دین مائینس سیاست

2118

جب بھی اسلام میں سیاست کے حوالے سے بات چھڑتی ہے یا بحث و مباحثہ ہوتا ہے تو عام طور پر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اس مصرع کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے کہ “جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی”۔ یہ بات نہ صرف پتھر کی لکیر بن گئی بلکہ اسقدر بلیغ ثابت ہوئی کہ اسلام کا دین رکھنے والے وہ علمائے کرام جو سیاست کو دین اسلام کا جزولاینفک ماننے کی لیے کسی قیمت پر تیار ہی نہیں تھے وہ بھی اس بات کو ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر سیاست کو دین میں نکال دیا جائے تو واقعی جو چیز باقی بچ رہے گی وہ صرف اور صرف چنگیزی اور نظام کفر ہی ہوگا اس کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا۔ فی زمانہ اسلام کو ماننے والے عام افراد ہوں یا علمائے کرام، ان میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو سیاست میں حصہ لینا ایسا سمجھتا ہو جیسے شجر ممنوعہ کا پھل چکھنا بلکہ وہ مسٹروں سے بھی دس قدم آگے بڑھ کر اس راہ کا شہسوار بنا نظر آتا ہے۔
اصل میں اس بحث میں شمولیت سے قبل اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ لفظ “سیاست” کے معنیٰ کیا ہیں کیونکہ جب تک اس لفظ پر ہماری گرفت مضبوط نہیں ہوگی اس وقت تک ہم بہت ساری باتیں سمجھتے سمجھتے کبھی بھٹک رہے ہونگے اور کبھی بھٹک بھٹک کر درست سمت بڑھ رہے ہونگے اور یہی سمجھتے سمجھتے بھٹکنا اور بھٹکتے بھٹکتے سمجھنے کے راستے پر آنا ہماری الجھنوں کا سبب بن کر رہ جائے گا۔
لفظ سیاست دراصل بہت وسیع، فصیح اور بلیغ معنیٰ رکھتا ہے۔ یوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست کا تعلق ان امور سے ہے جو کسی بھی حاکم کو حکومت چلانے کی لیے درکار ہوتے ہیں۔ ایک اچھی حکمرانی کی لیے یہ ضروری ہے کہ حاکم کو نہ صرف ان کا بھرپور علم ہو بلکہ وہ ان کو انجام دینے اور ان کو اپنی رعایا سے منوانے پر بھی قادر ہو۔ اگر اس کی معلومات محدود ہوں یا محض معلومات ہی کی لیے اس کو بیشمار سہاروں (مشیروں) کی ضرورت ہو یا اس کے پاس قوت نافذہ کا فقدان ہو یا وہ خود خادم قوم سے بڑھ کر حاکم مطلق بن بیٹھے اور ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا چاہے تو معاملات کوئی بھی غیر معمولی صورت اختیار کر سکتے ہیں اور اس کے مشیران کے مشورے اس کی نیا کو پارلگانے کی بجائے بیچ منجھدارپھنسانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
گفتگو کا آغاز ہم اس بات سے کرتے ہیں کہ آخر لفظ “سیاست” کو ہم کس معنوں میں لیا کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر سیاست کی تعریف کیا؟۔ محمدعسکری ممتاز جو کہ ایم فل ہیں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں “پولیٹکل سائنس میں سیاست کی تعریف بڑا پیچیدہ موضوع سمجھا جاتا ہے اور آج تک ماہرین ،علم سیاسیاست کی کوئی جامع تعریف پیش کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اور اب تک سیاسیات کے ماہرین نے سیاست کی جتنی تعریفیں پیش کی ہیں کسی ایک پر اجماع نہیں ہوسکاہے۔اور معلوم نہیں آئندہ یہ لوگ کسی نتیجے پر پہنچیں گے بھی یا نہیں۔