دیکھو بچو! رمضان آیا

402

طلعت نسرین (بھارت)
امی جان!امی جان!میراکرتہ پائجامہ اورٹوپی تودیدیجئے مسجد میں رمضان کا چاند دیکھنے جاؤنگا۔جلدی کیجئے امی پلیز۔مغرب کی اذان ہونے والی ہے۔ محتشم عبدالرحمن غازی نے ضد کرتے ہوئے کہاتو اس کی پھوپھی زاد بہن مدیحہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی ممانی جان مجھے بھی سوٹ شلواراور دوپٹہ پہنا دیجے میں بھی مسجد میں رمضان کا چاند دیکھنے جاؤں گی۔ غازی نے ڈانٹتے ہوئے کہا نہیں مدیحہ لڑکیاںمسجد میں نہیں جاتیں تم گھرپرہی رہو۔ کیوں؟کیوں نہیں؟میں توضرور جاؤں گی۔ سکینہ مریم نے مدیحہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہاں چلومدیحہ ہم بھی چلیں گے۔ غازی ہم کونہیں روک سکتا۔ چلو چلو۔شمیسہ ،عباس، صائم، باسق، عائشہ ، اورعارض خسروکو بھی بلالیتے ہیں ۔ہم سب خلیل اللہ مسجد میں چانددیکھنے چلتے ہیں مریم آپا رک جائیے ذرا میں اپنی سہیلی رادھا اور سادھنا سنگھ کوبھی بلا لوں۔ شمیسہ نے اپنی بڑی بہن سے گزارش کی تو غازی بھی درمیا ن میں بول پڑا۔میں بھی اپنے دوست روبرٹ کوبلا لیتاہوں۔ پانچ برس سے دس برس کی عمر پرمشتمل بچوں کا یہ قافلہ جب گلی سے روانہ ہونے لگا توغازی کی والدہ نورفاطمہ نے بچوں کو قدرپیار سے نصیحت آمیز لہجے میں کہا دیکھو بچو مسجد اللہ کا گھرہے۔ وہاں جاکر شوروغل مت کرنا نہایت احترام وخاموشی سے چاند دیکھ کر سیدھے گھرآنا۔ نمازیوں کو پریشان مت کرنا۔ ٹھیک ہے امی جان وعدہ رہا۔ہم بھی بالکل بھی شورنہیں مچائیں گے۔ سبھی بچے پلک جھپکتے ہی دبے پاؤں مسجد کی چھت پر چلے گئے۔ ذرا دیرمیں امام صاحب نے اور دوسرے نمازی لوگ بھی چھت پرجاکر چاند دیکھنے کی بھرپورکوشش کرنے لگے۔ پل بھرمیں امام صاحب نے بآوازبلند اعلان کردیاکہ رمضان کا چاندنظرآگیاکل پہلا روزہ ہوگا۔ بچے امام صاحب کے اردگرد جمع ہوکرچلانے لگے امام صاحب چاند کہاں ہے ؟ہم کوچاندنظرنہیں آیا۔ امام صاحب نے غازی کو اپنے کندھے پر بٹھاتے ہوئے کہا وہ دیکھو رمضان کا چاند ہے۔ غازی نے قدرچلاتے ہوئے کہا ہاں مجھے نظرآگیاچاند۔باقی بچے تپائی پر چڑھتے ہوئے بولے ہم نے بھی دیکھ لیاچاند۔ کل سے روزہ شروع!غازی کا مدیحہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا چلو گھرچلتے ہیں گھرواپس آکر بچے خوشی سے جھومنے لگے۔

آہا!آہا!ماہ رمضان آگیا
آہا!آہا!ڈھیرخوشیاں لایا
سحری افطار، جلیبی، پھینی کھجلہ
بچوں کوخوب ہے بھایا
خیرات زکوۃنماز تلاوت
نیکی کا خزانہ ہے لایا
آہا!آہا!ماہ رمضان آگیا

