عید بِنا بَابل

623

رافعہ مستور صدیقی
میں اگر بولوں تو دم گھٹتا ہے۔ پر چپ رہنا بھی تو مشکل ہے۔ طویل خیالات پر مختصر الفاظ کے پہناوے پورے نہیں آتے۔ خیالات کو الفاظ دینا ضروری ہے۔ کاغذ پر دکھ اتارنا بھی تو مشکل ہے۔ تخیل کو لفظ دینا اور پھر لفظ کو الفاظ بنانا بہت مشکل ہے۔ دکھ کو تحریر کرنا بھی تو دکھ ہی ہے۔ بے بنیاد سوچیں مجھے خالی کر دیتی ہیں۔ آج عید ہے بابا۔ برسوں گزر گئے۔ پھر بھی میں سویاں لے کے آپ کے گھر آنے کا انتظار کرتی ہوں۔ میں آپ کی آہٹ پہچان لیتی تھی۔ آپ نماز پڑھ کے آتے تو ہم آپ کو گھیر لیتے تھے۔ آپ عیدی کے لیے گل کو تنگ کرتے تھے۔ اور وہ من چاہی عیدی لے کے دم لیتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا ہے بابا لوٹ آئیں گے۔ عید کا دن ہوگا۔ مجھے گلے لگا کر آپ میرے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ رکھیں گے۔ پھر جب میری آنکھیں بھیگ جائیں گی۔ پیار سے ڈانٹ لگائیں گے ارے پگلی روتی کیوں ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے۔میرے بابا لوٹ آئیں گے پھر میرے تخیل کی وادی میں وہ قیامت خیز منظر لہراتا ہے کہ جب آپ جدا ہوئے تھے۔ دل دھڑکنا بھول جاتا ہے۔ اشکوں کی لڑیاں تھمنے کا نام نہیں لیتی ہیں۔ کہ میرے سر پہ اب آپ کا دست شفقت نہیں ہے۔۔۔ کہ اب فقط مجھ کو صرف اس گمان کو اپنے اندر زندہ رکھنا۔ بابا آپ لوٹ آئیں گے۔ وہ ڈائری بند کرتے ہی کچھ برس پہلے کی عید میں کھو گئی۔
اچھا تو آج عید ہے۔ میری شہزادی نے کپڑے بھی لیے ہوں گے۔ اس کے کانوں میں بابا کی آواز آئی۔ تو جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جی بابا! پر ویسے نہیں جیسے آپ دلاتے تھے۔ نور اداس ہوئی۔ نہ میری بچی رانی نہ، عید کے دن اداس نہیں ہوتے۔ بابا نے اسے سمجھایا۔ بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ اس کے آنسو آنکھ کی دہلیز تک آ چکے تھے۔ کہیں نہیں میری جان۔ بابا آپ کے پاس ہی ہیں، اپنی نور جبین کے پاس۔ بابا نے نور جبین کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
بابا عفرا کو چاچو نے اچھی والی شاپنگ کرائی جیسی آپ کرواتے تھے اور تو اور ثمن بتا رہی تھی عیدی بھی ہزار لے گی وہ۔ نور نے بابا کے سینے پر سر رکھتے ہوئے بتایا۔ اچھا تو میری شہزادی نے پچھلے سال دو ہزار لیے تھے۔ بابا نے اس کے سر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ اچھا تو ابھی میری عیدی نکالیں نہ بابا۔ اس نے فوراً سے فرمائش کی۔
