میں تو بدل گیا

426

زرینہ مشتاق
گرمیوں کی چھٹیاں ساتھ ہی ماموں جان کی آمد کی خبر نے ہمیں بوکھلا ہی دیا۔ ہم ان کی آمد سے پریشان ہرگز بھی نہیں تھے، ماموں تو ہماری جان ہیں اسی لیے تو ہم ان کو ماموں جان کہتے ہیں۔ وہ اور ان کے لیے سب گھلنے ملنے والی طبیعت کے لوگ ہیں۔ ماموں جان ہمارے گھر آکر ہمیں مزے بھی بہت کراتے تھے۔ کبھی پارک کا رخ ہے، ہر نماز کے لیے ماموں جان کی قیادت میں ساری ٹولی کا مسجد جانا۔ گھریلو تقریری مقابلے، بیت بازی یہاں تک کہ مقابلہ مضمون نویسی اور پھر نتائج اور تقسیم انعامات کو ٹی پارٹی کا رنگ دے کر خاندان کے بڑوں کو بھی شریک کر لینا۔ کیا کچھ ہلا گلا نہ ہوتا ان دو مہینوں میں۔ لیکن ایک بات تھی نہ وہ خود دیر تک سوتے اور نہ دوسروں کو سونے دیتے البتہ گھر کے بڑے ان کے آنے سے مطمئن ہو جاتے کہ اب سب بچے خوشگوار سے نظام الاوقات میں بندھ جاتے تھے۔
ان کی آمد کی خبر سن کر سب نے جلدی جلدی کمروں کی صفائی کی۔ زنیرہ اور سعدیہ نے الماریاں صاف کیں تاکہ ماموں جان کے بیٹوں رافع اور اسد کے سامان بھی رکھے جا سکیں۔
میرا کمرہ حسب معمول کباڑ خانہ بنا ہوا تھا۔ چونکہ میں دوراتوں سے مستقل دیر تک جاگ کر اپنے دوست سے لیے ہوئے جاسوسی ناول پڑھ رہا تھا۔ اس لیے صبح دیر تک سونا بھی ہورہا تھا۔ ناول کی دلچسپی میں بھوک پیاس کا احساس بھی نہ تھا۔ رات سوتے وقت بھوک لگی۔ فرج میں کٹا ہوا تربوز رکھا نظر آیا۔ کھا لیا اور سوگیا۔ اب تو فجر سے ہی طبیعت بھاری ہونا شروع ہو گئی جو رفتہ رفتہ شدید بدہضمی کی صورت اخیتار کر گئی۔ چونکہ میں کچھ زیادہ صفائی کا شوقین بھی نہیں تو اب تو بالکل بھی ہمت نہ تھی کمرہ صاف کرنے کی۔ ویسے بھی سوچا کہ ماموں جان نے تو کل آنا ہے۔ ابھی کر لیں گے صفائی بھی۔ ماموں جان کی آمد سے پہلے تک امی جان نے مجھے دوائیں کھلا کر کچھ بہتر تو کر دیا تھا مگر میری شکل سے لاغری اور کمرے سے بے ترتیبی ٹپک رہی تھی۔ بہرکیف ماموں جان اور ان کی فیملی کا استقبال کرنے کے بعد میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ماموں جان تھوڑی دیر میں میرے کمرے میں آئے اور طبیعت پوچھنے لگے ساتھ ہی مجھے لگا کہ ان کی آنکھیں کمرے کا جائزہ بھی لیتی جا رہی ہیں۔ میرا کمرہ جو کہ کھڑکیاں ہوتے ہوئے بھی تازہ ہوا سے محروم تھا۔ پردے پڑے ہونے سے تاریک سما تھا۔ میز پر کتابوں اور مختلف انڈور گیمز سے متعلق چیزوں کا ایک ہجوم جمع تھا۔ واش روم کے سامنے گیلی چپلیں آگے پیچھے پڑی تھیں شکن آلود چادر کے بے ترتیبی سے لٹکتے کونے۔ مجھے کچھ شرمندگی سی ہونے لگی۔ جھینپ کر انہیں بتایا کہ بیمار ہونے کے سبب کمرہ صاف نہ کر سکا۔ ماموں جان مسکرا کر مجھے آرام کی تلقین کرکے باہر کی طرف چل دیے۔
اب ماموں جان نے چھٹیوں کی تھیم (Theme) صحت و صفائی بتائی۔ صحت و صفائی پر پوسٹر کمپیٹیشن رکھ لیا۔ ایک ٹیبلو بھی ترتیب دیا۔
ٹیبلو کچھ یوں تھا کہ ہم سب کزنز کی شرٹس گتے کے ٹکڑے پر کچھ حروف لکھ کر چپکائے گئے تھے۔ حروف پکارنے پر وہ بچہ سامنے آکر صحت سے متعلق ایک ہدایت بیان کرتا اور قطار میں کھڑا ہوجاتا۔
سلمیٰ کہہ رہی تھی ’’اپنے آپ کو اور اپنے اطراف کو گندا کرنے والے اس مکھی کی طرح ہیں جو اپنے پیروں میں گندگی اور جراثیم لے کر اڑتی رہتی ہے‘‘
فائز نے کہا ’’ماحول کی بیرونی صفائی جب ہی ممکن ہے جب دل اندر سے صاف ہو۔ دل کی صفائی کے لیے خیالات کی صفائی ضروری ہے۔‘‘
راحیل نے کہا ’’صفائی نہ کرنے سے، کاہلی، سستی اور تھکن کا احساس بڑھ جاتا ہے اور انسان اپنے آپ کو بیمار محسوس کرتا ہے۔‘‘
وسیم نے بتایا۔ ’’سگریٹ پینے والے اپنی صحت کے ساتھ دوسروں کی صحت کے بھی دشمن ہیں۔‘‘
زنیرہ نے کہا ’’پانچ وقت وضو کرنے، نہانے دھونے، کپڑے اور ذاتی آشیاء کو ترتیب سے رکھنے کا نام ’’صفائی‘‘ ہے۔‘‘
سب حروف کی ترتیب کے ساتھ قطار میں کھڑے ہوئے تو جو لفظ ابھر کر سامنے آیا وہ ’’صحت و صفائی‘‘ تھا۔
تمام پوسٹرز ٹی وی لائونچ کی ایک دیوار پر آویزاں کر دیے گئے تھے سب میں کوئی نہ کوئی صحت سے متعلق پیغام تھا۔
گھر کے سب بڑے موجود تھے۔ اب امی جان نے چائے اور لوازمات سجا دئے تھے۔
اب میری سمجھ میں سب کچھ آ رہا تھا۔ میں جو اتنا بیمار رہتا تھا صحت کے اصولوں سے غفلت کا نتیجہ تھا۔ اگلے چند دن میں نے پابندی سے ان اصولوں پر عمل کیا۔ کمرے میں ترتیب پیدا کی، کتابیں اور کھیل کود کے سامان مناسب جگہ پر رکھنے کا انتظام کیا۔ چلو سونا، سنت کے مطابق دانتوں کی صفائی، کپڑے اور لباس کی صفائی پر توجہ دی۔ اب یہ سب میرے معمول میں شامل ہو گیا ہے اور میں اب چاق وچوبند اور ایکٹو ہو گیا ہوں۔ اپنے آپ میں یہ تبدیلی مجھے بہت خوشگوار لگتی ہے۔

حصہ