حقیقت کی پہچان

1201

سیدہ عنبرین عالم
’’غرض جن اعمال سے ان کو منع کیا گیا تھا، جب وہ سرکشی (سے وہی) کرنے لگے تو ان کو کہہ دیا گیا کہ ذلیل بندر بن جائو، اور اس وقت کو یاد کرو، جب (یہود کو) تمہارے پروردگار نے آگاہ کردیا تھا کہ وہ قیامت تک ان پر ایسے شخص کو مسلط رکھے گا جو ان کو برا عذاب دے گا، بے شک تمہارا رب (اپنے دشمن کے) پیچھے آنے میں جلدی کرتا ہے۔ (یعنی جلدی بدلہ دیتا ہے)‘‘ (سورہ اعراف، آیت 167-166)
قرآن پڑھتے ہوئے ہم کثرت سے بنی اسرائیل کا تذکرہ پڑھتے ہیں۔ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی محبوب قوم تھی، مگر پے درپے نافرمانیوں اور سرکشی نے انہیں سب سے زیادہ نفرت زدہ قوم بنادیا۔ نہ صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے نفرت کا اظہار مختلف سزائوں کی صورت میں کرتا رہا، بلکہ انسانی اقوام بھی ان کی شرارتوں سے تنگ آکر ان سے نفرت کا اظہار کرتی رہیں، اور ان تحریکوں کو Anti Semitism کہا گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر وہ حالت جو بنی اسرائیل پر وارد ہوئی، وہ ہم پر یعنی امتِ محمدیہ پر بھی وارد ہوگی، وہ تمام غلطیاں اور وہی تمام سزائیں… ہم دیکھتے ہیں کہ ہم بھی اتنی ہی نافرمانی اور سرکشی کا شکار ہیں جتنے بنی اسرائیل تھے، اللہ ہمیں ہدایت دے۔
چارلس ڈارون (1809-1882) نے Evolution Theory پیش کی جس میں بتایا گیا کہ انسان پہلے بندر تھا اور بعد میں مختلف اشکال میں ترقی کرتے کرتے انسان کی موجودہ شکل میں آگیا۔ اس تھیوری پر ہر دور میں بحث ہوتی رہی۔ مسلمانوں نے کبھی اس تھیوری کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ قرآن میں حضرت آدمؑ اور حضرت حوّا کی پیدائش اور اس کے بعد انسانی نسل کا چلنا، سب تحریر ہے۔ یعنی قرآن کے مطابق انسان کی ابتدا انسان ہی تھی، بندر نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہودی سائنس دان چارلس ڈارون اتنی شدت سے اصرار کرتا ہے کہ انسان کے آبا و اجداد ’’بندر‘‘ تھے؟ وہ وجہ سورہ اعراف آیات 167-166 میں درج ہے، یہودیوں کے آبا و اجداد کو بڑی تعداد میں ’’بندر‘‘ بنادیا گیا تھا، اب تمام یہودی سزا کے نفاذ کے بعد بندر بن گئے تھے اور بعد میں ارتقائی عمل کے بعد رفتہ رفتہ انسان بنے ، یا کچھ انسان ہی رہے، باقی بندر بن گئے۔ یہ سب تفصیل قرآن میں درج نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب قرآن صاف صاف بتارہا ہے کہ یہودیوں کے آبا بندر ہی تھے، تو اگر یہی بات ایک یہودی سائنس دان کہہ رہا ہے تو کاہے کا جھگڑا! بس اُس کو یہ بات صرف یہودیوں کے متعلق کہنی چاہیے تھی، باقی سب انسانوں کے آبا تو الحمدللہ انسان ہی تھے۔
ایک غلط فہمی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ ’’کرسٹوفرکولمبس‘‘ ایک سیاح تھا، انڈیا ڈھونڈنے نکلا تھا، امریکا پہنچا اور وہاں ایک نئی مملکت کے قیام کا راستہ ہموار ہوگیا… حقیقت یہ ہے کہ کرسٹوفر کولمبس 1492ء میں اسپین کی بحریہ کا ایک اعلیٰ افسر تھا اور کئی بحری جنگوں میں شامل رہ چکا تھا۔ اس کو اسپین کے بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے اسی مقصد کے لیے بھیجا تھا کہ وہ نئی زمینیں تلاش کرکے اسپین کے نوآبادیاتی علاقوں میں اضافہ کرے، اور اس کے بدلے میں اُسے اسپین کی بحری طاقت کا واحد سربراہ یعنی Admiral of Ocean Sea بنایا جائے گا، اور تمام نئے قبضہ شدہ علاقوں کا گورنر اور وائسرائے بھی بنایا جائے گا۔ اور جب وہ چلا تو اس کے بحری جہازوں میں تمام جنگی سامان موجود تھا تاکہ وہ نئے علاقوں پر قبضہ کرسکے۔
