ممنوع موسموں کی کتاب، سید کاشف رضا

712

خالد معین
’’ محبت کا محل ِ وقوع ‘‘سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کرنے سید کاشف رضا اپنے تازہ مجموعے ’’ممنوع موسموں کی کتاب ‘‘تک آتے آتے ذات و کائنات کے بے شمار عذابوں و ثوابوں سے گزرے ہیں ۔پہلے مجموعے میں انہوں نے اپنے تخلیقی ہنر کے کئی رنگ دکھائے تھے ،جن میں غزل کی چھب بھی شامل تھی ،لیکن نثری نظم لکھنے والے بعض کٹر نقادوں کے نزدیک غزل بالکل اسی طرح ایک شجر ِ ممنوع ہے ،جیسے روایتی غزل لکھنے والوں کی نگاہ میں نثری نظم ۔تاہم مجھے معلوم نہیں کہ سید کاشف رضا جیسے معتدل مزاج قلم کار نے اپنے تازہ مجموعے میں غزل شامل نہ کرنے کا فیصلہ کسی بیرونی دبائو کے تحت کیا ،یا یہ ان کے اندر کی آواز تھی ۔سید کاشف رضا نئی نسل کے اہم شعرا میں شامل ہیں ۔ایک بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں ۔شاعری کے علاوہ ترجمے میں بھی اس کی دل چسپی پرانی ہے وہ امریکی مفکر نوم چونسکی کی دو کتابیں ترجمہ کر چکے ہیں اور اب میلان کنڈیرا اور لوئیس بورخیںپرا ٹو مینگوئل کی کتابوں کے ترجمے کر رہے ہیں۔سید کاشف رضا کے نئے مجموعے میں شامل ان کی کم و بیش 56 نثری نظمیں جو ایک ایسے شہر میں بیٹھ کر لکھی گئیں ہیں ،جہاں چاروں طرف سفاک موت کا رقص جاری ہے اور زندگی سسک سسک کے گزرہی ہے ،محبت اس شہر میں ایک متروک رسم بن چکی ہے لیکن شاعر عورت اور محبت کو زندگی کی اساس تصور کرتے ہوئے بار بار اس اس دہشت زدہ شہر میں اپنے جینے کی تدبیر کی کاوش کرتا ہے لیکن موت کا خوف چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے اندر باہر زندہ پرچھائیوں کی صورت وحشیانہ ررقص کر رہا ہے۔تاہم یہ نظمیں روایتی موت کا مرثیہ پیش نہیں کرتی بلکہ تخلیقی طور پر درپیش صورت ِ حال کا منظرنامہ مختلف زاویوں سے دکھاتی ہیں اور یہ معاملہ ’’لوگ مرتے جارہے ہیں اور میں حیران ہوں ‘‘یا ’’موت ہمارے دروازوں تک آپہنچی ہے ‘‘سے زیادہ ملتا جلتا ،جسے سید کاشف رضا نے بہت شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے اور اس کیفیت کو اپنے مخصوص اسلوب میں رجائیت اور آرزو مندی کے ساتھ زندگی کے گہرے اثبات کی ہم سفری میں بیان کیا ہے ،لیکن یہ خالص شاعری ہے اور تمام حال احوال نثری نظم کے مخصوص اختصار ، منفرد امیجز اور لفظیات کی تازہ کاری کے ساتھ جذبوں کے

نت نئے شیڈز سے آراستہ کیا گیا ہے
مارے جانے والے والوں کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سال
اُن مارے جانے والوں کے لیے
دعائوں کے سال کے طور پر منایا جا رہا ہے
جو پچھلے برس مارے گئے
اگلے سال
یہ تمام دن منانے کے لیے
نئے لوگ اور نئے سانچے تلاش کیے جائیں گے
تم موت اور محبت کی خوش بُو سے بنی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تمھیں ایک
سیاہ لباس میں دیکھنا چاہتا ہوں
جس میں سے تم
فجر کی طرض طلوع ہوسکو
میںتمھیں ایک
سفید لباس میں دیکھنا چاہتا ہوں
جس میں،مَیں
موت کی طرح غروب ہوسکوں
دکھ بکھرا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ بکھرا ہوا ہے
سڑکوں پر سر جھکائے
آہستگی سے چلنے
خاموشیاں سننے میں
جب ہر طرف شور بکھرا ہوا ہوتا ہے
بس کی کھڑکیوںسے باہر دیکھتے ہوئے
کچھ نہ سوچنے میں
اَن جانی جگہوں پر کسی کا پتا ڈھونڈنے میں
کسی کو اداس نہ ہونے میں۔۔۔۔۔دکھ بکھرا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دکھ ،اداسی ،بے کیفی ،ملال انگیزی ،وحشت اور اسی طرح کی مذید ملتی جلتی کیفیات کے ساتھ ساتھ جو اس مجموعے پر بہت حاوی ہیں ،نظموں کی کئی اور پر تیں بھی موجود ہیں ،جن میں سید کاشف رضا کی تازہ کاریاں ،شعری جمالیات ،رومانس ،تاریخی شعور ،عہد سود وزیاں کے
بیچ خوابوں کی رایگانی ،شہر سے ہجرت کے لیے کشی بنانے کی خواہش ،نظمیں بنانے کے نئے نسخے ،یہ نظمیں نئے عہد نامے سے عشق کی نسلی تاریخ ،ٹروجن ہارس کو شہر میں لانے کی مہم ،لوشیا کی فنی گیزویک سے ہوتی ہوئیں ،آنسوئوں کی گزرگاہوں تک آتی ہیں،پھر تیز بارش میں بھیگتی ہیں ،چڑیا گھر میں ایک دن گزارتی ہیں،عشق کی زبانی تاریخ کو چھوتی ہیں،ایک بندر گاہ تک پہنچتی ہیں جہاں نمک اتارا جا رہا ہے اور بہت سے موڑ لیتی ہوئیںزمین کی تاریخ پر تمام ہوجاتی ہیں۔کیا سید کاشف رضا کی نئی کتاب ایسی ہے ،جسے نئی شاعری پڑھنے والے پسند کریں گے ؟اس سوال کا جواب ہے یقینا اس کتاب میں جدید شاعری پڑھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے اور ان کے لیے بھی جو شاعری کو خانوں میں تقسیم کیے بغیر پڑھنے کے خواہش مند ہیں۔ دوسری جانب یہ’’ممنوع موسموں کی کتاب ‘‘ سید کاشف رضا کی پہلی کتاب سے مجموعی طور پر کئی قدم آگے بھی دکھائی دیتی ہے اور یہ بات ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے بہت خوش آیند ہے ۔

حصہ