جی تو کتنے لے گی میری لاڈو رانی…؟ میں پورے پانچ ہزار لوں گی بابا۔ چاچو آئیں گے جب ہر بار کی طرح تو میں عفرا کو دکھائوں گی۔ نور جبین اٹھ جائو اوو نور جبین آج عید کا دن ہے۔ اتنی دیر نہیں سوتے۔ جیسے ہی آنکھ کھلی اس نے بابا کو نہ پا کہ فوراً آنکھیں بند کر لیں۔ بابا آپ کہاں چلے گئے۔ عیدی تو دیں۔ اب کی بار آنسو بہہ کر گالوں کو بھگو چکے تھے۔ اٹھ کملی اے دیکھ سکینہ نے سویاں بھیجی ہیں بہن بھائی کو بھی کھلا دے خود بھی کھا لے، اماں کی آواز آئی۔۔
اماں سویاں بنائی نہیں ہیں کیا؟ اس نے دور سے ہی پوچھا۔ نہ پتر اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ تیری بہن بھائی کو عیدی بھی دینی ہے۔ اماں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ اماں کتنے میں بن جانی تھیں۔ کنجوسی ہی کرتی ہو ہمیشہ۔ نور جبین نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔ اچھا جلدی کریں اٹھ جائیں، تیرے چاچے کے گھر بھی چلنا ہے، ناراض ہو ں گے پھر، اماں نے جلدی کرتے ہوئے کہا۔
کیوں؟ چاچو آتے ہیں نہ ہر بار ، نور کو جھٹکا لگا۔۔۔ تیرے ابے کے ہوتے آتے تھے۔ اب کہاں کے بھرجائی میرے تو بھائی رہے نہیں۔ بچوں کو بچوں سے ملنا ہو تو لے آئیے گا، اماں لہجہ بناتے ہوئے بولیں۔ تو ٹھیک ہے اماں پھر ہم نہیں جا رہے، اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ نہ نہ ایسی بات نہیں کرتے۔ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اتنے سال آتے رہے وہ اب ہم چلے جائیں گے۔ کچھ نہیں ہوتا، اماں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
اچھا! اماں تو کہتی ہے تو ٹھیک ہے، اس نے عید کے دن پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اے میری سونی شہزادی اے۔ جا گل جبین اور شیر جہاں کو تیار کر دے۔ اماں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔ آپا چاچو کتنے خوش ہوں گے۔ وہ تو عیدی بھی دیتے ہیں۔ مزا آئے گا۔ میں ویڈیو گیم لوں گا۔ شیر جہاں نے چہکتے ہوئے کہا۔ ہاں میرا سونا بھائی۔ جا نہا کے آ۔ اس نے شیر جہاں کے کپڑے اٹھائے۔
اماں پھپو ہر بار گل جبین اور شیر جہاں کے کپڑے لے آتی تھیں۔ نور کو اچانک یاد آیا تو اس نے پوچھ لیا۔ ہاں شاید حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اماں نے مثبت سوچنے پر اکتفا کیا۔اماں ماموں کیوں نہیں آئے ملنے؟ گل بھاگتی ہوئی آئی۔شاید کرایہ نہیں ہوگا۔ نور نے اماں سے کہا۔ نورے ہم تیرے چاچے کے گھر خالی ہاتھ جاتے اچھے لگیں گے کیا؟ اماں اس سے مخاطب تھیں۔
تو کیا کریں پھر۔؟ نور نے پوچھا۔ تو نے جو سلائی کے رکھے ہیں لا دے مٹھائی لے لیں۔ اماں نے امید بھری نظروں سے دیکھا۔ اماں وہ میرے داخلے کے ہیں۔ اس نے رونے والی شکل بنائی۔ دیکھ تیرا چاچا دے گا نہ۔ پھر تو وہ داخلہ دے دینا۔ اماں نے فوراً سے اپنا منصوبہ اس کے سامنے رکھا۔ پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے پیسے اماں کے ہاتھ پہ لا کے رکھ دئیے۔ اے سکینہ۔ ہم نور کے چاچے کے گھر جا رہے ہیں۔ بڑا دل کر رہا ہے اس کے بچوں سے ملنے کا۔ دو تین دن بعد ہی آئیں گے۔ عذرا بیگم نے سکینہ (پڑوسن) کے گھر اطلاع دی۔ اچھا! اچھا خیر سے جائو اور خیر سے آئو۔ سکینہ نے گل کو پیار کرتے ہوئے کہا… چل شیرا بھاگ کہ شبیر چاچا سے 200کے پھل لے لے۔۔ خالی ہاتھ جاتے اچھے نہیں لگیں گے۔ عذرا بیگم نے شیر جہاں کو تاکید کی۔ اماں مٹھائی لے نا۔ عید کا موقع ہے، نور نے اپنی اماں کو مشورہ دیا۔
پھر تو زیادہ پیسے لگیں گے۔ عذرا بیگم کو فکر لاحق ہوئی… اچھی لینا… چاچی کا پتا ہے نہ ہلکی چیز نہیں کھاتی۔ نور نے تائید کی۔ اے لے 3 سو روپے اچھی سی مٹھائی کا ڈبہ دے دے۔ عذرا بیگم نے مٹھائی والے سے کہا۔ 3سو کا چھوٹا ڈبہ آئے گا۔ مٹھائی والے نے پیسے لیتے ہوئے کہا۔ اماں دو سو اور بھی دے دے نا۔ بڑا ڈبہ لے لے۔ نور نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔۔۔ تیرے کہنے پہ بڑا ڈبہ لے لیا۔ ابھی صرف کرایہ ہے۔ بچوں کیلئیے کچھ پیسے رکھے۔ عذرا بیگم نے نور کو ہاتھ میں کچھ پیسے دکھائے۔
دیکھ شیرا اور گلے۔ تیرے چاچے کے بچے کتنے سمجھدار ہیں کچھ کھاتے نہیں تھے۔ نہ ہی لڑتے تھے۔ تم لوگ بھی کھانے کیلئیے نہ لڑنا۔ عذرا بیگم نے گل جبین اور شیر جہاں کو گاڑی میں سوار ہوتے ہی سمجھاتے ہوئے کہا۔ جی اماں ٹھیک ہے۔ دونوں نے خوشی سے سر ہلایا۔ اماں چاچو کا گھر تاں بڑا سونا ہے۔ گل نے گھر کا میدان دیکھتے ہی چہکتے ہوئے کہا۔ ہاں بڑے مزے سے کھلیں گے۔ شیر جہاں نے اس کو مزید خوش کرتے ہوئے کہا۔ اماں ہمیں عید منانی ہے۔ دو گھنٹے سے چاچی کمرے میں بیٹھا گئی ہیں۔ شیر جہاں نے رونے والی شکل بنائی۔
دیکھ پتر! باہر کتنی گرمی ہے۔ اے ڈبہ ہے نہ بڑی ہوا دے رہا ہے۔ عذرا بیگم تو ویسے ہی ہر بات کا مثبت پہلو نکال لیتی تھیں۔ اماں میں عفرا کو دیکھ کر آتی ہوں۔ نور نے گل اور شیر جہاں کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ دیکھیں بھابھی اتنے پیارے کپڑے لائی ہوں بچوں کے۔ بھائی جان کا دل خوش ہو جائے گا۔ یہ اس کی پھپھو کی آواز تھی وہ نہ چاہتے ہوئے رک گئی۔ ہاں عذرا ملنے آئی ہے۔ پتا نہیں سمجھتی کیوں نہیں۔ اس کا رشتہ اس کے مرحوم میاں کی وجہ سے تھا۔ اسکی چاچی نہ منہ خراب کرتے ہوئے کہا۔ اور میں بھی اس لیے اس بار یہ کپڑے آپ کے بچوں کے لیے لائی ہوں۔ پھپھو نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔آنسو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ بے آواز رو رہی تھی۔ دل سے ایک ہی لفظ نکلتا تھا۔ بابا مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ آپ آ جائیں پلیز۔ آنسووئوں سے پورا چہرا تر ہو گیا تھا۔ وہ آنسو صاف کرتے ہوئے عفرا کو ڈھونڈنے کے لیے آگے بڑھی۔
