دکھ سکھ

481

اسماء معظم
آج ثنا وقت پر تیار ہوکر اپنی دوست نصرت کے ہاں چلی گئی۔ نصرت کی بیٹی کی بَری جو آرہی تھی، اور آج نصرت کی اور بھی بہت ساری سہیلیاں اُس کے گھر پر اس خوشی کے موقع پر جمع تھیں۔ گھر میں خوب گہما گہمی تھی۔ نصرت نے سلک کا ہلکے کلر کے کام کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ثنا بھی اپنی پسند کا خوب صورت سوٹ زیب تن کرکے وہاں پہنچ گئی۔ ثناکے آنے پر نصرت کی خوشی دیدنی تھی۔ دونوں تھیں بھی گہری سہیلیاں، یک جان دو قالب۔
ثنا اور نصرت کے گھر والے اسلامی ذہن کے مالک تھے، لہٰذا ان کے گھروں میں ڈھول نہیں پیٹا جاتا تھا، بس سلائی مشین کا ڈھکن لے لیا جاتا اور اس سے ہی دل بہلا لیا جاتا۔ لہٰذا ثنا نے مشین کا ڈھکن لیا اور اس کو ہاتھ سے پیٹنا شروع کردیا، اور پھر سب نے ہلکی ہلکی آواز میں شادی کے گیت گانے شروع کردیے اور مل کر خوب ہلا گلا کیا۔
نصرت یہ سب دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائی۔ اُس نے کہا ’’تم لوگوں نے تو میری آج کی محفل کو خوب ہی رونق بخشی، واہ مزا آگیا، تم لوگوں نے تو میری تقریب کا لطف دوبالا کر دیا‘‘۔ یہ کہہ کر نصرت نے جذبات میں آکر ثنا کو گلے لگا لیا۔ ثنا نصرت کی اس پیاری سی ادا پر محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ثنا نے کہا ’’نصرت، میری عزیز دوست! تمہاری خوشی و سُکھ میں آنا میرا فرض تھا۔ محبت و اخوت ہمارے ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلام ہمیں بحیثیت مسلمان ایک دوسرے کے دکھ سُکھ کا ساتھی قرار دیتا ہے۔ جب دکھ اور سُکھ مشترک ہوں تو خوشی میں شرکت اور دکھ میں غم کو بانٹ لینا تعلقات کی مضبوطی کے لیے ناگزیر ہوتا ہے، اور دیکھو نصرت، یہی وہ رشتہ ہے جو ایک مومن کو وہ زندگی اور حرارت بخشتا ہے جو اس کی کامیابی کی ضامن بن جاتی ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کا معاملہ بھی خوب ہی ہے، وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر ہی سمیٹتا ہے، اگر وہ دکھ، بیماری اور تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے، اور یہ آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے، اور اگر اس کو خوشی اور خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے، اور یہ خوش حالی اس کے لیے خیر کا سبب بنتی ہے۔ (مسلم)‘‘ ثنا ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔
’’ہاں ثنا تم بالکل صحیح کہہ رہی ہو، آج ہمارے تعلقات کی مضبوطی کی وجہ بھی ہماری ایک دوسرے کے دکھ، سُکھ میں شرکت ہی ہے، ورنہ ہمارے معاشرے میں تو یہ چیزیں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ ہم ہمیشہ اسی طرح محبت سے ملتے رہیں گے‘‘۔ نصرت نے ثنا کا ہاتھ پکڑ کر انتہائی سے محبت سے کہا۔ اور یوں نصرت خوشی سے سرشار اپنے دیگر کاموں میں مصروف ہوگئی۔
…٭…
صائمہ نے صبح جلدی جلدی اپنے شوہر کو ناشتا کرایا، ہاتھ میں لنچ باکس تھمایا اور ساڑھے چھ بجے آفس کے لیے رخصت کر دیا۔ ابھی آیۃ الکرسی پڑھ کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ موبائل کی بیل بجی۔
موبائل پر اپنی نند جویریہ آپی کی کال دیکھ کر یکدم ہی ٹھٹھک کر رہ گئی۔ ارے اتنی صبح جویریہ آپی کا فون…! دل دَھک سے رہ گیا۔
اللہ خیر کرے، آپی تو اتنی صبح کبھی فون نہیں کرتیں… یہ سوچتے ہوئے اس نے ریسیور کا بٹن دبایا اور کان سے لگا لیا ’’جی جویریہ آپی السلام علیکم۔ خیریت تو ہے، علی الصبح آپ نے فون کیا؟‘‘
’’ہاں صائمہ خیریت ہے…‘‘ یہ کہہ کر جویریہ آپی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اور بولیں ’’صائمہ، فہیم کا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘
’’فہیم بھائی… کا… انتقال؟‘‘ اس نے رک رک کر الفاظ ادا کیے جیسے آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی ہو… صائمہ دکھ اور غم میں ڈوب کر رہ گئی۔ ’’آپی فہیم بھائی تو ٹھیک تھے… یہ سب کیسے ہوگیا؟‘‘ صائمہ بھی پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
’’بس بھابھی کیا بتائوں…‘‘ وہ پہلے سے بھی زیادہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
’’اچھا اچھا آپی روئیں نہیں، یہ بتائیں آپ کے پاس کون ہے اِس وقت؟‘‘
’’کوئی نہیں بھابھی، صرف پڑوسن ہیں ابھی…‘‘ آپی نے کہا۔
’’اچھا میں عمر کو بھیجتی ہوں، اسٹاپ پر وین کے انتظار میں کھڑے ہوں گے نعمان، دیکھیں شاید گاڑی نہ چلی ہو تو وہ مل جائیں گے اس وقت… میں بلواتی ہوں ان کو۔‘‘ یہ کہہ کر صائمہ نے عمر کو جو گہری نیند میں تھا اُس وقت، آہستہ سے آواز دے کر کہا ’’بیٹا پھوپھا کا انتقال ہوگیا ہے… تمہاری پھوپھی کا فون آیا تھا، جاکر دیکھو ابو شاید اسٹاپ پر ہوں…‘‘ یہ سننا تھا کہ عمر ایک جھٹکے سے اٹھا، چپل پیر میں ڈالی اور یہ جا وہ جا۔
چند منٹ کے بعد نعمان اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ جلدی سے گاڑی نکالی اور سب جویریہ آپی کے گھر پہنچ گئے۔
جویریہ آپی تین بہنوں میں سب سے بڑی تھیں۔ باقی دونوں بہنیں لندن اور کینیڈا میں تھیں۔ دو بھائیوں میں نعمان بڑے تھے اور دوسرا بھائی جو چھوٹا تھا، ریاض میں تھا۔ اب ان تمام بہن بھائیوں میں جویریہ کے ایک ہی بھائی نعمان پاکستان میں تھے اور بہنوں میں اکیلی جویریہ جو پاکستان میں تھیں، ایسے میں نعمان کی موجودگی جویریہ آپی کے اس دکھ میں بہت بڑا سہارا تھی۔ واقعی جب دکھ درد میں ایک انسان دوسرے کا ہمدرد اور ساتھی بن جائے تو دکھ دکھ نہیں رہتا۔

حصہ