ادبی رجحان کا اندازہ غزل کے موضوعات سے لگایا جاسکتا ہے‘ ڈاکٹر منور ہاشمی

2387

بہت سے مفکرین کا خیال ہے کہ ادب زندگی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے یا زندگی اپنی ضروریات کے مطابق ادب کو استعمال کرتی ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ ادب زندگی کے ساتھ چلتا ضرور ہے مگر زندگی کے مطابق بدلتا نہیں ہے بلکہ ادب زندگی کی قدروں کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر تعلیم‘ محقق‘ نقاد و شاعر پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی نے راقم الحروف سے ایک ملاقات میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مضبوط بنیادوں والا ادب زندگی میں تبدیلیاں لا سکتا ہے جن اصنافِ سخن کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں وہ کچھ عرصے کے بعد ادبی منظر نامے سے غائب ہو جاتی ہیں یعنی اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہیں۔ غزل اس لیے زندہ ہے کہ اس کے پیچھے میر و غالب موجود ہیں‘ مومن اور مصحفی کھڑے ہیں‘ آتش اور ناسخ کی تخلیقی صلاحیتیں کار فرما ہیں۔ غزل اس لیے زندہ ہے اور زندہ رہے گی کہ ہر زمانے میں غزل کو فکری و ذہنی اعتبار سے طاقتور قلم کار ملے ہیں‘ بیسویں صدی میں غزل کو محبوب بنانے والوں میں علامہ اقبال جیسا عظیم شاعر شامل تھا ان کے بعد حفیظ‘ ناصر‘ فیض‘ دانش اور قتیل شفائی جیسے عظیم المرتبت شعرا نے غزل کے گیسوئوں کو سنوارا۔ اکیسویں صدی بھی غزل کی صدی ہے آج بھی غزل سے محبت کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ نئے ادبی رجحانات کا اندازہ آج کی غزل کے موضوعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آزاد نظم بھی جدید ادبی رجحانات کی سہولت کار ہے اس میں موجودہ عالمی مسائل کا تذکرہ ہے موجودہ زمانے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے چند ایک عمدہ نظمیں نظر آئیں مگر ایک ادبی تحریک کے طور پر آزاد نظم کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ غزل کے موضوعات میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے موجودہ رویے زیاد جگہ نہیں پاسکے لیکن غزل میں میر اور غالب کی پیروی ابھی موجود ہے۔ اقبال نے غزل میں جو انقلاب برپا کیا تھا اس کو آگے بڑھانے کی جتنی آج ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نظر نہیں آتی۔ عصری اور قومی تقاضوں کو پیش نظر رکھنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اقبال کا اتباع بھی محض اس حد تک ہو رہا ہے کہ غزل کے قدیم مضامین سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی کوشش جاری ہے۔ میر اور مومن کا طرزِ سخن آج بھی عام ہے اس رنگ کو اپنانے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے جہاں تک افسانے‘ ناول اور دیگر نثری اصناف کا تعلق ہے ان پر بھی جمود کی سی کیفیت ہے۔ یہ اصناف رومانویت سے باہر نہیں نکل سکیں البتہ تاریخ و سماجی موضوعات ان اصناف میں کبھی کبھی در آتے ہیں مگر عصری مسائل اور قومی تقاضے ان اصناف میں بھی جگہ نہیں پا رہے۔ پاکستان میں ادبی کتب کی اشاعت زوروں پر ہے‘ تنقید‘ تحقیق‘ تاریخ اور دیگر موضوعات پر بے شمار کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں مگر گزشتہ چند برسوں میں (سوائے چند کتابوں کے) اور عصری ضرورتوں کے حوالے سے کوئی خاص لٹریچر سامنے نہیں آسکا۔ دہشت گردی اور اس حوالے سے ہونے والے واقعات پر مبنی اکادکا کتابیں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں ان معدودے چند کتب کو بھی زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ ایک تو کتاب پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے دوسرا یہ کہ عام انسان کی معاشی ضرورتیں اسے ادب کی طرف راغب نہیں ہونے دیتیں۔ اچھا ادب تخلیق کرنے والے کتابوں کی اشاعت کا حوصلہ نہیں رکھتے حکومتوں کی بغل میں بیٹھے ہوئے خود ساختہ شاعر و ادیب اپنی کتابیں دھڑا دھڑ شائع کر رہے ہیں ان کی کتابیں سرکاری ادارے بھی شائع کرتے ہیں اور پھر P.R کے مختلف طریقوں سے ان کتب کی نکاسی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کی لائبریریاں ایسی کتابوں سے بھری پڑی ہیں جو یقینی طور پر زبردستی مسلط کی گئی ہیں اور لوگ چوائس نہ ہونے کی وجہ سے فرسودہ و بے ہودہ ادب پڑھنے پر مجبور ہیں۔ ادب کا کام قاری کے ذہن کی تربیت کرنا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کل ایسا ادب تخلیق کیا جارہا ہے جو قاری کی پہلے سے موجودہ ذہنی سطح کو بھی گرانے کا باعث بنتا ہے اس طرح ادب اپنا فریضہ صحیح طرح سے ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ادب کا فریضہ یہی ہے کہ وہ ایک معیار قائم کرے اس کے بعد قاری کے ذہن کو اس معیار تک لے جائے اس طرح قاری کی ذہنی تربیت ممکن ہے بصورت دیگر ادب کا معیار گرتا چلا جائے گا اس وقت سب سے اہم ادبی فریضہ یہی ہے کہ قارئین و ناظرین کے مزاج اور ذہن کی تربیت کی جائے اس طرف اگر توجہ نہ دی گئی تو ادب پست سے پست تر ہوتا چلا جائے گا۔ آج کل ایک اور رجحان بھی رواج پا رہا ہے کہ غیر ملکی ادب سے افکار و خیالات لے کر تراجم کی صورت میں پیش کیے جائیں۔ یہ رجحان اپنی جگہ بہت اچھا ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ ہمارا ادب غیر معیاری ہے بہ الفاظ دیگر ہم یہ اعتراف کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم غیر ملکی ادب کے ان حصوں کے تراجم پیش کریں جو ہمارے اپنے ثقافتی ورثے اور قومی امنگوں کے خلاف نہ ہوں۔ رومانی‘ سیاسی کہانیوں اور بے ہودہ نظموں کے ترجمے سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا‘ اصل کام یہ ہے کہ ہم اپنے ادبی شہ پاروں کا ترجمہ غیر ملکی زبانوں میں کرکے باہر بھیجیں تاکہ لوگ ہماری ثقافت اور ادبی اقدار سے آگاہ ہوسکیں۔ اقبال کے تراجم مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں‘ ان کی مزید اشاعت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دیگر بڑے ادبا و شعرا کی تخلیقات کو بیرون ملک بھیجا جائے امید ہے کہ ہمارا ادب کسی بھی طرح پیچھے نہیں رہے گا ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا امن پسند چہرہ بھی دوسروں کو دکھا سکیں۔ اس وقت سوچنا یہ ہے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے آج کے حالات کیا تقاضا کر رہے ہیں تھوڑا سا غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ آج بھی وہی حالات ہیں جو 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد ہم پر مسلط تھے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے کیا کیا جتن کیے تھے ایک تحریک بھی چلی تھی جس کو علی گڑھ کی ادبی تحریک کا نام دیا گیا تھا اس تحریک کے زیر اثر ایسا ادب تخلیق کیا گیا کہ جس کے ذریعے دنیا کے سامنے مصالحت پسند اور امن دوست مسلمانوں کا رویہ پیش کیا جائے‘ تعلیم کی ترغیب دی گئی اور اخلاقیات کی ترویج و ترقی کے لیے عملاً بہت سی کوششیں کی گئیں ایسے ہی اقدامات کے نتیجے میں مسلمانانِ ہند ایک مضبوط قوم بن کر ابھرے ایسی ہی تحریک کے نتیجے میں حالی‘ شبلی‘ آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد جیسے ادیب سامنے آئے‘ علامہ اقبال پیدا ہوئے کہ جنہوں نے ادب اور شعر کے ذریعے قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ آج اسی طرح کی ایک ادبی تحریک کی ضرورت ہے جو آنے والے زمانے میں قوم کی رہنمائی کرکے ایک ہجوم کو قوم کی شکل دے سکے۔