لیکن ہم اسلام کی زبان یعنی عربی زبان کی رو سے اگرسیاست کے لفظی معنی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے لفظ سیاست عربی میں حکومت کرنے کی مصلحت کو پیش نظررکھ کر امور کو انجام دینے وغیرہ کے معنی ٰ میں استعمال ہوا ہے۔اس لفظ کے اصطلاحی معنیٰ یوں ہیں جیسے مخلوق خدا کی راہ نجات کی طرف رہنمائی کرنا اور لوگوں کی اس چیز کی طرف راہنمائی کرنا جو ان کی لیے مفید ہو۔یایہ کہ سیاست یہ ہے کہ سماج اور معاشرے کی تمام ایجاد ات اور اس کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اس کی صحیح راہ پر ہدایت کرنا”۔ اسی طرح ایک اور مقام پر کہا کہ”سیاست کسی گروہ کی بنائی گئی اس پالیسی کو کہا جا سکتا ہے۔ جس کا مقصد اپنی با لا دستی کو یقینی بنانا ہو “۔
یہ رائے ممتاز صاحب کی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ سیاست کی تعریف سیاست کاعلم رکھنے والوں نے کی ہی نہ ہو یا سیاسی فلسفیوں کے نزدیک سیاست ایک ایسا موضوع رہا ہو جس کی تعریف کی ہی نہ جا سکتی ہو۔
مولانا گوہر رحمان ، صدر ادارہ تفہیم الاسلام، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ تفہیم القرآن (مردان) نے ایک کافی مفصل کتاب بعنوان “اسلامی سیاست” تصنیف کی ہے جس سے کچھ حوالے ذیل میں درج کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جس سے سیاست کیا ہے؟، اس بات کو سمجھنا کسی حد تک آسان ہوجائے گا۔
ـ”سیاست بروزن امارت، سا سَ بر وزن قالَ، یقول سے مصدر ہے۔ اس باب کا مصدر سَو س بروزن قول آتا ہے۔سیاست اور سوس کے اساسی معنیٰ اصلاح کرنا اور سنوارنا کے ہیں۔ اس لغوی مفہوم کی مناسبت سے یہ دونوں مصدر ریاست و حکومت اور تدبرِ مملکت کے معنوں بھی بکثرت استعمال ہوتے ہیں اس لیے کہ حکومت اور ریاست کا مقصد بھی عوام کی حالت کو سنوارنا اور اصلاح کرنا ہوتا ہے”۔
آگے چل کر وہ مزید فرماتے ہیں کہ “سیاست کسی چیز کی اصلاح کی لیے کمر بستہ اور کھڑے ہوجانے کو کہا جاتا ہے اور سیاست ایک مدبر اور قائد کا کام ہوتا ہے۔ سائس اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سرداروں اور قائدین کی قوم میں سے ہوتا ہے”۔
علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں “سیاست اور حکومت مخلوق کی نگہداشت اور ان کے مفاد کی کفالت و ضمانت کا نام ہے۔ یہ سیاست اللہ کی نیابت ہے اس کے بندوں پر اسی کے احکامات نافذ کرنے کے کام ہیں”۔ 1۔ عمارت الارض (زمین کو آباد کرنا اور عمرانی تمدن قائم کرنا)۔ 2۔ تنفیذ احکام اللہ (اللہ کے احکامات کو نافذ کرنا) اور 3۔ مکارمْ الشریعہ (اخلاق فاضلہ اختیار کرنا)۔ آگے چل کر لکھتے ہیں ہیں کہ “سیاست ان تدابیر کا نام ہے جن کی وجہ سے لوگ صلاح و مصلحت عامہ کے قریب ہوجائیں اور فساد و بگاڑ سے دور ہوجائیں”۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں “سیاست وہ حکمت (فن و علم) ہے جو ان تدابیر سے بحث کرتا ہے جن کے ذریعہ شہریوں کے باہمی ربط و تعلق کی حفاظت کی جاتی ہے”۔
