نائب

545

سیدہ عنبرین عالم
ابلیس حسد سے مرا جارہا تھا، اور آخرکار اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور اللہ کے حکم سے انکار کیا۔ سارے فرشتے، جن اور دیگر مخلوقات حیران تھیں، شیطان نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ سب خوف زدہ تھے کہ معلوم نہیں اب ابلیس کو کیا سزا ملے؟ مگر کچھ نہیں ہوا۔ ایک طرح سے آدمؑ کی سختی بڑھ گئی، ابلیس کو مہلت دے دی گئی کہ آدم اور اس کی نسل کو خوب بہکاکر جہنم میں پہنچا سکتے ہو تو پہنچائو۔ سب کو اندازہ ہوچلا تھا کہ یہ ایک طویل جنگ کا آغاز ہے جو اللہ اور ابلیس کے درمیان نیابت کے معاملے پر ہے اور جنگ کا میدان ’’نسلِ انسانی‘‘ ہے… کئی جن ’’ابلیس‘‘ کے ساتھ اللہ کے فیصلے کو حق تلفی تصور کرتے ہوئے ابلیس سے جا ملے اور ابلیس کی باقاعدہ ایک فوج تیار ہو گئی، جس کا تاقیامت صرف ایک ہی کام تھا کہ نسلِ آدم کو بہکائے۔ بہرحال اعلان یہ ہوا تھا کہ ابلیس کی بات ماننے والے جن اور انسان بالآخر جہنم کی نذر ہوں گے۔
پھر اُڑتی اُڑتی خبر سب فرشتوں اور مخلوقات کو پہنچی کہ پہلے امتحان میں آدم اور ان کی زوجہ حوا ناکام رہے۔ ابلیس کے کیمپ میں جشن کا سا سماں تھا اور آدم و حوا رو رو کر بے حال تھے۔ ’’میں نہ کہتا تھا کہ انسان اللہ کا نائب بننے کے لائق نہیں‘‘۔ ابلیس اِترا اِترا کر بار بار جتاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ نے آدم و حوا کو معاف کرکے زمین پر بھیج دیا اور اچھی طرح سمجھا دیا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اور تم اس کی چالاکیوں سے صرف اس صورت بچ سکتے ہو اگر میرے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی ہدایت پر عمل کرو… گویا جنگ کا مدعا یہ تھا کہ اللہ ثابت کرے کہ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نیابت کا اصل حق دار ہے، اور مسٹر ابلیس کی کوشش یہ ثابت کرنے کی ہے کہ انسان کسی لائق نہیں اور ہرگز ابلیس سے برتر نہیں کہ ابلیس سے نیابت چھین کر انسان کو دی جائے۔ جو انسان اللہ کی بات مانے اور تمام زندگی پیغمبروں کے احکام سے انحراف نہ کرے، وہ اس جنگ میں حزب اللہ ہے، اور جو انسان اللہ کے سوا کسی بھی دوسرے کی بات مانے وہ حزب الشیطان کہلائے گا۔
قارئین! جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں وہ مندرجہ بالا حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ ازل سے لے کر قیامت تک دنیا صرف دو حصوں میں تقسیم ہے… (1) جو اللہ کی فوج میں ہیں، اور (2) جو شیطان کی فوج میں ہیں۔ حزب الشیطان بڑی تندہی سے حزب اللہ کو بہکا رہی ہے، اور اکثر پوری پوری قوم کو بہکانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں چند مومنین ہی رسول کے ساتھ بچتے ہیں، اور باقی پوری قوم اللہ کے عذاب کا شکار ہوجاتی ہے، وہ پیغمبروں کی اطاعت نہیں کرتی۔ اور جو وعدہ اللہ نے شیطان سے کیا تھا کہ اس کے ساتھی برباد ہوں گے، پورا ہوجاتا ہے۔ جس کی مثال حضرت صالحؑ، حضرت شعیبؑ، حضرت لوطؑ اور حضرت نوحؑ وغیرہ کی قومیں ہیں۔
