چراغ، شاکر القادری کے فکر و فن کا منبعِ نور

646

ڈاکٹر عزیز احسن
تیسرا اور آخری حصہ
یہ پوری نعت صوفیانہ سرمستی کی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ غالب کے اس نقطۂ نظر کی عملی تشکیل ہے کہ:

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر

شاکرالقادری کاپوراکلام منتخب ہے۔اگر میںیہاں نقل کرتاجائوں توپوری کتاب کی تکرار ہوجائے گی۔ اس لیے چنداشارے کرکے رخصت چاہوں گا۔
کلاسیکی شعری مزاج کی عکاسی کے اعتبارسے یہ نعتیہ مجموعہ اساتذہ کی اسلوب شناسی کابھرپورنمائندہ ہے۔ غزل کی عشوہ طرازی اور ایمائی خوبی ’’چراغ‘‘ کے ہرحرف سے مترشح ہے۔ فارسی کلام کی خوبی اس پر مستزاد ہے۔ نعتیہ غزلوں کی بحریں مترنم ہیں اورصوفیانہ سرشاری اور نشاط انگیزی کی علامت بھی۔ بیشترنعتیہ غزلیں اساتذۂ سخن کے مصرعوں پریاان کے تتبع میں کہی گئی ہیں اور کہیں بھی اشعار میں ہلکاپن نہیں ہے۔ امت کے احوال کابیان تمنائی انداز میں مبدل ہوکرشاکرالقادری کے آئینۂ دل کاعکاس بن گیا ہے ۔مثلا:

ہیں درپئے آزار ستم گر، مرے سرورؐ!
للہ کرم کیجیے مجھ پر مرے سرورؐ
گلشن کی فضا ہے تہہ وبالا ، شہِ والاؐ
بے رنگ ہے پھر روئے گلِ تر، مرے سرور
پھر ہو مرا گل زارِ تمنا تروتازہ
ہو گلبنِ اُمید تناور مرے سرورؐ

احمدرضاخانؒ کے کلام نے اُردو نعتیہ ادب پر نئے آفاق کے درکھولے ہیں۔ لیکن ان کی زمینوں میں، شعری وشرعی تقاضوں کے ادراک کے ساتھ شعر کہنا بڑادشوار ہے۔ شاکرالقادری نے یہ منزل بڑی آسانی سے طے کی ہے۔ مثلاً

نورِ حق نے اس طرح پیکر سنوارا نور کا
نور گویا بن گیا ہے استعارہ نور کا
نور دل ہے، نور سینہ، نور پیکر، نور جاں
نور کا سورہ ہے گویا استعارہ نور کا

یہ پوری نعت شعری مزاج، شرعی تقاضوں کی جان کاری اور آگاہی کے ساتھ ساتھ احمدرضائی میلانِ حُبِّ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آئینہ دار بھی ہے۔ درج ذیل نعت تو مدینہ منورہ کی حاضری کا شعری سفرنامہ ہے:

میں نے شہر مدینہ دیکھا
ایسے جیسے سپنا دیکھا
رنگ و نور کی بارش دیکھی
خوشبوئوں کا میلہ دیکھا
سرسبز وشاداب تھا سورج
سبز تھا چاند کا چہرہ دیکھا
سبز بہاریں روح پہ اتریں
جب بھی گنبدِ خضریٰ دیکھا
اور لوأالحمد کی صورت
سبز پھریرا اُڑتا دیکھا
اک جانب محرابِ تہجد
اور اصحاب کا صفہ دیکھا
آپؐ کے قدموں کی جانب بھی
جنت کااک ٹکڑا دیکھا
ہر ذرے میں دھڑکن پائی
ہر پتھر کو زندہ دیکھا
ہر اک نقشِ درخشاں گویا
ماضی کاآئینہ دیکھا
میں نے شہرِ مدینہ دیکھا
ایسے جیسے سپنا دیکھا

یہ نعت بڑی مترنم بحرمیں ہے ۔غنائیت سے لبریز اس بحر میں،حاضری کی سرشاری کی کیفیات بڑی خوبی سے سمٹ آئی ہیں۔
لفظوں کا درست استعمال شاعری میں استنادی شان پیدا کردیتا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ شاکرالقادری نے الفاظ کے استعمال میںبڑی احتیاط پسندی کاثبوت دیا ہے۔ مثلاًایک لفظ ’’مواجہہ‘‘ (روبروہونا) ۔حاضری کے وقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کے مقابل دست بستہ کھڑے ہونے کی سعادت کو ’’مواجہہ‘‘ پرحاضری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس موقع پر بعض لوگ ’’مواجہ‘‘ لکھتے ہیں لیکن صحیح لفظ ’’مواجہہ‘‘ ہی ہے۔شاکرالقادری نے اس لفظ کو بالکل درست تلفظ کے ساتھ لکھا ہے:

میں چپ تھا ہورہی تھی مرے ترجماں کی بات
پیشِ مواجہہ مرے اشکِ رواں کی بات

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ادائوں کا عکس مختلف شعرا نے الفاظ کے آئینے میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی صورت میں کچھ شعراکامیاب ہوگئے ،کچھ بیان کی سطح پر بہت زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔شاکرالقادری نے بھی ایسی کوشش کی ہے اورخاصی حدتک زبان وبیان اورimageryکے عکس قائم کرنے میںکامیاب ٹھہرے۔ مثلاً

