کل من علیہا فان، بیاد مظفر ہاشمی مرحوم

454

وہ اپنی جوانی سے لیکر بڑھاپے تک تحریک اسلامی کے سپاہی بنے ر ہے – نوجوانی کے آغاز سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوکر سید مودودی علیہ رحمہ کے قافلے میں شامل ہوئے – اور پھر تیز تر بھاگتی دوڑتی زند گی کے ایام میں ایک لمحے کو بھی نہیں رکے – اپنی جوانی سے لیکر بڑھاپے کے دور تک ، زندگی کے 62 قیمتی سال جماعت اسلامی اور خالصتا اللہ کی رضا کے لئے وقف کردئیے – اپنے مکمل زندگی آخری لمحات تک جماعت اسلامی کی جدوجہد میں عملی شریک رہے۔ باوجود بیماری اور ضعیفی کے اپنی ذمہ داریوں سے کبھی راہ رخصت نہیں لی ۔مسکراہٹ ان کا ہتھیار۔قناعت ان کا وصف۔ وضع داری اور انکساری – چھوٹوں پر شفقت اور بزرگوں کا احترام – بذلہ سنج بھی ، معاملہ فہم بھی ، ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم — کے مصداق ، رزم حق و باطل میں ، ان کو گرجتے اور برستے بھی دیکھا – پارلیمان میں اپنے مدلل موقف کے ساتھ بھرپور ترجمانی کرتے بھی سنا – جبر اور خوف کے دور میں ، شہر میں گھٹن کی فضاء میں باد نسیم بھی تھے —
ہمایوں نقوی روتا جاتا تھا اور مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ” وہ تو ابھی نماز عشاء￿ میں ساتھ تھے ، دیر تک مختلف معاملات پر گفتگو کرتے رہے۔ پھر گھر جاتے ہی طبعیت بگڑی۔۔ ٹبہ ہسپتال لے گئے ہیں ، میں بھی پہنچتا ہوں ، تم بھی آجاؤ —” اس کے بعد مجھے نیند کہاں آنی تھی ، جاگتا رہا اور نقوی کے فون کا انتظار کرتا رہا – فون کی گھنٹی بجی تو ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا . ہمایوں نقوی نے لرزتے جملوں میں اتنا کہا ” کہ نجیب دعا کرو — صرف پانچ فیصد چانس ہے —” اور پھر فون بند ہوگیا !
ہمارے جیتے جاگتے پیارے مظفر ہاشمی صاحب نے انتہائی وضع داری سے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی – انا للہ وانا الیہ راجعون —– اور اپنے رب کی جانب کشن کشن چل دئیے –
کچھ منظر آنکھوں میں گھوم جاتے ہیں گزشتہ یکم شوال ہے — ادارے میں گیارہ بجے کارکنان اور قائدین ایک ساتھ عید کی خوشیاں بانٹ رہے ہیں — میں منتظر تھا کچھ اور قائدین سے ملنے کو ، مظفر ہاشمی صاحب اب تک نہیں آئے تھے – ایک بج چکا تھا ، مگر ہاشمی صاحب ادارے میں نہیں ملے – نماز کے بعد ان کی ٹیبل کے سامنے بیٹھ گیا – برجیس صاحب اور میں گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ” میاں عید مبارک ” کی آواز نے چونکا دیا – پلٹ کر دیکھا تو ہاشمی صاحب تھے جو کسی سے مخاطب تھے — ہمارے قریب آئے معانقہ کیا اور پھر ہم دیر تک ساتھ بیٹھے رہے – کسے معلوم ہوتا ہے کہ کون سی ملاقات آخری بن جائے گی ۔ میری ان سے یہ آخری ملاقات تھی –
رمضان المبارک میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کے زندہ جلائے گئے مزدوروں کے لواحقین کے لئے عید گفٹ کا پروگرام تھا انھوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ” نجیب- تمہارا پروگرام کب ہے ؟ ” میں نے کہا کہ ” کل ! ” بولے میں کیا کرسکتا ہوں ؟ اور پھر خود ہی بولے ، کسی کو میرے پاس فیکٹری بھیج دو ، کچھ گفٹ ہیں جو میری جانب سے متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کردینا – یہی نہیں بلکہ اگلے دن اپنی گاڑی میں رکھوا کر ادارے میں چھوڑ گئے — اللہ و اکبر — ایثار اور قربانی کا پیکر – مظفر ہاشمی مرحوم –