ایک سرزمین کو ’’دریافت کرنا‘‘ اسی وقت کہا جائے گا جب وہ پہلی بار انسانی قدم سے آشنا ہوئی ہو۔ جب کہ امریکی سرزمین پر پہلے ہی سے انسانی تہذیبیں آباد تھیں، تو پھر اس کو دریافت کرنا کیسے کہا جائے گا؟ اور اگر معلوم دنیا کے قدم پہنچنے کو دریافت کہا جاتا ہے تو کولمبس سے 500 سال پہلے Lief Erikson وہاں جا چکا تھا۔ لیکن وہ ایک سیاح تھا، جابر جنگجو نہیں، اس لیے صرف سیر کرکے آگیا، فتوحات نہ کرسکا اور اس کا نام تاریخ میں نہ آسکا۔ کولمبس نے بھی وسطی اور جنوبی امریکا دریافت کیے، شمالی امریکا پر کبھی اس نے قدم بھی نہیں رکھا، البتہ اس نے غرب الہند کے بہت سے جزائر فتح کیے اور وہاں کے اصل باشندوں کا بغیر کسی لحاظ قتل عام کیا۔
کرسٹوفر کولمبس ایک یہودی النسل جنگجو تھا اور اسپین کے بادشاہ اور ملکہ بھی یہودی تھے، جنہوں نے یہودی ربیوں کے کہنے پر کرسٹوفر کولمبس کو دنیا کے مختلف علاقے فتح کرنے بھیجا تھا۔ یہودیوں میں علم نجوم اور جادو کو بہت اہمیت حاصل ہے اور وہ اپنے شیطانی علوم سے بہت سی باتیں پہلے سے معلوم کرلیتے ہیں اور اسی کے مطابق آگے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں میں ایک متفق علیہ قیادت کا فقدان ہے، اور جو قیادت ہے وہ بھی روحانی طور پر بالکل زیرو ہے، نہ ان پر سچے خواب آتے ہیں جیسے نورالدین زنگیؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ وغیرہ کو آتے تھے، نہ حضرت ابوبکر صدیقؓ و عمرؓ جیسی مومن فراست ہے کہ امت کو کسی منصوبہ بندی سے لے کر چل سکیں۔ ایسی صورت میں ہم یہودیوں کی قابلیت اور اتحاد کا ہرگز مقابلہ نہیں کرسکتے۔
اب بات کریں گے ایک اور دھوکے کی، جس کا نام ’’ہولوکاسٹ‘‘ ہے۔ 1939ء سے 1945ء کے درمیان جرمن نازی لیڈر نے پولینڈ سمیت کئی خطوں پر قبضہ کرلیا اور یہودیوں کو ایک خراب نسل قرار دے کر ان کا قتلِ عام شروع کردیا۔ اُس زمانے میں ہٹلر کا ایک مقولہ بہت مشہور ہوا کہ ’’میں نے چند یہودی اس لیے زندہ چھوڑ دیے تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ میں نے یہودیوں کو کیوں مارا‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ہٹلر نے 6 ملین یہودی مارے اور 17 ملین دربدر ہوئے۔ یہ تمام واقعات دوسری جنگِ عظیم کے دوران کے ہیں جب میڈیا بہت کمزور تھا اور یہودیوں نے جو بات پھیلا دی اسے ہی سچ تسلیم کرلیا گیا۔
سب سے پہلے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یورپ اور جرمنی میں 150 قسم کی نسل کے لوگ آباد تھے۔ ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف ہی ہتھیار کیوں اٹھائے؟ کسی اور کے خلاف کیوں نہیں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں نے زبردست قسم کی سازشیں نازی حکومت کے خلاف شروع کررکھی تھیں جیسا کہ یہودیوں کی عادت ہے کہ وہ ہر جگہ اپنی مرضی کی حکومت بٹھانا چاہتے ہیں۔ دوسرے، جنگوں کے دوران ہٹلر نے یہودیوں سے قرضے لیے، مگر یہودیوں نے سود در سود کے چکر میں جرمنوں کو ایسا پھنسایا کہ وہ اگلے ایک ہزار سال تک بھی ہر مہینے اپنی ساری کمائی یہودیوں کو دیتے رہتے تو بھی صرف سود ہی ادا ہوتا رہتا، قرض کبھی ادا نہ ہو پاتا۔ اس کے علاوہ بھی یقینا کئی وجوہات ہوں گی جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ تنگ آکر ہٹلر نے امریکا، برطانیہ سمیت 30 ممالک سے درخواست کی کہ وہ یہودیوںکو اپنے ہاں لے لیں کیونکہ یہ جرمنی کے علاقوں میں بہت فساد پھیلا رہے ہیں۔ تمام ملکوں نے صاف انکار کردیا، جس کے بعد آخرکار ہٹلر نے “Final Solution” کے نام سے یہودیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ اور یہ آپریشن بھی شروع میں بہت سادہ تھا، لوگوں کو یہودیوں سے تعلقات بنانے اور شادیاں کرنے سے منع کیا گیا، ان سے کاروبار کرنے سے منع کیا گیا، ان کی علیحدہ آبادیاں بنائی گئیں جہاں یہ چین و سکون سے رہ سکتے تھے۔ مگر ان کی سازشیں اور غلط حرکتیں جاری رہیں۔ اس پر ہٹلر کی برداشت جواب دے گئی اور اُس نے یہودیوں کا قتلِ شروع کردیا۔ لیکن بہرحال یہ بات کئی کتابوں میں لکھی جا چکی ہے کہ ہولوکاسٹ ایک جھوٹ ہے، اور زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار یہودی مارے گئے، باقی کہیں نہ کہیں فرار ہوگئے۔ آج تک کوئی نہ کوئی آواز اٹھتی ہے جو یہودیوں کے اس دعوے کو جھوٹ قرار دیتی ہے، یہاں تک کہ کئی ملکوں میں ہولوکاسٹ کو جھوٹ کہنے والوںکو پھانسیاں اور دیگر سزائیں بھی دی گئیں۔
یہ چند واقعات یہودیوں کے جھوٹ اور دھوکے کے درج کیے گئے، اور یہ جھوٹ آج تک جاری ہے۔ کبھی عراق پر بھاری ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگاکر حملہ کردیا جاتا ہے اور کبھی شام پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام لگا کر عوام پر بم برسا دیے جاتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ نیت میں ہی کھوٹ ہے، ارادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو برباد کرنے کا ہے۔ اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہر بات میں انہی کو خوش کرنے کی کوشش، انہی کی رضا حاصل کرنے کی تگ و دو۔ ہم آج بھی چاہتے ہیں کہ اپنا ہر مسئلہ ان یہودیوں کے سامنے پیش کریں، انہی سے منصفی کی توقع ہے۔ جب کہ قرآن میں صاف صاف درج ہے کہ ایمان لانے کے بعد اللہ اور رسولؐ کے سوا کسی سے منصفی چاہنا جائز نہیں۔ اللہ کی مکمل نافرمانی کے بعد ہم اللہ سے کس رحم کی توقع کرتے ہیں؟ ہم جس عذاب کے مستحق ہیں اللہ نے اس سے بہت کم مشکلیں ہم پر ڈالی ہیں۔
اب ہم دوبارہ سورہ اعراف کی آیت کی طرف پلٹتے ہیں جس میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ یہودیوں پر قیامت تک کوئی نہ کوئی عذاب مسلط کیا جائے گا… کیا ایسا ہورہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی بہت مزے میں ہیں اور تمام دنیا پر عذاب کی طرح مسلط ہیں۔ ہر مسئلے کے پیچھے آپ کو یہودیوں کا ہی ہاتھ نظر آئے گا، ان پر عذاب کیوں نہیں آتا؟