فقہائے کرام نے سیاست کا عام مفہوم معاشرے کی اصلاح کی لیے تدابیر اختیار کرنا لیا ہے اور کچھ نے سیاست کو “تعزیری ” سزاؤں کی لیے استعمال کیا ہے۔ پھر یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ کچھ تو وہ تعزیری سزائیں ہیں جن کا حکم بہت واضح طور پر قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔ کچھ وہ ہیں جو احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں اور کچھ وہ ہیں جو صحابہ کرام (رض) کی سنت سے ثابت ہے۔ یہ تو وہ سزائیں ہیں جن کو اسی طرح نافذ کرنا اور مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانا ضروری ہے لیکن کچھ غلطیاں، جرائم اور معاشرے کے بگاڑ کی وہ کوششیں یا طرز عمل ہے جس کو اگر نہ روکا جائے اور بگاڑ کی صورت حال پیدا کرنے والوں کی لیے ان کے جرائم یا طرز عمل کے مطابق ان کی سر کوبی نہ کی جائے تو معاشرہ فتنہ و فساد کا شکار ہو سکتا ہو تو ان کی لیے سزائیں تجویز کی بھی جاسکتی ہیں اور دی بھی جاسکتی ہیں لیکن ان سب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا ضروری ہے تاکہ ان میں خلاف عدل کوئی بات نہ ہوجائے اور وہ ظلم و زیادتی کے زمرے میں نہ آجائیں۔ سزاؤں کے سلسلے میں بھی ایسا کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں میں اضافہ کر دیا جائے جیسے رمضان یا اور مقدس ایام میں اگر کسی جرم کو کیا جائے تو حدود کے مطابق تو سزا بنتی ہی بنتی ہے لیکن مقدس ایام اور رمضان کا احترام نہ کرنے پر اس سزا میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے مثلاً “حضرت علی (رض) نے شراب پینے والے کو مقررہ 80 کوڑوں کے ساتھ 20 کوڑے مزید بھی لگوائے تھے”۔
یہاں غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کرنا کیا بنا اقتداروقدرت ممکن ہے؟ کیا انسانوں کو اس بات پر راضی کرنا کہ وہ سب ایک اللہ کے بندے ہیں اور اسی کی اطاعت ان پر فرض ہے، کوئی ایسا کام ہے جو محض سمجھانے یا زبان ہلادینے سے انجام پزیر ہو سکتا ہے؟۔ اس کا ہر جانب سے ایک ہی جواب ملے گا کہ بنا اقتدار، اختیار اور قدرت ایسا ممکن نہیں اسی لیے اس بات کو کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ نفاذ اسلام یا احکامات خداوندی پر عمل در آمد کرانے کی لیے اقتدار بھی ضروری ہے، اختیار بھی ضروری ہے مکمل طاقت و قدرت بھی درکار ہے اور یہی سب کچھ سیاست ہے۔ گویا سیاست کا دوسرا نام حکومت، مقتدر اعلیٰ، قوت نافذہ اور بھرپور طاقت، قدرت اور اختیار کا نام ہے۔
بد قسمتی سے سیاسی باگ ڈور دور حاضر میں ایسے خواہش پرست اور دین سے عاری لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ انکی بدکرداریوں کی وجہ سے لوگ سیاست ہی سے نفرت کرنے لگے ہیں۔اور ہر نیک اور پاک شحص کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انکے ہاں سیاست فقط جھوٹ ،خیانت ،دھوکہ بازی اورفراہمی تحفظ کے نام پر خزانوں کو لوٹنا،اور خوشحالی کے خوبصورت نعروں کے ذریعے عوام کو خواب غفلت میں ڈال کر اپنی جیب بھرنا اور اپنے ملک کا پیسہ باہر منتقل کرنا جیسے کام ہیں۔ دور حاضر میں سیاست کے یہی معنی لیے اور سمجھے جاتے ہیں جبکہ سیاست ایسی چیز نہیں بلکہ سیاست ایک ایسا خوبصورت اور بہترین انسانی زندگی اور حفاظت عالم کے اصول طے کرنے والا عمل ہے جسکے ہر مفہو م کے اندر فلاح و صلاح کے بہترین معنی پنہا ہیں۔
