برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

505

قسط نمبر 142،بیسوں اور آخری حصہ
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دونوں فریق اس جنگ میں بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار تھے اور عالم یہ تھا کہ افواج کو راشن اور ہر قسم کی سپلائی انتہائی دشوار ہوچکی تھی۔ ایک لایعنی جنگ کے پیچھے دونوں ملک اپنے فوجی وسائل برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ پاکستان اپنے فوجی وسائل مکمل طور پر جنگ میں جھونک چکا تھا، جس کے مقابلے پر ہندوستان کی ایک بہت بڑی فوج اب بھی جنگ سے باہر تھی۔
1965ء کی اس جنگ کے حوالے سے معروف صحافی وسعت اللہ خان کا یہ کہنا بہت کافی ہے کہ ’’یہ جنگ ریڈیو پاکستان اور آکاش وانی پر بھی خوب لڑی گئی۔ اس جنگ کے طفیل بھارت میں ہندی میں اور پاکستان میں اردو اور پنجابی میں لہو گرما دینے والے جنگی ترانے تخلیق ہوئے۔ ہوسکتا ہے سندھی، پشتو، بلوچی اور بنگالی میں بھی ترانے گائے گئے ہوں، مگر یہ فقیر لاعلم ہے‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ’’پاکستان کہتا ہے 1965ء کی جنگ وہ جیتا۔ بھارت کہتا ہے وہ جیتا۔ تو پھر ہارا کون؟‘‘
وسعت اللہ خان نے اس جنگ پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ’’بھٹو، عزیز احمد، میجر جنرل اختر حسین ملک، ایوب خان اور جنرل موسیٰ آخر کس مفروضے پر یہ جنگی پلان بنا رہے تھے کہ لڑائی کشمیر تک ہی محدود رہے گی اور بھارت بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کی حماقت نہیں کرے گا۔‘‘
ہماری جانب سے اس جنگ کے بارے میں اور کشمیر کے محاذ پر لڑی جانے والی مہم’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کے حوالے سے جو پلان ترتیب دیا گیا تھا کیا وہ فول پروف تھا؟
ہماری حماقت دیکھیں کہ جب فوجی کمان تبدیل کی گئی تو تین دن تک جنگ بلاوجہ ہی روک دی گئی۔ بقول ہندوستانی جنرل گوربخش سنگھ ’’اکھنور کی جانب پاکستانی پیش قدمی کا 72 گھنٹے تک خودبخود رک جانا ہمارے لیے آسمانی مدد کے برابر تھا‘‘۔
اندازہ لگائیے کہ ہماری ائیرفورس اور بحریہ کو اس پلان میں شریک ہی نہیں کیا گیا، اور نہ ہی لاہور اور سیالکوٹ کی ڈویژنل کمان کو فارورڈ پوزیشنز پر بھیجنے کے احکامات صادر کیے گئے۔ جنگی حالات کے پیش نظر ہمیشہ چھٹی پرگئے فوجیوں کو طلب کیا جاتا ہے، مگر اس جنگ میں 25 فی صد جوانوں اور افسروں کو طلب کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ وسعت اللہ خان لکھتے ہیں کہ گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان سے بھی سب کچھ مخفی رکھا گیا تھا۔ اور یہ بھی پلان میں شامل نہیں کیا گیا کہ اگر ہندوستان نے دوسرا محاذ مشرقی پاکستان کی طرف سے کھول دیا تو کیا ہوگا؟
کیا جنگ سے پہلے ہائی کمان نے سوچا کہ پاکستان کے پاس کتنے دن کا اسلحہ اور گولہ بارود ہے، اور جنگ طول پکڑتی ہے تو کیا ہوگا؟
جنگ ہمیشہ خاص قومی اہداف حاصل کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ اگر پاکستان کا ہدف کشمیر تھا تو ہدف حاصل کیے بغیر کامیابی کس بات کی؟
معاہدۂ تاشقند کے تحت بھارت نے 710 مربع میل علاقہ پاکستان کو، اور پاکستان نے210 مربع میل علاقہ بھارت کو واپس کیا اور دونوں ملکوں کی فوجیں 5 اگست سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی گئیں۔
پاک بھارت جنگ 1965ء کے بعد 10 جنوری 1966ء کو اعلامیہ تاشقند کے نام سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جو Tashkent Declarationکے نام سے جانا جاتا ہے۔ 23 ستمبر کو دونوں ملکوں کے درمیان سترہ روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی میں اُس وقت کی عظیم طاقتوں کا عمل دخل تھا۔ عالمی سطح پر سمجھا جارہا تھا کہ ان دو ملکوں کی اس جنگ میں دیگر ممالک جیسے چین، روس، برطانیہ اور امریکا ایک دوسرے کی مدد کے چکر میں شاملِ جنگ ہوجائیں گے اور کہیں یہ ایک بڑی جنگ کا روپ نہ دھار لے۔چنانچہ سوویت ری پبلکن کے وزیراعظم الیکسی کوسیجن نے متحارب ممالک یعنی ہندوستانی وزیراعظم لال بہادر شاستری اور پاکستانی صدر محمد ایوب خان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ، امریکی اور سوویت اتحاد کے دباؤ پر طے ہوا کہ ان ممالک کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا جائے اور کوئی مستقل حل تلاش کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں 4 جنوری 1966ء کو تاشقند، ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ، سوویت اتحاد (موجودہ ازبکستان) میں مشترکہ اجلاس منعقد کیا گیا۔