14 مئی 1948ء کو جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تو یہودی ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے تاریخی جملہ کہا ’’تو اختتام کی شروعات ہو ہی گئی‘‘۔ یہودیوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ یہودی کا کوئی اپنا وطن نہیں ہوتا، اور جس دن یہودیوں نے اپنا وطن حاصل کرلیا تو سمجھو قیامت کے دور کا آغاز ہوگیا اور ان کے مسیح دجال کی آمد انتہائی نزدیک ہے جس کے بعد یہودی تمام دنیا پر راج کریں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کا وعدہ قیامت تک کے لیے تھا، جب تک قیامت کا ابتدائی دور شروع نہیں ہوا تھا، ان پر عذاب مسلط تھا، آخری مشکل ان پر ہٹلر کی شکل میں نازل ہوئی۔ اس کے بعد آخری دور شروع ہوگیا تو اب ان پر کوئی بھی عذاب کی صورت مسلط نہیں ہے، بلکہ وہ خود عذاب بنے ہوئے ہیں اور اپنے گناہوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہودی اور صہیونی تنظیمیں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرکے اپنے آنے والے مسیح دجال کا راستہ ہموار کررہی ہیں تو کیا ہمیں امتِ مسلمہ کے تحفظ کے لیے کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ ہمارا تو یہ حال ہے کہ یاسرعرفات تک کی بیوی یہودی تھی، تمام عرب حکمرانوں کے حرم میں یہودی عورتیں بھری ہوئی ہیں۔ کیا ہم کو سوائے اہلِِ کتاب عورتوں سے شادی کرنے کے، کوئی حکم قرآن کا سمجھ میں نہیں آتا؟ جب کہ قرآن میں صاف صاف یہ بھی تو لکھا ہے کہ ’’یہود اور بت پرست تمہارے دشمن ہیں، ان سے بچو۔‘‘
اصولاً تو یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان ملکوں کا اپنا ایک ایسا ادارہ ہو جو ہر ملک سے فنڈ جمع کرے اور مصیبت کے موقع پر مصیبت زدہ ملک کی مدد کرے، اس ادارے کی اپنی عدالت ہو اور کوئی مسلمان ملک اس عدالت کے سوا کسی عالمی عدالت کا فیصلہ قبول نہ کرے، ہماری مشترکہ فوج ہو اور ایک مسلمان ملک پر حملہ تمام ملتِ اسلامیہ پر حملہ تصور کیا جائے اور سب مل کر مقابلہ کریں، تمام مسلم ممالک مل جل کر اپنے فیصلے کریں، اور ان فیصلوں میں عالمی طاقتوں یعنی یہودی عناصر کو شامل نہ کیا جائے۔ تحقیق و تحریر کا کام اتنی بلند سطح پر کیا جائے کہ ہماری ایجادات و تخلیقات مغرب کو حیرت زدہ کردیں… کیا یہ سب ممکن ہے؟
قارئین! زیادہ کی توقع نہیں، مگر کم از کم ہم یہ تو کرسکتے ہیں کہ دشمن کو دشمن تسلیم کرکے اپنی حکمت عملی بنائیں، جس طرح اسرائیل کو ہم یہودی ریاست سمجھ کر سات کوس دور رہتے ہیں اسی طرح ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ امریکا بھی ایک یہودی ریاست ہے جس کی دشمنی بھی بری اور دوستی دشمنی سے بھی زیادہ بری۔ دنیا میں صرف دو ہی نظریاتی ریاستیں ہیں اسرائیل اور پاکستان، اور دونوں بالکل ہی مخالف نظریات پر وجود میں آئی ہیں، اس لیے دونوں کے دوست دشمن کبھی بھی ایک نہیں ہوسکتے، جو اسرائیل کا دوست ہوگا وہ لازمی پاکستان کا دشمن ہوگا۔ اور امریکا کی اسرائیل سے محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ نہ بھارت، نہ اسرائیل، نہ امریکا سے دوستی کی پینگیں بڑھانا ہمارے حق میں ہے۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اچھے برے کا فہم و شعور رکھتی ہو، اور نازک ترین مواقع پر درست فیصلے کرسکے۔ مگر ایسی قیادت اوپر آہی نہیں پاتی، اور بالفرض آ بھی جائے تو مار دیا جاتا ہے۔ ضیا الحق اور شاہ فیصل وغیرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے، ہم کو متحد کرے اور ہدایت دے، آمین۔

حصہ