اسلامی فلاسفر حضرت امام غزالی سیاست کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ “سیاست وہ تدابیر ہیں جو زندگی کے وسائل اور انکے دائرے میں معاشرے کے افراد کے درمیان باہمی محبت،تعاون اور اتحاد پیدا کریں”۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ سیاست اور سلطنت مخلوق کی نگہبانی اور انکے مفادوں کی کفالت اور ضمانت کا کام ہے جو اللہ کی نیابت ہے اوراسکے بندوں میں اللہ تعالی کے احکام جاری و نا فذ کرنے کا نام ہے”۔
امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ “سیاست ریاست کے اندر حکمت شرعیہ کے ساتھ عدل و انصاف ،احسان اور بہترین قانون معاملات و معاشرہ قائم و تشکیل دینے اور نافذ کرنے کا نام ہے”۔ علامہ شمس الحق افعانی کہتے ہیں کہ “سیاست ایسا نظام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور انسانی حقوق کا تحفظ ہو۔اور قائدہ ہے کہ یہ سیاست نہ ہو تو یہ دونوں حقوق ختم ہو جائنگے”۔
مندرجہ بالا حوالوں سے یہ بات روز روشن کیطرح عیاں ہوتی ہے کہ جو بھی عمل و فعل عدل و انصاف کا سبب بنے وہ شریعت کا ہی حصہ ہے۔تو کیا سیاست خلق خدا اور انکی مصالح کے تحفظ کا نام نہیں؟۔ اسلام نہ صرف سیاست کے جواز کو مانتا ہے بلکہ انکے اندر اپنے زرین اصول اور اسپر عمل کو بہت سارے انفرادی عمل پر فضیلت کا حکم دیتا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ
مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے پس اللہ کے نزدیک بہترین شحص وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ اچھائی کا برتاو کرے۔۔ ’’ لا خیر فی کثیر من نجواھم الا من امر بصدقہ او معروف او اصلاح بین الناس صرف تین چیزوں میں سرگوشیاں اہمیت رکھتی ہیں۔ 1۔صدقات۔2۔امر خیر۔3.اور لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کی خاطر۔غور فرمائیے تین کے تین امور اجتماعیت سے متعلق ہیں، اسلام ایک عالمگیر قانون زندگی پر محیط خداوندی تخفہ ہے۔جس کا تعلق انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو کے ساتھ نہیں بلکہ تمام پر حاوی ہے تب ہی تو اسلام نے اپنا ملکی ،جہادی،اور عدالتی نظام تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس پر عمل سیاست کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے تو ہم کہتے ہیں کہ سیاست نہ صرف جائز بلکہ دین کہ ہمہ جہت فکر اور نظریہ کو عملی زندگی میں لانے کے لیے ضروری ہے،
علامہ شمس الحق افعانی ایک جگہ پر فرماتے ہیں کہ اگر اسلام چند رسمی چیزوں کا نام ہوتا تو ممکن ہے کہ دعوی کیا جاتا (بلکہ آج کل کیا جاتا ہے)کہ سیاست کو دین سے الگ کر لو۔لیکن قران جس میں تعزیراتی قانون ہیں مثلا (الزانیہ والزانی)السارقہ والسارقہ فاقطعواایدیھما)کہ ہاتھ کاٹ لو،اور جو لوگ ڈاکہ ڈالیں قران فرماتا ہے کہ اس کا ایک ہاتھ اور ایک پیر کاٹو۔اور جو کسی کی جان لے تم بھی اس کی جان لے لو۔ ثابت ہوا کہ ان قوانین کا اجراء سیاست کے بعیر ممکن نہیں ہو سکتا۔جنگی قوانین میں موجود ہے،یہود و نصریٰ کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر وہ اسلام کی سربلندی تسلیم کرلیں اور فوجی خدمات کے سلسلے میں ٹیکس دیں تو لڑائی بند کر لو یہ سیاست کی روح ہے۔تو سیاست کے تمام اجزاء قران میں موجود ہیں،دین پر چلنا تب ہی ممکن ہے جب سیاست ہو۔
(جاری ہے)

حصہ