پھر اللہ عزوجل نے ارادہ کیا کہ ایک پورا گروپ پیغمبروں کا کسی قوم کی طرف بھیجا جائے، اور اصحابِ کہف کا واقعہ پیش آیا، مگر وہ بھی اپنی قوم سے اتنے عاجز آگئے کہ غار میں جا چھپے۔ جب غار سے نکلے تو بھی اُن کے مقبرے بناکر اُن مقبروں کی عبادت شروع ہوگئی، ان لڑکوں کا آسمانی پیغام پھر بھی نہ مانا گیا۔
اللہ گویا یہ چاہتا تھا کہ کوئی ایک قوم اپنے رسول کی اتنی تابعدار ہوجائے کہ پھر وہ دنیا میں اللہ کا پیغام پہنچاکر تمام نسلِِ آدم کو اللہ کا تابعدار بنائے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ایک حضرت یونسؑ کی قوم کچھ عرصہ فائدہ اٹھا سکی۔ آخرکار اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبروں کی ایک نسل بھیجنے کا فیصلہ کیا اور انتخاب ہوا ابراہیمؑ کا، تاکہ ایک پیغمبر کا چھوڑا ہوا کام اگلا پیغمبر جاری رکھ سکے۔ نسلِ انسانی نے اس دفعہ بھی بے حد نالائق ہونے کا ثبوت دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل بنی اسرائیل نے اس شدت کی بغاوت کرڈالی کہ کئی انبیا و رسل کی بے وقعتی اور نافرمانی تو ایک طرف، انبیاء کو تواتر سے قتل بھی کرتے رہے اور برملا کہتے کہ اللہ کے نبی ہم سے ہار گئے، نعوذ باللہ یہ بھی کہا کہ ہم طاقتور اور اللہ کمزور ہے۔ اور آہستہ آہستہ کھلم کھلا شیطان کی عبادت اور نسلِ انسانی کی غارت گری کرنے لگے۔ تاہم چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے چہیتے رسول تھے اس لیے ان کی نسل سے متصل بنی اسرائیل کے لیے ابھی تک مکمل ختم کرنے والے عذاب کا فیصلہ نہیں ہوا، ان کے پاس ابھی بھی مہلت ہے کہ سدھر جائیں، تاہم ان سے رسالت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش کے بعد سے چھین لی گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کی گئی، جن کی قیادت میں حزب اللہ نے پہلی بار کامیابی حاصل کی اور اللہ کا بنایا ہوا نظام زمین کے کسی خطے میں مکمل رائج ہوا۔
قارئین! اس تجزیے کے بعد ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ نیابت کے لیے جاری اس جنگ میں حضرتِ انسان کی خراب کارکردگی کی وجہ سے، ہماری پوزیشن خاصی نازک ہے، یعنی پوری تاریخِ انسانی میں صرف چند ہی لوگ رسولوں کا ساتھ دے سکے اور ان کی نسلیں بھی آگے چل کر پھر کفر کے نرغے میں پھنس گئیں، آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جاکر کچھ عرصے کے لیے اللہ کا دین نافذ بھی ہوا تو رسولؐ کی رحلت کے فوراً بعد شورش شروع ہوگئی، زکوٰۃ دینے سے انکار سے لے کر جھوٹے نبیوں کا فتنہ، کہیں خوارج تو کہیں حضرت علیؓ و حضرت عائشہؓ آپس میں ہی جنگیں کرنے لگے، خلفاء دھڑا دھڑ شہید ہورہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے بھی محفوظ نہیں۔ واقعہ کربلا ہوجاتا ہے، یہ انتشار بڑھتے بڑھتے سقوطِ بغداد تک جاتا ہے۔ اس قدر زر پرستی کہ بغداد فتح کرنے کے بعد ہلاکو خان بغداد کے حاکم معتصم باللہ کو طشتری میں جواہرات پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’کھائو، یہی سب جمع کرنے میں تم نے عمر گزاری، اب تم یہی کھائو۔‘‘
