گرین اور اورنج لائن پراجیکٹ کب مکمل ہوں گے؟

391

محمد انور
اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں یا کراچی آتے جاتے رہتے ہیں تو یقینا آپ نے کراچی میٹرو بس یا بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کے تحت جاری گرین لائن اور اورنج لائن بسوں کے منصوبوں کا ذکر ضرور سنا ہوگا۔ یہ دونوں منصوبے اسی سال مارچ تک مکمل ہوجانے چاہیے تھے مطلب 31 مئی کو ختم ہونے والے پانچ سالہ جمہوری دور کے ہونے سے پہلے مکمل ہو کر شہریوں کو ریپڈ بس سروس کیسی ہوتی ہے اس کا پتا چل جانا چاہیے تھا۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ کراچی میٹرو بس یا بس ریپڈ ٹرانزٹ کے یہ منصوبے آئندہ تین سال تک بھی مکمل نہیں ہوسکیں گے۔
ان دونوں منصوبوں پر فروری 2016 میں کام کا آغاز بہت زور شور سے کیا گیا ہے۔ گرین لائن بس پراجیکٹ کا افتتاح سابق و نااہل قرار دیے گئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کیا تھا جبکہ اورنج لائن بس منصوبے کا افتتاح مستقبل میں وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کیا تھا۔ اورنج لائن کا منصوبہ اورنگی ٹاؤن تا بورڈ آفس نارتھ ناظم آباد اور گرین لائن کا پراجیکٹ سخی حسن تا نمائش چورنگی تک ہے۔ گرین لائن بس پراجیکٹ دو سال کی مدت میں یعنی مارچ 2018 میں اور اورنج لائن منصوبہ 8 ماہ میں یعنی گزشتہ سال نومبر تک مکمل کیا جانا تھا۔ ان منصوبوں کے لیے جاری کام کی وجہ سے ناظم آباد‘ نارتھ ناظم آباد، نشتر روڈ‘ گرو مندر، نارتھ کراچی‘ نئی کراچی اور فیڈرل بی ایریا میں رہنے والے گزشتہ تین سال شدید پریشانی کا شکار ہیں جبکہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی یہ تکالیف آئندہ کتنے سال رہے گی۔
جمہوری حکومت کے حکمرانوں کو عوام کی تکالیف کا احساس ہوتا تو یہ دونوں منصوبے بلا تاخیر مکمل کرلیے جاتے۔ مگر بدقسمتی سے اب تک ان منصوبوں کے راہ داریوں کا کم ازکم 10 تا 25 فیصد کام باقی ہے۔ دونوں منصوبوں کے لیے سندھ گورنمنٹ کو بسیں خریدنی تھی جو تاحال نہیں خریدی جاسکیں بلکہ ان کی خریداری کے لیے کسی کمپنی سے معاہدہ تک نہیں کیا جاسکا۔ بسوں کی خریداری پیپلز پارٹی کی ختم ہونے والی صوبائی حکومت کو کرنی تھی لیکن مبینہ طور پر بھاری کمیشن کے حصول کے معاملے کی وجہ سے بسوں کی خریداری ممکن نہیں ہوسکی اور کمیشن کی ڈیلنگ کرنے والی حکومت ختم ہوگی۔
سندھ کے سیکرٹری ٹرانسپورٹ سعید اعوان کا کہنا ہے کہ اب بسوں کی خریداری کا معاملہ آنے والی حکومت کی صوابدید پر ہوگا۔ اس مقصد کے لیے دوبارہ ٹینڈرز طلب کیے جائیں گے۔ خیال ہے کہ اس عمل کے لیے نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کم ازکم نو ماہ درکار ہوں گے۔
گرین لائن منصوبے کے لیے 80 ڈبل ڈیکر بسیں اور اورنج لائن کے لیے 42 بسیں خریدی جانی تھی اس مقصد کے لیے ٹینڈرز کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ترکی کی ’’البرق انٹرنیشنل‘‘ کامیاب بولی دھندہ قرار پائی تھی‘ اسے مجموعی طور پر 122 بسیں ایک ارب 80 کروڑ کی لاگت سے فراہم کرنی تھی۔ اس حوالے سے مذکورہ کمپنی کے جنرل منیجر آپریشن تنویر صدیقی نے الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ سابق سندھ حکومت کی بعض اہم شخصیات کی جانب سے ناجائز مطالبات پر ان کی کمپنی اس ڈیل سے پیچھے ہٹ گئی۔ ترکی کی کمپنی کے پیچھے ہٹنے کے بعد سندھ گورنمنٹ نے 2017 میں دوبارہ انٹرنیشنل ٹینڈرز طلب کیے جس میں لاہور کی ’’کراون ٹرانسپورٹ‘‘ کامیاب قرار پائی لیکن اس سے معاہدے سے قبل ڈالرز کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کمپنی نے ایک ارب 62 کروڑ کے بجائے اس کی لاگت میں اضافے کا مطالبہ کیا جس کی وجہ سے معاملات طے نہیں پاسکے۔
کراچی کی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران کراچی میں سرکاری سطح پر پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی بھی نیا منصوبہ نہیں لایا جاسکا۔ یہی اس شہر کے لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ ان کی منتخب حکومت مقامی طور پر سفر کی سہولیات بھی نہیں فراہم کرسکی۔

حصہ