاگو تھا کہ میرا اور ان کا تعلق قائم رہے۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید وہی اس مشکل کا کوئی حل مجھے بتا سکتی ہیں جس سے میں گزر رہی ہوں۔ بالآخر وہ ایک گہری سانس لے کر بولیں ’’چلو کوئی بات نہیں، ہدایت دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ان شاء اللہ، میں اپنے شوہر کو بتادوں گی۔ تم خیر سے آؤ تو سہی‘‘۔ اب سانس لینے کی باری گویا میری تھی۔ اتنی دیر سے رکی ہوئی سانس اب میرے سینے سے خارج ہورہی تھی اور بہت عرصے بعد سکون کی ایک لہر میں اپنے اندر اترتی محسوس کررہی تھی۔
دعوت میں مجھے بہت مزا آیا۔ ثمرین باجی کی سہیلیاں بھی ان ہی کی طرح پیاری تھیں۔ سب بہت اچھی طرح ملیں۔ ابھیشک بھی وہاں سے واپسی پر خوش دکھائی دیتا تھا، بلکہ بتا رہا تھا کہ وہیں ان کے میاں کے دوست عاصم بھائی نے اسے اپنی کمپنی کی ویب سائٹ پر جاکر جاب کے لیے اپلائی کرنے کو بولا ہے ساتھ ہی اس سے سی وی بھی مانگا ہے تاکہ خود بھی ڈائریکٹر سے بات کرسکیں۔ اگلے چند ہفتوں میں دعوت کے علاوہ پارک میں بھی کئی دفعہ ملاقات ہوئی۔ وہ پارک کے لیے نکلنے کا پلان کرتیں تو مجھے بھی میسج کردیتیں۔ بچیاں تو کھیل میں لگی ہوتیں، ہم دونوں کبھی واک کرتے اور کبھی بینچ پر بیٹھ کر ہی گپ شپ کرلیتے۔ ان کے ہاں دعوت والے دن مجھے بریانی بڑی پسند آئی تھی۔ اکثر جمعہ کے دن وہ ڈبے میں میرے لیے بریانی بھی لے آتی تھیں۔ روزانہ واک کرنے سے آہستہ آہستہ میری رفتار اور سکت بھی بہتر ہورہی تھی۔ پارک اب خاصا سرسبز نظر آنے لگا تھا۔چیری بلاسم کے درخت خوبصور ت گلابی پھولوں سے لدنے لگے تھے اور پارک کی رونق بھی روزبروز بڑھتی جارہی تھی۔ پارک کے درمیان میں واقع چھوٹی سی جھیل کا پانی پوری طرح پگھل چکا تھا اور اب اس کے آس پاس خوب ساری بطخیں اور مرغابیاں تیرتی، بھاگتی، دوڑتی اور کبھی اڑتی بھی نظر آتی تھیں۔ بڑا ہی حسین منظر ہوتا، اور اسے دیکھ کر کبھی بھی میرا جی نہ بھرتا۔ ویک اینڈ پر کبھی میں ابھیشک کو بھی اصرار کرکے پارک لے آتی تھی۔
ثمرین باجی سے روزانہ بات چیت سے مجھے اپنی طبیعت میں خاصی بہتری محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ بڑی مثبت سوچ رکھنے والی خاتون تھیں، حالانکہ ان کو بھی صحت اور مالی لحاظ سے کچھ مسائل درپیش تھے مگر میں نے ہمیشہ انہیں مطمئن اور مسکراتے ہوئے ہی دیکھا۔ وہ میرے کہے بنا ہی میرا دکھ جان گئی تھیں۔ اکثر مجھ سے کہتیں ’’مہرالنساء رات کے آخری پہر اٹھ کر رب سے اپنے شوہر کی ہدایت کے لیے دعا کیا کرو،کیا پتا اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خیر کی کوئی صورت نکال دے۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہ سعادت اللہ نے تمہارے ہاتھ میں لکھ رکھی ہو کہ وہ اسلام قبول کرلے۔ اچھا ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے تم اُس کو اسلام کی حقیقت اور سچائی بتاؤ‘‘۔ ثمرین باجی وقتاً فوقتاً مجھے اس طرف توجہ دلاتیں۔ انہیں اس بات کی خبر نہیں تھی کہ ابھی تو مجھے خود اپنے لیے اللہ سے اس ہدایت کو مانگنے کی ضرورت ہے۔ میں اسلام کے بارے میں جانوں گی اور خود مسلمان بنوں گی تو اُس کو سمجھانے اور اُس کے لیے دعا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی۔ ایک دفعہ جمعہ کے دن وہ مجھے مسجد بھی ساتھ لے گئیں۔ میں جو عرصہ ہوا نماز چھوڑے بیٹھی تھی اب آہستہ آہستہ خود کو نماز کا عادی بنانے کی کوشش کررہی تھی۔
یہ مئی کے آخری دن تھے، جب باجی سے ملاقات ہوئی تو بڑی خوش تھیں۔ بتانے لگیں کہ شعبان شروع ہوچکا ہے اور چند دن میں دورہ قرآن شروع ہوجائے گا۔ دورہ قرآن میرے لیے نئی ٹرم تھی، پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ قرآن کا ترجمہ پڑھا اور سمجھایا جائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے اکنا سسٹرز کا تعارف بھی کرایا۔ دورہ قرآن میرے گھر کے قریب ہی اُن کی ایک دوست کے گھر میں ہونا تھا اور ثمرین باجی کو ہی کروانا تھا۔
دورہ قرآن میں شرکت میرے لیے ایک بڑا ہی منفرد اور مفید سلسلہ تھا۔ پہلی دفعہ اس طرح قرآن کے معانی اور مفہوم سمجھے اور مجھے ایسا لگا کہ میں اللہ سے ایسے واقف ہورہی ہوں جیسے پہلے اس کو جانتی ہی نہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی دیگر تعلیمات سے بھی واقف ہونے لگی اور بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں۔ میں وہاں نوٹس بھی لیتی اور گھر آکر کبھی موقع دیکھ کر ابھیشک کو بھی بتانے کی کوشش کرتی۔ اکثر جگہ قرآن میں والدین کے حق کا ذکر تھا اور مجھے لگتا تھا کہ اپنے والد کو راضی کرنے کا بھی واحد راستہ اسی سے وابستہ ہے کہ میں ابھیشک کو اسلام کی طرف راغب کروں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں جو عورت اور مر د کی برابری کی علَم بردار تھی اب اسلام کے خاندانی نظام اور اس میں مرد اور عورت کے درمیان درجہ بندی، حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کی تقسیم اور اس میں چھپی ہوئی حکمتوں کو بھی جان رہی تھی۔ میں نے خود کو اس رمضان میں نماز پابندی سے پڑھنے کا چیلنج دیا تھا۔ اگرچہ میرے لیے نماز پڑھنا بھی دن بدن مشکل ہوتا جارہا تھا، مگر میں ہاسپٹل جانے سے پہلے آخری دن تک نماز نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ (جاری ہے)

حصہ