غازی نے رعب دارآواز میں کہا اچھا تم خاموش ہوجاؤ۔ہماری امی جان تم سب کو رمضا ن المبارک کے بارے میں کچھ بتانے جارہی ہیں۔ رادھا ،سادھنا سنگھ اور روبرٹ ہمارے خاص مہمان ہیں۔ سب چپ چاپ بیٹھ جاؤ۔ اورجوسوال چاہو امی سے پوچھ لو۔غازی کی ایک آوازمیں تمام بچے خاموشی سے بیٹھ گئے۔ مدیحہ نے مچلتے ہوئے کہا سب سے پہلا سوال میراہے۔ ممانی جان ماہ رمضان کامطلب کیاہے۔؟دیکھو بیٹھی مدیحہ انگریزی کلنڈرکی طرح اسلامی کلینڈربھی ہوتاہے۔ جس طرح تم انگریزی میں جنوری سے دسمبر تک 12مہینوں کے نام یادکرتی ہواسی طرح اسلامی کیلنڈرمیں بھی پورے 12ماہ ہوتے ہیں۔ اسلامی مہینے کا ایک نام رمضان بھی ہے جوشعبان کے بعد آتاہے۔ عائشہ درمیان میں بول پڑی پچھلے مہینے جوہم نے شب برات منائی تھی کیا وہ شعبان تھا۔ ہاں !ہاں!عائشہ تم تو بڑی سمجھ داری سے ہماری باتیں سن رہی ہو۔ اس دن میری امی نے روزہ رکھا تھا۔ توکیا وہ بھی رمضان کا روزہ ماناجائے گا۔ عائشہ نے معصومیت سے پوچھا تو نورفاطمہ نے اسے گود میں بٹھاتے ہوئے کہا نہیں!بیٹی عائشہ وہ رمضان کا روزہ نہیں!بس سمجھ لو شعبان ماہ میں مسلمان رمضان کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ یہ مہینہ رمضان کا پیغام لے کرآتاہے۔ رمضان ماہ مقدس اس لئے ہے کہ اس ماہ میں قرآن شریف نازل ہواتھا۔ اس پاک ماہ میں سبھی باغ مروعورت پورے مہینے روزہ رکھتے ہیں اوراللہ کی عبادت کرتے ہیں بیماری کی حالت میں روزہ رکھنا منع ہے۔ اس کے لئے روزہ کفارہ اداکرناہوتاہے۔ بچو یوںسمجھو!بیمارآدمی کوروزہ نہ رکھ کر ایک غریب کوکھانا کھلانا ہوتاہے۔ آنٹی مسلمان روزہ کیوں رکھتے ہیں؟رادھا نے پوچھاتوغازی کی والدہ نے اس کا بوسہ لیتے ہوئے کہا ارے واہ۔رادھا بیٹی تم نے بہت اچھا سوال کیاہے۔ مسلمانوں کے لئے روزہ کی خاص اہمیت ہے یہ وقت کی پابندی سکھا تاہے۔ برے کاموں سے بچاتاہے۔چوری، جھوٹ، نشہ،چغلی،غیبت، ہربرائی سے انسان کو پاک رکھتا۔ بس سمجھ لو یہ نیکی کمانے کا مہینہ ہے۔ آنٹی!آنٹی!روزہ کیسے رکھتے ہیں۔روبرٹ نے چہکتے ہوئے پوچھا ۔دیکھوبیٹا روزہ رکھنے کے لئے ہمارا پاک صاف ہونا ضروری ہے۔ پاکیزہ لباس کے ساتھ پاک بدن رہ کرہی ہم روزہ رکھ سکتے ہیں۔سمجھو ہمارے کپڑوںاوربدن پرکسی بھی قسم کی گندگی نہیں ہونی چاہئے اس کے علاوہ آدھی رات میں جاگ کر سحری بھی کھانا ضروری ہے۔سحری کھائے بغیر ہم روزہ نہیں رکھ سکتے۔سحری میں جوچاہوکھاؤروٹی،سبزی،مرغا،جلیبی دودھ،کھجلہ، پھینی،دودھ دلیا سب کچھ بھی کھاؤ۔لیکن ایک مقررہ وقت پر ختم سحری کا اعلان ہوتے ہی کھانا پینا سب چھوڑ دیتے ہیں یعنی سورج نکلنے سے پہلے اورسورج ڈھلنے کے بعد ہی کھاتے پیتے ہیں اس دوران پانی کی ایک بوند بھی حلق میں نہیں ڈال سکتے ہیں یہاں تک کہ منہ میں تھوک آجائے تو اسے بھی نگلنے کے بجائے باہرتھوک دیتے ہیں۔ پھرشام کو مسجد میں سائرن بجاکر روزہ کھولنے کا اعلان ہوتاہے۔ کھجوریاپانی سے افطارکھاتے ہیںممانی جان افطارکیاہوتاہے۔ عارض خسرونے توتلی زبان میں پوچھا۔افطاری مطلب ذائقے دارکھانوں سے سجا ہوا دسترخوان۔ یعنی کھجور، شربت، آلو کی چاٹ، دہی بڑے، کچالو، پکوڑے اورچھولے وغیرہ۔ اچھا یہ توبتائیے آنٹی جی سحری ، افطار اور بھوکا پیاسا رہنے کے ساتھ رمضان میں اورکیا کیا ہوتاہے۔سادھناسنگھ کے سوال پر نورفاطمہ چونک گئی۔ ارے واہ سادھنا بیٹی تمہارے معقول سوال نے مجھے حیران کردیا۔ہاں تو سنوروزہ صرف بھو ک پیاس پرقابو رکھنے کانام نہیں ہے۔ بلکہ اس پورے ماہ ہم اپنی تمام بری عادتوں کو چھوڑدیتے ہیں۔وقت کی پابندی کرتے ہوئے پانچ وقت کی نماز اداکرتے ہیں۔ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں۔آنٹی مجھے قرآن شریف دیکھناہے رادھنا جستجوآمیزلہجے میں کہا۔ عباس بیٹا وہ سامنے سے قرآ ن شریف لے کرآؤ۔دیکھوبچو جس طرح روبرٹ کی مذہبی کتاب بائبل، رادھا کی رامائن اورسادھنا سنگھ کی گروگرنتھ صاحب مذہبی کتابیں ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کی مذہبی کتاب کا نام قرآن ہے۔ رمضان کے مہینے میں مسلمان قرآن شریف کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرتے ہیں۔ غریبوں میں زکوۃ بانٹتے ہیں۔امی جان زکوۃ کیا ہوتی ہے۔ صائم نے معصومیت سے پوچھا زکوۃ سمجھو ہمارے سونے چاندی کے قیمتی زیورات اوربینک میں جمع فالتو رقم ہے جوہم خرچ نہیں کرتے ہیں۔ اگرکسی کے پاس پچھترگرام سوناہے تواس کی کل قیمت میں سے ڈھائی فیصد غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔ یا اس طرح سمجھو اگرکسی کے پاس ہے بینک میں ایک لاکھ روپیہ ہے اوروہ خرچ نہیں کرتاہے توہ اس میں سے ڈھائی ہزارروپیہ نکال کرغریبوں کودے دیاجاتاہے تاکہ رمضان وعید کی خوشی میں وہ بھی شامل ہوسکیں۔ سکینہ مریم نے ماں کی گود میں سررکھتے ہوئے کہایہ تو بتائیے ہم بچوں کو رمضان میں کیا کیا کرناچاہئے۔دیکھو تم سب ابھی چھوٹے بچے ہو۔تم پرروزہ فرض نہیں ہے۔ تمہیں چاہئے کہ میوزک، ٹی وی، کمپیوٹرگیم،موبائل، ناچ گانے اورانٹرنیٹ سے خود کودوررکھو۔میںنے دیکھاہے آج کل ہربچہ موبائل پر کوئی نہ کوئی گیم کھیلتا رہتاہے۔ یا کچھ بچے ٹی وی دیکھنا بندنہیں کرتے۔ کچھ بچے ایسے بھی ہیں جواسکول سے آتے ہی انٹرنیٹ چلانا شروع کردیتے ہیں۔ اتناہی نہیں کچھ بدتمیز بچے تیز آوازمیں گانا سنتے ہیں اورڈانس کرتے ہیں۔پیارے بچوں یہ سب باتیں اسلام مذہب میں سخت منع ہے۔ بہت سے بچے بڑی مسجدوں کے صحن میں کھیلنا کودنا شروع کردیتے ہیں۔ شرارتی بچوں کے شوروغل کرنے سے نمازیوں کی عباد ت میں خلل پڑتاہے۔ یہ سب باتیں بہت بری ہیں۔
ماہ رمضان میں بچوں کافرض ہے کہ ادب واحترام کے ساتھ بڑوں کا کہنا مانیں۔ آٹھ۔دس برس کے بچے افطاری کا دسترخوان لگاکراپنی امی کی مددکرسکتے ہیں۔باورچی خانے سے سامان اٹھاکردسترخوان پررکھ سکتے ہیں۔ افطارکے بعد جھوٹے برتن باورچی خانے میں رکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ تم سب کو عام دنوں کی طرح برگر، پیزہ،کولڈڈرنک،مموز،چاؤمین، آئس کریم جیسے فاسٹ فوڈ کی فرمائش بھی نہیں کرنی چاہئے۔ یہ سب چیزیں صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔آخری بات جوسب سے اہم ہے جب تم لوگ دسترخوان پربیٹھو تو پلیٹ میں تھوڑی تھوڑی کھانے کی چیزیں لو۔یہ نہیں کہ ڈش میں سے تمام کھانا اپنے پلیٹ میں بھرلواوردوسرے لوگوں کو کھانے کا موقع ہی نہ ملے پہلے روزہ داروں کوکھانے دو۔یہ بات اچھی طرح سمجھ لوکہ کھانے پینے کی چیزیں بربادنہ ہوں۔ کھانا پلیٹ سے باہرنہ گرے۔ چھوٹے چھوٹے نوالے بناکرخوب چباچباکر بغیرآواز کئے بند منہ سے کھانا کھاؤ۔ چلو بس اب بہت ہوگیا تمہارے چھوٹے ذہن کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے بڑے ہونے پربڑی معلومات حاصل کرو گے۔ ابھی مجھے بہت سے کام کرنے ہیں ۔سحری کے لئے نرگسی کوفتے، شامی کباب، دال اور چکن قورمہ پکاناہے،کھجلہ ،جلیبی دودھ میں بھگوناہے۔ صبح ناشتے میں جلیبی دودھ کھاکر اسکول جاؤں گی ۔مدیحہ نے ممانی جان کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا تو غازی نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا امی جان میں کھجلہ پھینی کھاؤں گا ۔عباس ،صائم ،عارض نے بلندآواز میں پوچھا عیدکب آئے گی؟بچوں عید میں ابھی چند روز باقی ہیں ۔اب سوالات کرنا بند کرو۔چلو تم سب کو آم کی لسی پلاتی ہوں۔ رادھا،سادھنا،اور روبرٹ نے ہنستے ہوئے کہا شکریہ آنٹی۔ آپ نے ہم کوبہت اچھی جانکاری دی ہم ایک دن غازی اورشمیسہ کے ساتھ افطارکھانے آئیں گے ٭

حصہ