۔’’ہارجاتے مگر مقابلہ تو کرتے‘‘۔

224

راشد عزیز
انگلستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز ڈرا کرنا اگرچہ بری کارکردگی نہیں لیکن بے چارے وہ شائقین جو ذرا سی کامیابی پر اپنی ٹیم سے بہت ساری توقعات کر لیتے ہیں‘ یقینا مایوس ہوئے اور چیف کوچ مکی آرتھر کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے کہ ’’ہار جاتے مگر مقابلہ تو کرتے‘‘ اس شکست نے یہ بات بھی صحیح ثابت کردی کہ کرکٹ چاہے کتنی ہی ’’بائی چانس‘‘ ہو تجربے کی اہمیت مقدم ہے۔ انگلستان کی ٹیم یہ ٹیسٹ اپنے تجربے سے جیتی جب کہ ناتجربہ کاری پاکستانی ٹیم کی ہار کی اصل وجہ ثابت ہوئی۔
لارڈز ٹیسٹ میں حوصلہ افزا جیت کے بعد زیادہ دبائو انگلستان کے کھلاڑیوں پر تھا‘ اگر یہ ٹیسٹ ڈرا بھی ہو جاتا تو وہ سیریز ہار جاتے اس کے برخلاف پاکستانی ٹیم اگر کسی طرح سے یہ میچ ڈرا کرانے میں کامیاب ہو جاتی تب بھی وہ سیریز جیت جاتی۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے یہ ٹیسٹ ہار کر سیریز گنوا دی۔ مکی آرتھر کا یہ کہنا بھی جائز ہے کہ اس طرح ہتھیار ڈالنا باعث تشویش ہے۔ کلین سوئپ ٹیم کو بلندی پر لے جاتا مگر پاکستانی کھلاڑی لیڈز میں دبائو میں رہے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دبائو میں کیوں رہے؟ مکی آرتھر اور کپتان سرفراز تو ہمہ وقت ٹیم کے ساتھ ہی تھے۔ نئے لڑکوں کی حوصلہ افزائی کی ذمے داری اصلاً انہی کی تھی۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی وضع کریں اور اگر فتح پر داد وصول کرتے ہیں تو شکست پرنادم بھی ہوں۔
آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ جیتنے کے بعد پاکستانی ٹیم انگلستان کے خلاف لارڈز کے میدان میں اتری تو عمومی خیال یہ تھا کہ انگلستان کی ٹیم کو ہر لحاظ سے اس ناتجربہ کار ٹیم پر برتری حاصل ہے۔ کسی بھی ٹیم کے یے اپنے ملک سے باہر کھیلنا مشکل ہوتا ہے اور خصوصاً پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے انگلستان میں کھیلنا جہاں موسم بہت مختلف ہوتا ہے اور ان وکٹوں پر گیند بھی بہت سوئنگ کرتی ہے‘ خاصا دشوار کام ہوتا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر نتیجہ الٹ نکلا اور انگلش کھلاڑی پاکستان کے فاسٹ بولرز کے سامنے بے بس نظر آئے اور صرف یہی نہیں ان کے فاسٹ بولرز‘ جو پاکستانی بولرز کے مقابلے میں کہیں زیادہ تجربہ کار تھے‘ پاکستان کے نئے اور نوجوان بیٹسمینوں کو پریشر میں نہ لاسکے۔
اس شاندار کامیابی کے بعد لیڈز ٹیسٹ شروع ہوا تو انگلش کھلاڑیوں پر بہت زیادہ پریشر تھا۔ خیال تھا ک لیڈز کی وکٹ جو تاریخی طور پر لارڈز کے مقابلے میں فاسٹ بولرز کی زیادہ مددگار ہوتی ہے اور چونکہ پاکستانی فاسٹ بولرز خصوصاً محمد عباس نے آئرلینڈ اور لارڈز میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی لیڈز میںگوروں کے لیے خوف کی علامت تھا‘ مگر خلافِ توقع یہاں بازی بالکل الٹ گئی اور جو کچھ انگلستان کے ساتھ لارڈز میں ہوا ویسا ہی بلکہ اس سے زیادہ پاکستان کے ساتھ ہوا اور پوری ٹیم محض 174 رنز کے اسکور پر آئوٹ ہوگئی۔ مکی آرتھر نے اگرچہ سرفراز احمد کے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے کیونکہ اس فیصلے میں ان کی رضا بھی شامل ہوگی لیکن ایک تو عملی طور پر یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا اور اکثر ماہرین اور مبصرین نے بھی اسے درست فیصلہ قرار نہیں دیا۔ اس فیصے کو غلط قرار دینے کے لیے کئی دلیلیں دی جاسکتی ہیں۔ ایک دلیل تو یہ ہے کہ لیڈز کی وکٹ راویتی طور پر فاسٹ بولر کو مدد دیتی ہے لہٰذا پہلے بولنگ کرنے والے اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور انگلش بولرز نے پورے طور پر وہ فائدہ اٹھایا۔ اگر پاکستانی بولرز پہلے بولنگ کرتے تو یہ فائدہ وہ حاصل کرتے اور وہ شاید 363 رنز نہ بنا پاتے جو انہوں نے بعد میں کھیل کر بنائے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لارڈز ٹیسٹ کے بعد میزبان کھلاڑیوں پر پاکستانی فاسٹ بولرز نے جو نفسیاتی دبائو ڈالا تھا وہ انگلستان کو پہلے بیٹنگ کرا کے کارگر ثابت ہو سکتا تھا۔
پہلی اننگز میں محض 174 رنز پر ڈھیر ہونے کے بعد پاکستان نے حریف ٹیم کی فتح کا راستہ خود ہموار کیا۔ پاکستانی بیٹنگ کی اس تباہی میں انگلش بولرز کی خوبی سے زیادہ ہمارے کھلاڑیوں کی غیر ذمے دارانہ کھیل کا دخل تھا۔ اوپنر اور مڈل آرڈر بیٹسمینوں نے بلاوجہ حریف بولرز کو اپنے اوپر حاوی کرلیا اور ان میں اکثر اپنی غلطی سے اور غیر ذمے دارانہ شاٹس کھیلتے ہوئے آئوٹ ہوئے۔ شاداب خان اور فاسٹ بولر حسن علی نے 43 رنز کی پارٹنر شپ کرکے اپنی ٹیم کو ذلت سے بچایا ورنہ محض 79 رنز کے اسکور پر 7 وکٹیں گرنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ شاید پاکستانی ٹیم 100 رنز بھی نہ بنا سکے۔ پاکستانی بیٹسمین ابتدا ہی سے اس قدر خوفزدہ تھے اوپنر امام الحق کوئی رن بنائے آئوٹ ہوا اور اظہر علی نے پہلا رنز 27 گیندیں کھیلنے کے بعد بنایا۔ خوف کے اس عالم میں شاداب خان واحد کھلاڑی تھا جو نصف سینچری بنا سکا۔
وہ وکٹ جس پر پاکستانی بیٹسمین صرف 174 رنز بنا سکے تھے‘ میزبان ٹیم کے لیے فرینڈلی ثابت ہوئی اور پاکستانی فاسٹ بورلز کا جو ہواّ قائم وہ ہوا میں تحلیل ہو گیا اور انگلستان نے 363 رنز بنا مہمان ٹیم کو بالکل بے بس کردیا۔ پاکستانی فاسٹ بولرز جن سے لیڈز میں بڑی کامیابیوں کی توقع مکمل طور پر ناکام رہے اور رہی سہی کسر ناقص فیلڈنگ نے پوری کردی۔ فہیم اشرف تین اور عباس اور عامر دو‘ دو وکٹیں لے سکے۔ پہلی اننگز میں 189 رنز کے خسارے کے بعد پاکستانی ٹیم نے دوسری اننگ میں پہلے سے بھی بد تر کھیل کا مظاہرہ کیا اور پہلی اننگ کا خسارہ بھی پورا نہ کرسکے اور ایک اننگ اور 55 رنز کی بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والا عثمان صلاح الدین باہمت ثابت ہوا اس نے 33 اور امام الحق نے 34 رنز بنائے اور یوں سیریز جیتنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
مکی آرتھر کی یہ بات درست ہے کہ ٹیم ابھی سیکھنے کے مرحلے میں اور کھلاڑیوں کو سپورٹ کرنا ہوگا لیکن کھلاڑیوں کو یہ سکھانا کہ ‘‘ہارو مگر مقابلہ کرکے ‘‘ سکھانے کی اوّلین ذمے داری انہی کی ہے۔

 

حصہ