خدا کے چہیتے

455

سید مہر الدین افضل
سورۃ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ
48 واں حصہ
(تفصیلات کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر
:128،129، 130،131،132)
آیت نمبر 167 تا 171 میں ارشاد ہوا: ’’اور یاد کرو جبکہ تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ ’’وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے‘‘، یقینا تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقینا وہ درگزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے۔ ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے بہت سی قوموں میں تقسیم کردیا۔ کچھ لوگ ان میں نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف۔ اور ہم ان کو اچھے اور برے حالات سے آزمائش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں۔‘‘
کیا قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا ذکر اس لیے ہے کہ ہم ان کے ذکر کو پڑھیں اور انہیں برا بھلا کہیں… اور اپنے بچے بچے کے دل میں ان کی نفرت گھول دیں؟ اور زندگی کے بارے میں… اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کے بارے میں ان کے طرز فکر و عمل پر بالکل بھی توجہ نہ دیں؟ بلکہ وہی طرز فکر و عمل اختیار کیے چلے جائیں۔ ان آیات کو پڑھتے ہوئے ہمیں اُمتِ مسلمہ کی تاریخ پر… اور اللہ سے کیے ہوئے عہد… اور اس کے بارے میں طرزعمل پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔ اگر ہم نے وہی طرز فکر و عمل اپنایا ہے جو بنی اسرائیل نے اپنایا تھا، تو سزا بھی وہی ہوگی جو بنی اسرائیل کو دی گئی۔ ٹکڑے ٹکڑے تو ہم ہیں ہی… قوموں کے تسلط کی تفصیل بھی سب کو معلوم ہے۔ تاتاریوں کے ہاتھوں رسوا کن عذاب پایا… اور اب یورپ اور امریکا مسلط ہیں… مستقبل میں بساطِ عالم پر تسلط کے لیے جو قومیں کوشاں ہیں وہ ابھی سے ہمیں اپنا آلہ کار بنارہی ہیں… اور ہم ہیں کہ خوشی سے اُن کے خادم بننے کے لیے تیار ہیں… اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں معاف کردیا جائے گا… بس ایک مرتبہ ذرا سنبھل جائیں۔ لیکن جیسے ہی یہ دنیا اور اس کے مزے سامنے آتے ہیں، پھسل جاتے ہیں۔
سورۃ الاعراف میں ہم عذاب پانے والی قوموں کا ذکر پڑھ چکے ہیں۔ ایسی برباد ہوئیں کہ جیسے کبھی رہی بسی ہی نہ تھیں! ایسی قوموں کے آثار دنیا کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں… لیکن بنی اسرائیل کو بتادیا گیا تھا کہ اگر تم نے مجھ سے عہد وفا نہیں کیا تو تم پر قیامت تک ایسی قوموں کو تسلط اور اختیار دیا جائے گا جو تم کو بدترین عذاب دیں گی۔ ذرا اسے اس طرح دیکھیں جیسے ہم کسی سے وعدہ خلافی کے بعد کہتے ہیں کہ یاد نہیں ہے… تم سے پہلے جس نے یہ حرکت کی اُس کے ساتھ میں نے کیا کیا تھا؟ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم ایسا کرو گے تو تمہارا انجام بھی یہی ہوگا۔
یہ تنبیہ بنی اسرائیل کو تقریباً آٹھویں صدی قبل مسیح سے مسلسل کی جارہی تھی۔ چنانچہ یہودیوں کے مجموعہ کتبِ مقدسہ میں یسعیاہ اور یرمیاہ اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تمام کتابیں اسی تنبیہ پر مشتمل ہیں۔ پھر یہی تنبیہ مسیح علیہ السلام نے انہیں کی، جیسا کہ اناجیل میں ان کی متعدد تقریروں سے ظاہر ہے۔ آخر میں قرآن نے اس کی توثیق کی۔ اب یہ بات قرآن اور اس سے پہلے صحیفوں کی صداقت پر ایک کھلی شہادت ہے کہ… اُس وقت سے لے کر آج تک تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جس میں یہودی قوم دنیا میں کہیں نہ کہیں روندی اور پامال نہ کی جاتی رہی ہو۔
آیت نمبر 167 تا 170 میں ارشاد ہوا: ’’پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہوکر اسی دنیائے دَنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کردیا جائے گا، اور اگر وہی متاعِ دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اُسے لے لیتے ہیں۔ کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے۔ آخرت کی قیام گاہ تو خداترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟ جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم رکھی ہے، یقینا ایسے نیک کردار لوگو ں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے۔‘‘