وہ تکلم کہ جسے حسنِ سماعت ترسے
وہ تبسم کہ ہراک پھول تمنائی ہو

آج کل جو نعتیہ شعری کتب سامنے آرہی ہیں، ان میںبیشترسستی جذباتیت کاعکس ہوتا ہے۔ فکری اورعلمی سطح پرشعرِ عقیدت کوسنوارنے کے مظاہرے کم کم ہوتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ شعرااپنی نعتوں میںعصری مسائل ذہن میںرکھتے ہوئے، اصلاحِ احوال کے لیے ضمیرِ ملت کوجھنجوڑیں اوراقبال کی زبان میں یہ کہتے ہوئے امت کو سوئے طیبہ رُخ کرنے کی دعوت دیں:

بہ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبیست

اس تخلیقی رویے سے عقلی دلائل،احساساتی ہالہ بن کر فکری سحاب کی صورت برسنے لگیں گے۔ مجھے شاکرالقادری کے کلام میںیہ پوری نعتیہ نظم اسی فکری وتخلیقی منہج پر نظرآتی ہے:

ملا کی قیل وقال غلط گفتگو غلط
صوفی کا وجد و حال غلط ہاوہو غلط
یہ ذکر وفکر نیم شبی یہ مراقبے
مستانہ وار نعرۂ اللہ ہو غلط
باطل ہے اہلِ حکمت ودانش کا ادّعا
ہر فلسفی کی فکر غلط جستجو غلط
بے کیف ہیں قیام و قعود و رکوع سب
زاہد تری نماز غلط ہے وضو غلط
یہ شعرونغمہ ، حسنِ تخیل یہ فکروفن
یہ آگہی، یہ عشق یہ ذوقِ نمو غلط
یہ ہجر یہ فراق یہ آشفتگی یہ درد
یہ قرب یہ وصال غلط آرزو غلط
وہ سنگِ در جبیں کو میسر نہ ہو اگر
یہ بزمِ کائنات غلط رنگ و بو غلط
ای ار جبینِ دل نہ نہادی بہ درگہش
تو رو بہ قبلہ ای و ترا قبلہ ُروغلط
ای بی خبرز معنیِ لولاک گوش کن!
بی شاہد این مشاہدۂ رنگ و بو غلط
ای سرکشیدۂ درِ خیرالورا ؐشنو!
از بہر تست مژدۂ لاتقنطواغلط
تاآن بہ حضر تش نہ رسیدی بصدقِ دل
چیزی درست نیست نگویم بہ تُو غلط

یہ نظم، غزل طور لکھی گئی ہے لیکن اس میں فکری زاویہ از ابتداتاانتہا ایک ہی قوس بنارہا ہے۔ جس کے باعث یہ نعتیہ غزل نہیں بلکہ نعتیہ نظم کہی جاسکتی ہے۔ اس نظم میں مسلم معاشرے کے مختلف طبقات کے عملی،فکری اور اظہاری رویوں کو جس انداز سے رد کرکے کہاگیا ہے کہ:

تاآن بہ حضر تش نہ رسیدی بصدقِ دل
چیزی درست نیست نگویم بہ تُو غلط

یہ اس بات کی علامت ہے کہ شاکرالقادری، حافظ کی زبان میں یہ کہہ رہے ہیں:

مصلحت دیدِمن آنست کہ یاراں ہمہ کار
بگزارند و خمِ طرۂ یارے گیرند

(میرے نزدیک مصلحت اسی میں ہے کہ سارے دوست [پورامعاشرہ] تمام اشغال چھوڑچھاڑکے، محبوب کی زلف تھام لیں…نعتیہ مفہوم میں دامنِ رسالت مآب تھام لیں)
شاکرالقادری کی پوری نظم کا مرکزی خیال یہی ہے۔ اگر ہم مضمون آفرینی کے اس عمل کو ’’ساختیاتی‘‘ نکتۂ نظر سے دیکھیں تو یہ نظم ،بین المتنیت (INTERTEXTUALITY) کاخوب صورت مظہر نظرآتی ہے۔ مزیدبرآں حافظ کے ایک شعر کی احساساتی سطح پرتشریح وتعبیر کی بے مثال کاوش ہے۔
شاکرالقادری کے کلام میں تلمیحاتی نظام بڑامربوط ،تخلیق آشنااور علم واحساس کا مجمع البحرین لگتا ہے۔ یہاں تلمیحات کی مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ غالب کی زمین میں کہی ہوئی نعت کے ذکر میںتلمیح کاخوب صورت استعمال دیکھاجاسکتا ہے۔ بقیہ مثالیں اس کتاب میں ہرقاری خوددیکھ سکے گا۔ مسجدِ نبوی میں ستونِ ابولبابہؓ کاذکر اورملاحظہ فرمالیجے جس سے تلمیحات اور ان کے حوالوں سے شاعرکی جذباتی وابستگی کااظہار ہورہا ہے:

ستونِ حضرت ابولبابہؓ گرفتہ دربر بہ آہ وزاری
’’شہا!شب ظلمتم سحر کن‘‘ ازاین سیہ کاروخام برخوان

یہ نعت،سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاؒ کی زمین میں کہی گئی ہے (صبابہ سوئے مدینہ روکن ازیں دعاگو سلام برخواں)اس لیے یہاں نظامیہ سلسلے کی روحانیت کا فیض بھی محسوس کیاجاسکتا ہے۔
’’چراغ‘‘ کے حوالے سے یہ چند باتیں کرکے، شاکرالقادری کی ان دعائوں پر آمین کہتے ہوئے رخصت ہوناچاہتا ہوں:

از خدائے پاک خواہم اجرِ نعتِ مصطفیٰ ؐ
عندہ خیرالجزائِ عندہ حسن المآب

…یا …

بابِ مدحت پہ مری ایسے پذیرائی ہو
لفظ خوش بو ہوں خیالات میں رعنائی ہو
دل پہ سدا نزولِ ثنائے رسول ہو
وردِ زباں رہے تو قصیدہ جناب کا

ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد!

حصہ