اس کے کمرے تک پہنچی ہی تھی کہ اس کی آواز آ رہی تھی۔ شاید وہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔ یا شاید خائم سے وہ رک گئی کہ وہ بات کر لے پھر اندر جائے گی۔ یار ان لوگوں کو زرا سی لفٹ کیا کرا دو سر ہی چڑھ جاتے ہیں۔ گندی سی مٹھائی کا ڈبہ لے آئے ہیں اور اس طرح نخرے کر رہی تھیں جیسے پوری دنیا کی دولت ہی اٹھا لائی ہوں۔ آواز پر قدم وہیں کہ وہیں جم گئے۔ اب تو آنسو بھی نہیں آ رہے تھے۔ سکتہ ہو گیا تھا۔ اندر جیسے آنسوو ¿ں کا سیلاب ہو اور بہنے کیلئیے ایک قطرہ بھی نہیں۔ بار بار ذہن میں ایک ہی بات گونج رہی تھی۔ گندی سی مٹھائی۔ گندی سی مٹھائی۔ وہ بوجھل قدموں سے اماں کے پاس آئی۔ ان کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔ اماں ہم کیوں آئے ہیں۔؟ یہ بابا کہ رشتہ دار ہیں۔ پتر تیرے پیو کے بہن بھائی تیرے چاچے پھپیاں ہیں۔ عذرا بیگم نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
وہ بس خاموش ہو گئی تھی۔ ورنہ وہ سب کچھ بہت اچھے سے سمجھتی تھی۔ یہ لیں کھانا کھا لیں۔ چاچی کھانا لے آئی تھی۔ بھابھی ہم سب کے ساتھ مل کر کھا لیتے۔ عذرا بیگم نے کچھ محسوس کرتے ہوئے کہا۔۔ رات کو سب مل کر کھائیں گے۔ ابھی آپ کھا لیں۔ صغریٰ بیگم کہہ کر چلی گئی تھیں۔ سب نے اپنی جگہ ان کے رویے کو محسوس کر لیا تھا۔ جی چاچو ابھی تھرڈ ائیر کا داخلہ بھیجوں گی۔ شیر جہاں آٹھویں میں ہے۔ اور گل چھٹی میں۔ نور بتا رہی تھی۔اور عذرا بیگم کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ بھائی جی نور کہتی ہے وہ ایس ایس کرے گی۔ افسر بنے گی۔ اماں سی ایس ایس۔ نور نے اماں کی درستگی کرتے ہوئے کہا۔
ہونہہ سی ایس ایس شکل دیکھی ہے۔ نور نے خائم کی آواز سن لی تھی۔ جو اس کو مضبوطی کی طرف لا رہی تھی۔ اچھا بھابھی آپ باتیں کریں میں آتا ہوں۔ اماں میں وہ گیند پڑی ہے لے کر آتا ہوں۔ شیر جہاں نے گیند کی طرف دوڑ لگا دی۔ ان کو کسی قسم کے پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ پتہ ہے نا ابھی عفرا اور خائم کے ٹرپ جائیں گے۔ ان کو ضرورت پڑے گی۔ صغریٰ بیگم نے ارشد میاں کو روکتے ہوئے کہا۔ ہاں میں سمجھتا ہوں۔ اور ویسے بھی بھائی صاحب کے ہونے تک سب تھا۔ اب تو بس ہمدردی کا اظہار کر رہا تھا۔ ارشد صاحب نے بھیگی بلی بنتے ہوئے کہا۔
ہاں بس باتوں تک ہی رہنا۔ اس سے اوپر نہ جانا۔ صغریٰ بیگم نے ہاتھ ہلا ہلا کر حکم دیا۔ شیر جہاں چھوٹا تھا پر سب سمجھتا تھا۔ فاران یہ میری چاکلیٹ اس کو کس نے دی، عبرا نے گل کو دیکھ کر رونے والا منہ بنایا۔ ہم تو ان کے گھر کچھ نہیں کھاتے، گھن آتی ہے ہمیں تو۔ اور عذرا بیگم سوچ رہی تھیں سمجھدار بچے ہیں اس لیے نہیں کھاتے، وہ ایک آہ بھرتی رہ گئیں۔ شیر جہاں سب سمجھتے ہوئے خاموشی سے اماں کے پاس آیا۔ اماں آپا کا داخلہ کیسے بھیجیں گے۔۔۔؟ پتر وہ اللہ ہے نا۔ اس کی حکمت لوگوں سے بہت بڑی ہے۔ یہ کہتے ہوئے عذرا بیگم کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ اماں گھر چلیں، عید منانی ہے، گل نے اماں کا منہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔۔ جی میرا بچہ چلتے ہیں۔ اب تب تک نہیں آئیں گے جب تک میرے پیارے بچے کچھ بن نہ جائیں گے، عذرا بیگم نے عزم کرتے ہوئے کہا جس پر تینوں نے اپنا سر ہلایا۔
کیا سوچ رہی ہے پتر؟ تیرا چاچا اور تیری پھپو آئے ہیں، عذرا بیگم نے نور کو آ کر بتایا۔ اس نے پہلے آسمان کی جانب دیکھا۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر اماں سے مخاطب ہوئی۔ کیوں آئے ہیں؟ میری پیاری بچی عید ہے آج، اماں نے پیار کرتے ہوئے کہا۔ اماں 10سال پہلے بھی یہی عید تھی۔ میں نہیں آ رہی نیچے۔ اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ نہ پتر نہ 10سال تو میں نے اس عید کا انتظار کیا کہ وہ خود ملنے آئیں، عذرہ بیگم نے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔
اس کے خاموشی پر اکتفا کرنے پر عذرا بیگم پھر سے گویا ہوئیں۔ پتر وہ دن بھولتا نہیں ہے۔ یہاں سینے پر نقش ہے۔ پر رشتے توڑنے کے لیے نہیں ہوتے۔ عذرا بیگم نے بدگمانی سے روکا اور اس کو اپنی ان پڑھ ماں ہمیشہ پڑھی لکھی لگتی تھی۔ اماں شیر جہاں سے رابطہ ہوا؟ ہاں! بس پہنچنے والا ہوگا، میرا ڈاکٹر پتر۔ فخریہ انداز میں اسے آنے کی تائید کرتے ہوئے کہہ کر چلی گئیں۔وہ جیسے ہی نیچے آئی۔ چاچی اور پھپھو گل کے صدقے واری ہو رہی تھیں۔ سب کچھ اس کے ذہن میں گھوم گیا۔ وہ سب کچھ بھولتے ہوئے ان کے پاس آئی کیونکہ اس کی اماں یہ چاہتی تھیں۔
آج ان کے گھر میں دعوت سجی تھی۔ نور جبین سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد اماں کے پاس رہنے کی خاطر پروفیسر بن گئی تھی۔ شیر جہاں اب ڈاکٹر شیر جہاں بن چکا تھا۔ گل جبین نے بھی ایک سال میں ڈاکٹر بن جانا تھا۔ عذرا بیگم پھولے نہیں سمارہی تھیں۔ عید کا دن تھا ہر طرف خوشیاں تھیں۔ برسوں پہلے کی طرح بابا آپ کے بہن بھائی بھی آئے ہیں۔ بابا لوٹ آئیں نا۔ وہ ایک کونے میں کھڑی اپنے بابا کے سنگ گزری عیدیں یاد کر رہی تھی۔ آنکھیں اشکوں سے بھر گئی تھیں۔ آپا آپ رو رہیں ہیں۔؟ گل جبین نے پیچھے سے آکر باہیں ڈالتے ہوئے کہا، نہیں میری جان۔۔۔ نور جبین نے پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔ عید تو بہت اچھی ہوتی ہے۔ گل نے بچوں کی طرح لاڈ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ہاں پر کوئی عید بابل کے بنا نہ ہو۔ اس نے گل کی باہیں کھول کر اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔

حصہ