ہماری آخری ملاقات بھی عجب ملاقات تھی ، اس دن انھوں نے مجھ سے میرے والد( مولانا محی الدین ایوبی ) مرحوم کے حوالے سے اپنی کچھ یاد داشتیں بھی شئیر کیں اور پھر ایسا منظر نامہ بنا کہ ہاشمی صاحب بولتے جارہے تھے اور میں سنتا جارہا تھا – کہنے لگے ” تمہیں تو یاد نہیں ہوگا ، 1970 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے آپ کے ابو کو سوسائٹی سے قومی اسمبلی نشست کا ٹکٹ دیا تھا – انتخابی مہم زوروں پر جاری تھی — آپ کے ابو کی شعلہ بیانی کا گرویدہ ایک زمانہ تھا، ہم نوجوان تھے اور ہمارے جیسے سینکڑوں نوجوان ایوبی صاحب کی تقریر سننے کے لئے ان کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے – پھر عین انتخاب سے کچھ دن پہلے ایوبی صاحب کو مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کے حق میں دست بردار کروادیا گیا — اس حلقہ انتخاب کے تمام نوجوان سخت جذباتی تھے اور انھوں نے کام کرنے سے انکار کردیا تھا – ایسے موقع پر آپ کے ابو نے نہایت جذباتی تقریر کی اور سب کو راضی کیا کہ وہ کسی فرد کے لئے کام نہیں کر رہے بلکہ اللہ کی رضا اور اس کے دین کے غلبے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں — اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ کچھ لمحے پہلے تک جذباتی نوجوان جو کسی کی بات سننے پر تیار نہ تھے –اب دل وجان نے مولانا ظفر احمد انصاری کی مہم چلا نے پر آمادہ تھے ”
دوسرا منظر !
نماز جنازہ تیارہے ، ہم نے عصر کی نماز مسجد فاروق اعظم میں ادا کی ، میرے برابر کھڑے ایک کارکن کسی سے کہہ رہے ہیں کہ ” ابھی کل عصر میں خالد شاہ مرحوم کی نماز جنازہ ہاشمی صاحب نے اسی مسجد میں ادا کی اور آج ہم سب ان کی نماز جنازہ میں شریک ہیں ” ابھی اس جملے نے مجھے چونکایا ہی تھا کہ حافظ نعیم الرحمن صاحب کی آواز سنائی دی ” محترم منور حسن صاحب نماز جنازہ پڑھائیں گے – صفیں ترتیب دے لیں ” صفیں ترتیب پانے لگیں ، منور حسن صاحب نے نماز جنازہ سے پہلے کچھ گفتگو شروع کی ” کل من علیھا فان * ( ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے — اور صرف تیرے رب کی ذات ہی باقی رہ جانی ہے ) منور صاحب نے نماز جنازہ ادا کرنے سے قبل مرحوم مظفر ہاشمی سے اپنے تعلق کے بارے میں بتایا کہ ” میرا اور ہاشمی صاحب کا 62 برسوں کا ساتھ تھا”
نماز جنازہ مکمل ہوئی اور ہم میت کو کاندھا دینے مسجد سے با ھر نکل آئے –
تیسرا منظر !
مسجد کے بھر ایک جم غفیر دیکھتا ہوں ، فلسطینی نوجوان، ایم کیو ایم کے یو سی چیرمین ریحان ہاشمی جماعت اسلامی کے بزرگ اور جوان ، علمی اور ادبی شخصیا ت کا انبوہ کثیر – سیاسی و سماجی رہنما الغرض کون ہے جو وہاں موجود نہیں ہے – میرے دائیں بائیں ہر آنکھ اشکبار، ہر چہرہ افسردہ اور غم میں ڈوبا ہوا — پھر یہ منظر زیادہ دیر نہ رہا – سب جلدی میں تھے – قبرستان پاپوش نگر کی جانب روانگی تھی — سب چل دے دیے ۔
تیسرا منظر !