یہود جانتے ہیں کہ توراۃ میں کہیں بھی بنی اسرائیل کے لیے نجات کے غیر مشروط پروانے کا ذکر نہیں ہے۔ نہ خدا نے کبھی ان سے یہ کہا اور نہ ان کے پیغمبروں نے کبھی ان کو یہ اطمینان دلایا کہ تم جو چاہو کرتے پھرو بہرحال تمہاری مغفرت ضرور ہوگی۔ نہ ہی مسلمانوں سے قرآن مجید میں کوئی وعدہ ہے کہ وہ بخشے بخشائے ہیں چاہے کچھ بھی کریں۔ لیکن یہ گناہ کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ گناہ ہے… مگر اس غلط بھروسے پر کرتے ہیں کہ ہماری تو کسی نہ کسی طرح بخشش ہو ہی جائے گی کیونکہ ہم خدا کے چہیتے ہیں… اور خواہ ہم کچھ ہی کریں بہرحال ہماری مغفرت ہونی ضروری ہے۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد وہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں، نہ توبہ کرتے ہیں، بلکہ جب پھر ویسے ہی گناہ کا موقع سامنے آتا ہے تو پھر اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مغفرت کسی کا ذاتی یا خاندانی اجارہ نہیں ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ کوئی، کام تو وہ کرے جو سزا دینے کے لائق ہوں مگر اسے آخرت میں جگہ مل جائے اچھی، صرف اس لیے کہ وہ یہودی یا اسرائیلی، یا محمڈن یا مسلمان ہے۔ کسی میں اگر ذرا بھی عقل موجود ہو تو وہ خود سمجھ سکتا ہے کہ آخرت میں اچھا مقام صرف اُنہی لوگوں کو مل سکتا ہے جو دنیا میں خداترسی کے ساتھ کام کریں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا اور اس کے فائدوں کو آخرت پر ترجیح تو صرف وہی لوگ دے سکتے ہیں جو اللہ کو، اس سے کیے گئے عہد کو بھول گئے ہوں۔ اللہ کو یاد رکھنے والے اور اللہ ہی کے لیے اپنے سارے کام کرنے والے، اور اللہ ہی کے اجر پر نظریں جمانے والے لوگ تو لازماً دنیا کی مصلحتوں پر آخرت کی مصلحت کو، اور دنیا کے عیش پر آخرت کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہیں۔
آیت نمبر 171 میں ارشاد ہوا: ’’انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر اُن پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے، اور یہ گمان کررہے تھے کہ وہ ان پر آپڑے گا، اور اُس وقت ہم نے اُن سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔‘‘
اشارہ ہے اُس واقعے کی طرف جو موسیٰ علیہ السلام کو شہادت نامہ کی پتھر کی تختیاں دیئے جانے کے موقع پر کوہِ سینا کے دامن میں پیش آیا تھا۔ بائبل میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’’اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے، اور وہ پہاڑ کے نیچے آکھڑے ہوئے اور کوہِ سینا اُوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا، کیونکہ خداوند شعلہ میں ہوکر اس پر اُترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اُٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا۔‘‘(خروج9:7۔8)
اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کتاب کی پابندی کا عہد لیا اور عہد لیتے ہوئے خارج میں ان پر ایسا ماحول طاری کردیا جس سے انہیں خدا کے جلال اور اس کی عظمت و برتری اور اس کے عہد کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہو اور وہ اس شہنشاہِ کائنات کے ساتھ میثاق استوار کرنے کو کوئی معمولی سی بات نہ سمجھیں۔ اس سے یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدا کے ساتھ میثاق باندھنے پر آمادہ نہ تھے اور انہیں زبردستی خوف زدہ کرکے اس پر آمادہ کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب اہلِ ایمان تھے اور دامنِ کوہ میں میثاق باندھنے ہی کے لیے گئے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر ان سے عہد و اقرار لینے کے بجائے مناسب جانا کہ اس عہد و اقرار کی اہمیت ان کو اچھی طرح محسوس کرا دی جائے تاکہ اقرار کرتے وقت انہیں یہ احساس رہے کہ وہ کس قادرِ مطلق ہستی سے اقرار کررہے ہیں اور اس کے ساتھ بدعہدی کرنے کا انجام کیا کچھ ہوسکتا ہے۔
بدنصیب لوگ اُس کتاب کے وارث ہوئے جو اُن کو دنیا کا امام بنانے والی تھی، مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخۂ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاعِ حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا… اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل وراستی کے علَم بردار اور خیر و صلاح کے رہنما بنتے، محض دنیا کے کتے بن کر رہ گئے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین

حصہ