معاشرے کی اصلاح کیسے ممکن

929

آسیہ پری وش
مایوسی کفر ہے۔ سو یہ سوچنا کہ آج کے معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے تو یہ غلط ہوگا کیونکہ معاشرے میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں لیکن معاشرے کی اصلاح کیسے ممکن ہو؟ معاشرے کی اصلاح سے پہلے ہمیں خود اپنی اصلاح کرنی ہوگی کیونکہ اس معاشرے کا ہم خود بنیادی حصہ ہیں۔ پہلے ہمیں خود کا جائزہ لے کر اپنی خامیاں سدھارنا ہوں گی۔ اپنے اندر مثبت سوچ لانی ہوگی۔ ایسی مثبت سوچ جس کے ذریعے ہم اپنے اندر کی منفی اور تخریب کارانہ سوچوں کو شکست دے کر اپنی سوچوں اور ارادوں کو یکجا کرکے دوسروں کے لیے خود کو مددگار ثابت کرسکیں اور خود کو قرآن کے پلیٹ فارم پہ لاسکیں۔ خود میں بدلاؤ لاکر ہی ہم دوسروں میں بدلاؤ لانے کے قابل بن سکتے ہیں۔
آج کل جگہ جگہ پہ اسکولز اور کالجز کھل رہے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے ایک طرح سے بزنس بنتا جارہا ہے۔ اپنے مقصد سے ناواقف ان اسکولز اور کالجز میں روز بروز طالب علموں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وہیں پہ غریب کے بچے یہ سوچ کے اسکول اور کالجز سے قدم پیچھے ہٹارہے ہیں کہ تعلیم حاصل کرکے کون سا نوکری مل جانی ہے۔ ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف ڈگری لینے کا نام ہے یا تعلیم نوکری کے لیے حاصل کی جاتی ہے؟ تعلیم کا اصل مقصد اچھے برے کی پہچان کے ساتھ ساتھ خود اپنی پہچان کرنا ہے اور اپنے لیے سیدھی راہ کا تعین کرنا ہے لیکن آجکل جتنی زیادہ تعلیم’ اتنا ہی زیادہ غرور ہوگیا ہے۔ یہاں پہ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ تعلیم ہمیں خود کی پہچان کرنے کے لیے حاصل کرنی ہوگی نہ کہ ڈگری یا نوکری کے لیے۔ تعلیم کے اصل مقصد کو پہچان کر یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ تعلیم اپنی درسی کتابوں کے ذریعے اپنے مدارج طے کراتے ہوئے ہمارے لیے کیا کیا سیکھنے، سمجھنے اور پہچاننے کے در وا کرتی ہے۔ ہمیں کون سے اخلاقی سبق سمجھانے کی کوشش کرتی ہے ورنہ تو اپنے ملک کیا باہر کے ملکوں سے بھی بڑی بڑی ڈگریاں لائے لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ علماء کو بھی تعلیم کے مفہوم سے ناآشنا دیکھا گیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بیروزگاری بہت بڑھ گئی ہے۔ لوگ بڑی بڑی ڈگریاں سنبھالے ادھر ادھر نوکری کے لیے بھٹک رہے ہوتے ہیں۔ جن میں سے اکثر لوگ مایوس ہوکر کچھ ایسا کربیٹھتے ہیں جن پہ بعد میں انہیں اور ان کے گھر کے افراد کو رونا اور پچھتانا پڑتا ہے۔ اگر ادھر ادھر ان پتھر کے دیوتا بنے لوگوں کا منہ دیکھنے کے بجائے ہم اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی ایک چھوٹے سے کام کی بنیاد رکھ کر خود کو بیروزگاری سے بچا کر اپنے جیسے ہی دوسروں کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ صرف نیک نیتی کے ساتھ تھوڑی سی ہمت، پختہ ارادے اور مسلسل کوشش سے ہم بھی عبدالستار ایدھی کی مثال بن سکتے ہیں جو کہ معاشی مشکلوں کے باوجود اپنی نیک نیتی اور پختہ ارادے کے بل پر خود اکیلے ہی چھوٹے سے کام کا آغازکر کے انسانی خدمت اور مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور آج ان کی مسلسل جدوجہد کے سبب ان کا وہ چھوٹا سا کام بڑھ کر پاکستان کی سب سے بڑی تنظیم بن گیا ہے۔ جس کے ذریعے بہت سے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کو روزگار بھی مل گیا ہے۔ ہم چاہیں تو عبدالستار ایدھی جیسا کردار ہم بھی ادا کر سکتے ہیں بس شرط اللہ پہ بھروسے، نیک نیتی اور پختہ ارادے کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی ہے۔
کچھ حدود اسلام نے ہمارے لیے مقرر کر رکھی ہیں جن کو توڑنا معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔ ان میں سے ایک’ اسلام میں عورت کو پردے کی تلقین کی گئی ہے۔ آجکل کی عورت پردے کو بطور فیشن، بغیر پردے اور فیشن ایبل بن کے عام گھومتی نظر آتی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے عورت کی عزت محفوظ نہیں۔ ان عورتوں کی وجہ سے پردے کی پاسداری کرنے والی عورتوں کی عزت کو بھی خطرہ رہتا ہے۔ ہمارے سچے دین اسلام کی مقررکردہ حدود کو پار کرنے والی عورتوں کو اپنی حیا اور پردے کی حفاظت کرنی ہوگی۔
ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے اللہ سے دوری ہے۔ دنیا کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلنے کی لگن اور اس دوڑ میں شامل لوگوں کو کچل کر آگے بڑھتے جانے کی کوشش میں ہم اللہ کو بھولتے جارہے ہیں۔ اللہ اور دعا پہ یقین رکھ کے صبر سے اچھے وقت کا انتظار کرنا ہمارے اندر سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے بے سکونی اور ہیجان آمیز کیفیت ہمارے معاشرے کا حصہ بنتی جارہی ہے جن کا نتیجہ اکثر خودکشی بھی نکلتا ہے۔ خودکشی کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ پہلے ہی ہم دنیا میں کم دْکھی ہیں جو مرنے کے بعد بھی اپنے لیے مستقل دکھ اور تکلیف خرید رہے ہیں۔ دنیا میں پھر بھی کہیں نہ کہیں خوشی ملنے کی امید تو ساتھ رہ سکتی ہے۔ ہم معاشرے کے سدھار کی سب سے بڑی ضرورت اللہ پہ مکمل یقین، مثبت سوچ اور پختہ ارادے کے ساتھ ہم سب کا متحد ہوکر اسلام قرآن کے پلیٹ فارم پہ مضبوطی سے قدم جمانا ہے۔ جس سے ہم معاشرے کی اندرونی اور بیرونی برائیوں اور سازشوں پہ قابض ہوسکتے ہیں۔
آخر میں یہ بات ہمیں اپنی یہ سوچ بھی بدلنی ہوگی کہ ہمیں اچھائی کا درس دینے والے دراصل خود کیا ہیں۔ کیا کیا کرتے پھرتے ہیں سو ان پہ طنزیہ سوچ لاگو کرتے ہوئے ان کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے کے بجائے ہمیں ان کی نصیحت دھیان سے سن کر اس پہ عمل کرنا چاہیے کیونکہ اس پہ عمل کرنا ہمارے لیے ہی بھلائی ثابت ہوسکتی ہے۔ باقی ہر ایک کا عمل ان کے اپنے ساتھ ہی رہنا ہوتا ہے۔ سو اچھائی کا درس دینے والے کا کردار جانچنے کے بجائے ہم اس اخلاقی درس یا نصیحت سے پہلے خود کی اور پھر اپنے عمل سے دوسروں کی اصلاح کرکے خود سے ہی منسلک معاشرے کی اصلاح میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ اپنے عمل سے معاشرے کی اس سوچ کو بھی بدل سکتے ہیں کہ ہمیں اچھائی کا درس دینے والے خود کیا ہیں۔ کیا کیا کرتے پھرتے ہیں۔

حصہ