بحیثیت پاکستانی ہماری ذمے داریاں

2059

فری ناز خان
عزت اور احترام اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر آزادی سے رہتے آئیں ہیں۔ پاکستان نے ہمیں عزت،شہرت رتبہ اور بھی بہت کچھ عطا کیا ہے۔مگر اس کے بدلے میں ہم نے اپنے ملک کو کیا دیا۔
بطور پاکستانی شہری ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم بھی اس کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں۔ اس پر آنے والی ہر مصیبت اور ہر پریشانی کا سامنا کریں اور پوری دنیا کے سامنے اسے ایک روشن اور مثالی ملک ثابت کریں۔ اگر غور کیا جائے تو بطور پاکستانی شہری ہر شخص اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا کہ ہمارے ملک کے ارباب واقتدار اور ریاستی عناصر۔ تو بحیثیت شہری ہم پر بھی کچھ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح آج کل ہر شخص اقتدارِ اعلیٰ اور حکومت سے اس کے کیے گئے اقدامات کا احتساب کرتانظر آرہاہے۔ کیا کبھی تنہائی میں بیٹھ کر ہم نے اپنا احتساب کیا؟ کہ آیا ہم نے اپنے ملک کے ساتھ کیا سلوک کیا؟؟؟
ہم اپنے ملک اور اپنے شہر کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا تو کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کچھ کرسکتے تھے اور کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ اس کا جواب ہمیں خود ہی مل جائے گا کہ ہم نے بطور پاکستانی شہری اپنے کیا فرائض ادا کئے ہیں۔ ہم اخلاقی طور پر اللہ تعالیٰ کے دیے گئے احکامات سے دور ہو گئے ہیں۔ ہم نے اپنے ملک پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قوانین کو نافذ تو کر لیا ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کرتے۔
ہم اپنے تہذیب و تمدن سے آشنا نہیں ہوئے بلکہ بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔ اپنی اخلاقی روایات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ قدیم ترین روایات جو کہ صدیوں سے رائج ہیں اب انہیں پرانی اور دقیق کہہ کر مغربی تہذیب کے رنگ میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے بڑوں کا ادب واحترام تک بھول گئے ہیں۔
مغربی تہذیب اپنانے کی دھن میں اپنے ملک کی ثقافت کو مسمار کرتے جا رہے ہیں اور مغربی کلچر کو فروغ دینے اور اسے اپنانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر صحیح اور غلط کا فرق بھی مٹاتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں۔ بس ایک دوسرے سے مختلف اور منفرد اور آگے بڑھنے کی خواہش میں اپنے اخلاق کو مسمار کرتے جارہے ہیں۔اگر ہمیں کہیں پر کوئی حادثہ نظر آجائیے تو وہاں رک کر دیکھنے کے بجائے نظر انداز کر کے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔
قانون کا احترام ہم مکمل طور پر فراموش کر تے جا رہے ہیں۔ بطور ایک پاکستانی شہری کیا ہم ان تمام باتوں میں سے کسی ایک پر بھی پورا اترتے نظر آرہے ہیں۔ اگر ہاں تو یہ ہمارے ملک کی ترقی کے لئے ایک خوش آئند بات ہے اور اگر نہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟؟۔ ہم تو ابھی تک اپنی شہری زمہ داریوں سے بھی انجان ہیں۔ ہم ہر روز 4 چار گھنٹے بیٹھ کر صرف ایک دوسرے کی شکایات کرتے ہیں مگر اس کا سد باب نہیں کر تے۔ ہم سب اپنی اپنی ذمے داریوں کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں کہ بطور پاکستانی شہری ہم پر کیا فرائض نافذ ہیں۔
ہم صرف پانچ سال میں ایک دن دورانِ الیکشن ووٹ ڈالنے کو ہی اپنا اولین ہدف اور مقصد سمجھتے ہیں اور اس فرض کو ضائع کرنا گناہ سمجھتے ہیں تو کیا ووٹ ڈالنا ہی ہمارا قومی فریضہ ہے؟ کیا اس کے علاؤہ اور کوئی فرائض نہیں جن سے ہم لا علمی کا اظہار کرتے رہتے ہیں اس میں کافی حد تک ہماری حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ پاکستانی نظامِ سیاست کا ایک اہم عنصر جمہوریت بھی ہے۔ جس کا مطلب عوام کو صرف یہی سمجھایا گیا ہے کہ کاروبارِ سیاست میں عوام کی رائے کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور عوام کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور ایک خاص مقام حاصل ہے۔
جس ملک میں حکومت صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے عوام کا استعمال کرے وہاں ہر شخص اپنے فرائض سے لا علم ہی نظر آئے گا۔ہمیں بحیثیت پاکستانی شہری کے خود اپنے فرائض کو پہچاننا ضروری ہے اور ان پر عمل پیرا ہونا ہے اور اس کی ابتدا خود اپنااحتساب کرتے ہوئے کرنا ہوگی۔ بحیثیت ایک اچھے پاکستانی شہری ہم پر کیا فرائض اور ذمہ داریاں ہیں اور اس کی ابتدا ہم بطور ایک ماں کی حیثیت سے کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی کریں۔ انھیں رشتوں کی پہچان،اچھے اور برے کی تمیز، ایک دوسرے کی مدد اور رہنمائی اور صفائی کا خاص خیال رکھنا جیسی ضروری باتیں سکھائیں جو کہ کسی بھی اچھے معاشرے کی بنیاد ہیں۔
ہم اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے گلی محلوں کی نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے گلی محلوں کی صفائی کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے اور کچرا گلیوں میں ڈالنے کے بجائے باقاعدہ اسے اس کی جگہ پر ڈالیں۔ جگہ جگہ گندگی کا ڈھیر نہ رہنے دیں اگر حکومت کی جانب سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاسکا تو خود آپس میں مل جل کر صفائی کا انتظام کریں۔
اپنی قدیم روایات اور تہذیب و تمدن کو پس پشت ڈالنے کے بجائے انہیں اپنانے کی کوشش کریں۔ قوانین کا احترام کریں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قوانین کو نافذ کریں اور ان پر عمل درآمد کو اپنا اولین فرض بنالیں اور یہ سب ہمیں فرد واحد کی حیثیت سے کرنا ہو گا۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادیوں اور بیروزگاری کے مسائل خود ہی حل کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ بحیثیت استاد ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم طلبہ کو مثالی تعلیم دیں اور ان کی اخلاقی تربیت کریں۔ تربیت کا سچا شعور دینے کے لیے ہمیں فکری عمل، تہذیبی قیادت اور سیاسی نشوونما کی حد درجہ ضرورت ہے ان کے بغیر ایک پاکستانی شہری اپنی ذمے داریوں کو صحیح معنوں میں نہیں پہچان سکتا۔

حصہ