لالچی کب آئے گا

510

مرزا ظفر بیگ
کسی گاؤں میں چار دوست انور، جمال، فرید اور کامران رہتے تھے۔ جو بہت غریب تھے۔ دن رات محنت کرتے ، مگر پھر بھی ان کی غربت دور نہ ہوتی تھی۔
ایک روز ان کے گاؤں میں ایک بزرگ آئے۔
انہوں نے چاروں دوستوں کی حالت دیکھی توا نھیں ترقی کی دعا دی اور ان سے کہا: اپنی قسمت آزمانے ’’ گل پور‘‘ نامی قصبے جاؤ، وہاں سے تمھیں اتنا کچھ ل جائے گا کہ تمھارے حالابدل جائیں گے، مگر خبردار زیادہ لالچ نہ کرنا، بلکہ جو کچھ ملے، اس پر صبر وشکر کرکے گھر واپس آجانا، کیوں کہ لالچ بری بلا ہے۔
چاروں دوستوں نے بزرگ کی بات سنی اور سفر پر روانہ وگئے۔ سفر خاصالمبا تھا۔ وہ آپ میں باتیں کرتے اور ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سناتے چلتے رہے اور ایک ماہ میں گل پور پہنچ گئے، جہاں تانبے کی کان تھی۔
وہاں ایک جگہ لکھاتھا: تانبے کے جتنے سکوں کی تمھیں ضرورت ہے، لے لو اور چلے جاؤ۔
انورنے اپنے دوستوں جمال ، فرید اور کامران سے کہا: میں تو یہاں سے تانبے کے سکے لے کر واپس جا رہا ہوں۔
جمال، فرید اور کامران نے ہنستے ہوئے کہا: یہ تانبے کی کان والی جگہ ہے، آگے یقینا چاندی کی کان آئے گی۔ تم صبرتوکرو۔
مگرانورنے کہا: میرے لیے یہی کافی ہے۔ یہ کہہ کر وہ تانبے کے ڈھیروں سکے لے کروپاس چلاگیا اور باقی تینوں دوست آگے بڑھ گئے۔
انھیں چاندی کی کان کی تلاش تھی۔ اب سفر مشکل ہوگیا تھا۔ کھانا بھی ختم ہورہاتھا۔ ان کی ٹانگیں دکھنے لگیں تھی۔
آخر کئی دنوں کے سفر کے بعد وہ چاندی کی کان ولے علاقے میں پہنچ گئے۔
وہاں بھی ایک بورڈ پروہی عبارتے لکھی تھی: چاندی کے جتنے سکوں کی تمھیں ضرورت ہے، لے لو اور چلے جاؤ۔
اب جمال نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا: میں تھک چکاہوں، یہا ں سے چاندی کے سکے لے کر واپس جارہاہوں۔
یہ سن کر فرید اور کامران نے کہا: تھوڑا صبرکرلو۔ ہوسکتا ہے آگے سونے کی کان ہماری منتظر ہو۔
اْدھر فرید اور کامران سونے کی کان کی تلاش میں آگے سفر کرتے رہے۔ وہ دونوں راستے میں خیالی پلاؤ بھی پکارہے تھے کہ جب سونے کی کان پر پہنچیں گے تو وہاں سے کتنی دولت حاصل کریں گے اور کس طرح پورے علاقے کے بادشاہ بن جائیں گے، مگر سفر بہت لمبا اور کٹھن تھا۔
جلد ہی وہ ہمت ہارنے لگے۔ کھانا پہلے ہی ختم ہوچکا تھا، مگر کسی نہ کسی طرح وہ چلتے رہے اور آخر سونے کی کان پر پہنچ گئے، جہاں فرید نے کامران کو اپنا فیصلہ سنادیا: میں اپنی ضرور کاسونا لے کرواپس جارہاہوں۔
کامران نے کہا: میں توہیروں کی تلاش میں آگے جاؤں گا، میرے لیے یہ سوناکافی نہیں ہوگا۔
یہ سن کر فرید نے کامران سے کہا: بے وقوفی مت کرو، یہاں سے یاآگے کے قصبے سے چاہے جتنی دولت لے لو، مگر گھر پہنچتے پہنچتے وہ بہت کم رہ جائے گی، راستے میں بھی توخرچ کرنی پڑے گی۔
مگرکامران نہ رکا، وہ آگے چلا گیا اور فرید اپنی ضرورت کاسونا لے کر واپس لوٹ گیا۔
کافی طویل سفر کے بعد کامران ہیروں کی کان پرپہنچا، جہاں اس نے ایک ایسا آدمی دیکھا، جس کے گلے میں لوہے کی زنجیر پڑی ہوئی تھی اور وہ بری طرح چیخ رہاتھا۔
کامران کودیکھ کر اس نے ہنستے ہوئے کہا: آگیا، آگیا ، ایک بے وقوف اور آگیا۔
اب یہ زنجیر اس لالچی کے گلے میں پڑے گی۔
ابھی اس نے اتنا ہی کہاتھا کہ اس کے گلے میں سے زنجیر نکل کر کامران کے گلے میں پڑگئی۔ کامران نے ہڑبڑاکراس کی طرف دیکھا تو وہ آدمی بولا: میں بھی تمھاری طرح ہیروں کے لالچ میں یہاں آیاتھا۔
میرے پاس بہت کچھ تھا، مگر مجھے زیادہ کی ہوس تھی، اسی لیے میں یہاں آگیا اور پھنس گیا، اب میں آزاد ہوں اورتم قیدی، ہیرں کا کوئی اور لالچی یہاں آئے گا تو تمھیں نجات ملے گی۔
یہ کہہ کروہ آدمی وہاں سے چلاگیا تو کامران نے زنجیر سمیت وہاں سے دوڑ لگادی۔ وہ پاگلوں کی طرح چلتا رہا، لیکن راستہ بھٹک گیا۔ اس کے کپڑے پھٹ گئے، پوراجسم زخموں سے بھر گیا۔ برسوں سے وہ کسی لالچی کاانتظار کررہاہے۔ جب کوئی لالچی آئے گا تب ہی اسے اس عذاب سے نجات ملے گی۔

حصہ