اس اجلاس میں پاکستان اور ہندوستان کو پابند کیا گیا کہ دونوں ممالک اپنی سرحد اور کشمیر میں 1949ء کی جنگ بندی لائن کو فوری طور پر بحال کرنے کا اعلان کریں۔ اور پھر اس دباؤ اور ہندوستان کی خواہش کے عین مطابق پاکستانی صدر ایوب خان کو ان شرائط کو ماننا پڑا۔
اعلامیہ
اگرچہ اس اعلامیہ کو بین الاقوامی طور پر بہت بڑی کامیابی تصور کیا گیا اور اسے پائیدار امن کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق دونوں ممالک اس بات کے پابند ہوجائیں گے کہ
’’ 1۔ ہندوستانی اور پاکستانی افواج 25 فروری 1966ء سے، تنازعے سے پہلے کے مقام پر واپس چلی جائیں گی۔
2۔ دونوں اقوام ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گی۔
3۔ اقتصادی اور سفارتی تعلقات بحال ہوں گے۔
4۔ دونوں ملکوں کے رہنما دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی تعمیر کی سمت میں کام کریں گے۔‘‘
اس معاہدے کو ہندوستان میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس میں کشمیر میں کوئی جنگ کا معاہدہ یا گوریلا جنگ کی کوئی بھی شق شامل نہیں تھی۔
قدرت اللہ شہاب نے ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ ’’پاکستان اور ہندوستان کے باہمی مذاکرات ایک مقام پر آکر شدید تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔ روس کے وزیراعظم کوسیجن نے کئی بار آکر صدر ایوب پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کو ناکام نہ ہونے دیں اور مسٹر شاستری کے ساتھ اپنی گفتگو جاری رکھیں۔ ایک بار صدر ایوب مذاق مذاق میں مسٹر کوسیجن سے یہ کہہ بیٹھے کہ ’’مجھے ہرگز یہ توقع نہیں کہ اس بالشت ڈیڑھ بالشت کے منحنی سے شخص کے ساتھ کوئی فیصلہ کن گفتگو ہوسکے‘‘۔ مسٹر بھٹو کا کہنا تھا کہ یہ سنتے ہی مسٹر کوسیجن سیخ پا ہوگئے اور انہوں نے نہایت سختی کے ساتھ صدر ایوب سے کہا ’’مسٹر شاستری ایک عظیم قوم کے مسلمہ اور عظیم لیڈر ہیں، ہم ان کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ آپ کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ میرے سامنے اُن کی شان میں اس قسم کے گھٹیا الفاظ استعمال کریں۔‘‘
مسٹر بھٹو کا کہنا تھاکہ وزیراعظم روس مسٹر کوسیجن کی اس ڈانٹ نے صدر ایوب کے دماغ سے خود اعتمادی کا غبارہ بھک سے اڑاکر نکال باہر پھینکا، اور اس کے بعد وہ معاہدہ تاشقند میں شاستری جی کی ہر ضد کے سامنے بلا پس و پیش ہتھیار ڈالتے چلے گئے۔
صدر ایوب خان کا معاملہ یہ تھا کہ جنگ کا بہترین وقت 1962ء میں اُس وقت میسر آیا تھا جب چین نے ہندوستان پر لداخ کو حاصل کرنے کے لیے حملہ کیا تھا، وہ اُس وقت اس شاندار موقع کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہ لڑائی جو سرحدی علاقائی تنازعے پر شروع ہوئی تھی، چین نے اس جنگ میں کامیابی حاصل کی اور ’’اقصائے چن‘‘ پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ جس وقت چین نے ہندوستان پر دو جانب سے حملہ کیا، اس نے اپنے سفیر کے ذریعے صدرِ پاکستان کو یہ پیغام پہنچایا تھا کہ اگر اس وقت پاکستان کشمیر حاصل کرنے کے لیے اپنی فوجیں سرحد پر لگادے تو ہندوستان کا ایک اور محاذ انگیج ہوجائے گا اور اس طرح پاکستان بھی اپنے مقبوضہ علاقے کو حاصل کرسکتا ہے، مگر اُس وقت نیند میں ڈوبے ہوئے ایوب خان کے پاس جب قدرت اللہ شہاب یہ پیغام لے کر گئے تو ایوب خان نے سخت الفاظ میں انہیں جھاڑ پلاتے ہوئے یہ تاریخی جملے کہے ’’تم سویلین لوگ فوجی نقل و حرکت کو کھیل سمجھتے ہو۔ جاؤ اب تم بھی جاکر آرام کرو، مجھے بھی نیند آرہی ہے۔‘‘
قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں آگے چل کر اہم ترین بات لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک بار میں نے نواب آف کالا باغ سے اس جنگ کے متعلق کچھ دریافت کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے فرمایا: بھائی شہاب! یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہرگز نہ تھی، دراصل یہ جنگ اختر ملک، ایم ایم احمد، بھٹو، عزیز احمد اور نذیر احمد نے شروع کروائی تھی۔‘‘
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ ’’جنگ شروع کروانے کا مقصد کیا تھا؟ تو نواب صاحب نے جواب دیا: یہ لوگ ایوب خان کو جنگ کے شکنجے میں ڈال کر اپنی طاقت بڑھانا چاہتے تھے۔ اس عمل میں پاکستان کا ستیاناس ہوتا ہے تو اُن کی بلا سے۔‘‘
(حوالہ جات: ’’تو پھر سنہ 65 میں ہارا کون؟‘‘ مضمون وسعت اللہ خان۔ 6 ستمبر 2015ء بی بی سی… ’’شہاب نامہ‘‘۔ قدرت اللہ شہاب)
( جاری ہے )

حصہ