مجھ میں یہ منظر دیکھنے کی تاب نہیں تھی ، وہ جو ہمارے رفیق ہیں ، ہر اچھے برے وقت کے ساتھی ہیں مظفر ہاشمی صاحب کو لحد میں اتا ر چکے اور پھر اپنے ہی ہاتھوں منوں مٹی کے بوجھ تلے دبانے لگے ہیں – یہ منظر بہت دلخراش ہے ، صرف ایک آسرا ہے جو ڈھارس بندھا رہا ہے — کہ جس شخص نے اپنی جوانی ، اپنا بڑھاپا اور اپنی تمام تر توانا ئیاں اپنے رب کے دن کی سربلندی کے وقف کر رکھی ہوں وہ اس اندھیری قبر میں کیسے تنہا ہوسکتا ہے ؟ اس کا اللہ ضرور اس کی قبر کو اپنے نور سے منور رکھے گا – ( ان شا اللہ )
80برس کی عمر میں اس مرتبہ کا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا – برادرم نوید علی بیگ نے بتایا کہ ان کا تو 1986میں ” بائی پاس ” ہوا تھا۔ اس کے باوجود آج تک انھوں نے اس بیماری کو دوسروں پر ظاہر اور تحریکی معاملات میں حا رج بھی نہیں ہونے دیا –
آپ کے والد مولانا رفیع ہاشمی صاحب مرحوم کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے ابتدائی ارکان میں شامل تھے انھوں نے ہی بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒکی ہدایت پر مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کی داغ بیل ڈالی۔ علمی و ادبی گھرانے آنکھ کھولی اور اپنے بھائی غیور ہاشمی کے ہمراہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوکر مرتے دم تک اپنے حصے کا کا م نہایت جانفشانی سے نمٹایا –
80 برس کی عمر میں ضعیفی بہت سوں کو مضمحل اور کمزور دیتی ہے ، مگر آہنی حوصلے والے ہاشمی صاحب کو بڑھاپا ما ت نہیں دے سکا -وہ اسی قوت اور تندہی سے وہ جمعیت الفلاح ، ادارہ تعمیر ادب اور فسلطین فاؤنڈیشن کے معا ملات دیکھتے رہے ، جن کے وہ صدر بھی تھے۔ فیاض عا لم بھائی نے مزید معلومات میں اضافہ کیا کہ وہ نارتھ ناظم آباد میں بے سہاراخواتین کے لیے قائم گوشۂ عافیت کے سرپرست بھی تھے۔ وہ 1979 اور1983ء میں نارتھ ناظم آبادA بلاک اورCسے کونسلر بھی منتخب ہوئے۔کے ڈی اے کی گورننگ باڈی کے رکن اور سابق میئر عبد الستار افغانی مرحو م کے نمائندے کی حیثیت اپنے فرائض انجام دیے اور کراچی میں فراہمی آب کے لیے واٹر بورڈ جیسے ادارے کے قیام میں کلیدی کردارادا کیا۔
مظفر احمد ہاشمی جماعت اسلامی کراچی کے فارن افیئر ڈیسک کے انچارج بھی رہے۔وہ جماعت اسلامی کے شعبہ تاریخ و تحقیق کے بھی نگراں تھے۔انہوں نے ادارہ نورحق میں قائم سید مودودی ؒیادگاری لائبریری کے قیام میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ فارن افیئر ڈیسک کے انچارج کی حیثیت سے مختلف ممالک اور بالخصوص اسلامی ممالک کے سفارت کا روں سے قریبی رابطے میں تھے –
آپ 1985اور 1993میں فیڈرل بی ایریا اور لیاقت آباد کی نشستوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے حلقے اور کراچی کے حقوق اور کراچی کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے بھر پور آواز بلند کی۔ وہ کشمیر کمیٹی میں بھی شامل تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی مختلف اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض انجام دیے۔ان دنوں وہ ایک پرائیویٹ صنعتی ادارے سے بحیثیت جنرل مینیجر وابستہ تھے-
یہ لکھتے ہوئے زندگی کی بے یقینی کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ” مظفر ہاشمی صاحب ” اب ہم میں نہیں رہے !

حصہ