عید ملن شعری نشست

عید کے دوسرے دن اجمل سراج کی صدارت میں راقم الحروف کی رہائش گاہ پر ایک مختصر شعری نشست منعقد ہوئی یہ پہلے سے طے شدہ پروگرام نہیں تھا بلکہ کچھ دوستوں کی گیدرنگ تھی اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ جب کچھ شعرا جمع ہو جائیں تو شعر سنائے بغیر چین نہیں آتا۔ اس نشست میں اجمل سراج‘ راقم الحروف‘ یوسف چشتی‘ محسن سلیم‘ اسحاق خان اسحاق‘ سخاوت علی نادر‘ افضل ہزاروی‘ عبدالرحمن مومن‘ تاج علی رانا‘ وزیر حسن اور کامل محمود نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ راقم الحروف نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے شعرا کا تعارف کرایا کہ یوسف چشتی نعت خواں بھی ہیں نعت گو بھی ہیں اور غزل بھی کہتے ہیں ان کی غزلوں میں غزل کے روایتی مضامین اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہیں۔ محسن سلیم کا بنیادی حوالہ حیدرآباد ہے اب وہ کراچی کے مشاعروں میں اپنے فن کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ اسحاق خان اسحاق نو آموز شاعر ہیں ان کی مادری زبان اردو نہیں ہے لیکن یہ بہت صاف ستھری اردو بولتے ہیں اور اچھے اشعار نکالتے ہیں۔ یہ بزم شمع ادب کے جنرل سیکرٹری ہیں اپنی تنظیم کے تحت ہر ماہ ایک مشاعرہ کراتے ہیں جس میں نوجوان شعرا کو خصوصی طور پر شریک کرتے ہیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ سخاوت علی نادر ایک مقامی روزنامے سے منسلک ہیں رثائی ادب میں بھی ان کا عمل دخل ہے سلام امام حسینؓ کی محفلیں سجاتے ہیں اور غزل کے کئی بڑے مشاعرے ان کے کریڈٹ پر ہیں بہت سوچ سمجھ کر شعر کہتے ہیں۔ افضل ہزاروی ایک جواں فکر شاعر ہیں‘ محبتوں کے انسان ہیں‘ ان کے کلام میں سادگی اور ندرتِ خیال ہے۔ عبدالرحمن مومن ایک علمی و ادبی خانوادے کے فرد ہیں شاعری ان کی رگوں میں دوڑ رہی ہے جدید لب و لہجے میں شعر کہتے ہیں ایک مقامی جریدہ میں اہم منصب پر فائز ہیں۔ تاج علی رانا گلوکاری کے فن پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور بہت عمدہ شعر بھی کہتے ہیں غزل گائیگی کی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وزیر حسن ایک سینئر شاعر ہیں ان کا نعتیہ مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ شریف النفس انسان ہیں مشاعروں میں بہت کم جاتے ہیں لیکن اچھا کہتے ہیں۔ اجمل سراج نے اپنے صدارتی میں کہا کہ ادبی تقریبات کا سلسلہ رمضان المبارک میں کم ہو جاتا ہے رمضان میں افطار ڈنر کے ساتھ نعتیہ مشاعرے ہوتے ہیں۔ رمضان برکتوں کا مہینہ ہوتا ہے اس مہینے میں ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محفلیں بھی کثرت سے سجائی جاتی ہیں ہمارے نبیؐ کا ذکر کرنا عین شریعت اور باعث ثواب ہے۔ جب تک ہم اپنے رسولؐ سے محبت نہیں کریں گے ہم مسلمان نہیں ہوسکتے کیونکہ حب رسولؐ ایمان کا لازمی جز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی اس نشست میں پڑھا جانے والا کلام قابلِ ستائش ہے ویسے بھی شاعری جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ اچھا شعر ذہن پر نقش ہو جاتا ہے ایک اچھا شاعر لوگوں کے جذبات سے آگاہ ہوتا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اس زمانے میں کس قسم کی شاعری پسند کی جارہی ہے وہ اپنے اشعار میں انہی مسائل پر بات کرتا ہے۔ معاشرے کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتا ہوں ہے مختلف مسائل کا حل بتاتا ہے اس کے ساتھ وہ غزل کے روایتی مضامین سے بھی ناتا نہیں توڑتا اس طرح وہ اپنی غزل کو دو آتشہ بنا خوب داد و تحسین وصول کرتا ہے۔ ہر شاعر کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کو نیک عمل کی ترغیب دے تاکہ معاشرہ بہتر بن سکے۔ یاد رکھیے کسی بھی معاشرے کے عروج و زوال میں قلم کاروں کا بہت حصہ ہوتا ہے۔ کراچی میں اس وقت جو شاعری ہو رہی ہے اس میں غزل بطور خاص نئے نئے مضامین سے آراستہ نظر آتی ہے امید ہے کہ غزل کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔

حصہ