آج بھی دنیا حزب اللہ اور حزب الشیطان میں تقسیم ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ عیسائی، یہودی اور ستارہ پرستوں میں بھی مومن ہوتے ہیں، اسی طرح آج مسلمانوں میں بھی اتنے برے لوگ موجود ہیں کہ انہیں حزب الشیطان کہا جائے گا اور غیر مسلموں میں بھی اتنے وسیع دل کے لوگ موجود ہیں جنہیں بآسانی حزب اللہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ نشانی کیا ہے؟ جس شخص یا گروپ کی حرکات یا بیانات سے کرۂ ارض یا نسلِ انسانی کو طویل المدت یا قریبی نقصان پہنچے وہ حزب الشیطان کہلایا جائے گا، کیونکہ اصل میں انسان ہی شیطان کا اصل دشمن ہے جس نے شیطان سے نیابت چھینی، تو انسان کو اصل مقصد یعنی نیابت حاصل کرنے، اللہ کو راضی کرنے سے بھٹکانے والا شیطان ہوگا جو انسان کا کرۂ ارض پر جینا محال کردے، یعنی کرۂ ارض کو انسانی زندگی کے لیے غیر محفوظ کر دے۔
اسی طرح جو شخص یا گروپ انسان اور کرۂ ارض کو ہر نقصان سے بچائے اور ان کو اصل مقصد پر مرکوز کرنے کے لیے اپنی جان لڑا دے وہ حزب اللہ کہلائے گا۔ اس میں ایک لطیف پہلو عشقِ الٰہی کا بھی ہے، یعنی حزب اللہ میں شامل شخص یا گروپ یہ تمام کوشش اللہ کی محبت میں کرے گا، نہ کہ ذاتی مفاد میں… فی سبیل اللہ… اللہ اکبر… وربک فکبر… اپنے رب کو بڑا کرو۔ (اپنے رب کی حاکمیت قائم کرو)۔ (سورۃ المدثر)
دیکھیے بڑا باریک نکتہ ہے، ذرا غور کیجیے گا… جنت، آسمانی سلطنت، سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، ہر مخلوق اللہ کے حکم کی پابند ہے، کوئی ذرا سی بغاوت کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ پہلی بغاوت شیطان کا اللہ کا حکم ماننے سے انکار، دوسری بغاوت حضرت آدم و حوّا کی اللہ کے حکم کی نافرمانی… یعنی شیطان نے ثابت کردیا کہ مجھے چھوڑ کر جسے آپ نیابت کے لیے منتخب کررہے ہیں وہ بھی میری ہی طرح نافرمان ہے۔ اللہ ظاہر ہے اپنی آسمانی سلطنت میں یہ بغاوت مثال بننے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا، لہٰذا آدم و حوّا اور شیطان کو تمام فوج کے ساتھ زمین پر بھیج دیا گیا اور تاقیامت جنت سے بے دخل کردیا گیا۔ مگر فرق تھا… آدم و حوّا کو معاف کرکے بھیجا گیا تھا اور ان سے مسلسل ہدایت بھیجنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ شیطان کو یہ دو سہولتیں حاصل نہ تھیں، یعنی انسان کو دوبارہ جنت میں جانے کا موقع مل سکتا ہے، شیطان کو نہیں۔ جب جنت کسی طرح مل نہیں سکتی تو شیطان کی فتح صرف اسی میں ہے کہ انسان کو نیابت کے امتحان میں اس بری طرح ناکام کرے کہ انسان کسی طرح اللہ کا نائب نہ بن سکے اور شیطان کہہ سکے کہ ’’میں نہ کہتا تھا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔‘‘
ہم نے جنت میں نافرمانی کرکے، اللہ کی سلطنت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی تو ہم کو زمین پر پھینک دیا گیا، اب ہم کو زمین کو اتنا منظم، پُرخیر اور پُرسکون بنانا ہوگا جیسے جنت۔ یعنی ہم نے جس جنت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی تھی، زمین کو اس کا انتشار ختم کرکے جنت جیسا بناکر اللہ کو واپس کردیا تو ہماری نائب کی حیثیت پھر سے بحال… اور زمین جنت بنے گی اللہ کا نظام نافذ کرنے سے… اس لیے شیطانی قوتیں اللہ کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو جڑ سے مٹا دینا چاہتی ہیں تاکہ کبھی اللہ کا نظام نافذ ہو، نہ انسان نائب بنے۔ یہ شیطانی حرکات کرنے والے بھی انسان ہیں، مگر اتنے بھٹکے ہوئے کہ بقائمی ہوش و حواس شیطان کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور اپنی ہی بربادی کا سامان کررہے ہیں۔ اس لیے آپ بڑا واضح فرق کرسکتے ہیں کہ انسانوں کا ایک بڑا حصہ حزب الشیطان بنا ہوا ہے اور امتِ مسلمہ جسے حزب اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے، کا بیڑہ غرق کررہا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی کچھ لوگ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، وہ بھی حزب اللہ کہلائیں گے۔ اور امتِ مسلمہ میں جو لوگ اسلام مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں، اسلام کے ہر حکم کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخی کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں وہ حزب الشیطان ہیں۔
زمین کیسے جنت بنے گی؟ کم از کم یہ تو ہو:
-1 سب سے پہلے فضا، پانیوں، جنگلوں کی جو بربادی ہوچکی ہے اس کا ازالہ ہو۔
-2 امن و امان کی بحالی، جیسے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے کہ ایک عورت سونا اچھالتی عرب کے ایک کونے سے دوسرے کونے چلی جائے اور اسے کوئی ڈر نہ ہو۔
-3 رہن سہن ایسا فطری اور سادہ ہو کہ بیماریوں کا ڈر نہ رہے، اس سلسلے میں ’’ترقی‘‘ اور ’’ترقی2‘‘ کے نام سے مضامین لکھے گئے تاکہ سب اسوۂ رسولؐ اپنائیں۔
-4 بھوک، بے حیائی، جنگ، سود اور دیگر برائیاں مکمل ختم ہونی چاہئیں۔
-5 دنیا کے فطری موسم بحال ہوجائیں اور قدرتی آفات کا سلسلہ رکے۔
قارئین! جنت میں شیطان نہیں رہتے، جنت صرف اُس وقت جنت بنے گی جب ہمارے دل جنتیوں کی طرح ہوس، حسد، لالچ، کینہ سے صاف اور اللہ کی محبت سے لبریز ہوں گے۔ ہم کو برے وقت کا ڈر نہیں رہے گا، صرف اللہ کی پاک ذات کا ڈر ہوگا۔ ہم اپنی عیاشی کے لیے صرف افسروں کو خوش نہیں کریں گے، ہماری زندگی کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہوگی۔ اگر قرآن ترجمے سے روز پڑھا جائے، سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے، سازشیں کرنے سے گریز کیا جائے تو خاطر خواہ اصلاح ممکن ہے۔ ورنہ نعتیں پڑھیے، حلوے پکایئے، چراغاں کیجیے… کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ امریکا اور بھارت ہمارا بھی وہی حال کریں گے جو دیگر اسلامی ممالک کا ہوا۔ ایک درخواست ہے چوکنا رہیے۔ اس جنگ کا آخری رائونڈ چل رہا ہے، شیطان بھی بھرپور حملہ کرنے کے موڈ میں ہے اور اللہ بھی یقینا اب آخری وقت میں شکست نہیں چاہے گا۔ اس لیے اس وقت حزب اللہ کی زبردست رسوائی اور شکست کی آخری حد میں اللہ کی مدد ان شاء اللہ آنے ہی والی ہوگی، یہ وہ وقت ہے کہ زمین کچھ ہی عرصے میں انسانی زندگی کے قابل نہیں رہے گا، لہٰذا شاید اللہ کی طرف سے دخل اندازی ہو، ہم پر رحم ہو، ہم پر مدد نازل ہو، مہدی علیہ السلام یا عیسیٰ علیہ السلام آئیں اور ہماری اصلاح کرکے زمین کو جنت بنادیں۔ کوشش کیجیے کہ ابوبکرؓ بنیں، ابوجہل نہیں۔
’’اے اللہ! تُو گواہ رہنا، میں نے بات پہنچا دی۔‘‘

حصہ