اس تاریک جہاں کو پہلی مرتبہ منور کرنے والے قدیم ترین ستارے

506

قاضی مظہر الدین طارق
جب سائنسدان سو ا تیرا ارب نوری سال [وقت نہیں فاصلہ]دُور ایک گیلِکسی [ستاروں کے مجموعے] ’MACS1149-JD1‘ کا مطالعہ کر رہے تھے، تو اس میں ایسے ستارے نظر آئے جو اُس وقت پیدا ہوئے تھے جب کائنات میںاندھیرا ہی اندھرا تھا، ان ہی ستاروں نے اور اِن کے بعد اِن سے تشکیل پانے والے ستاروں کے مجموعے’گیلِکسی‘ نے اس جہاں کو پہلی مرتبہ منوّر کرنا شروع کیا۔
…………
اگر چہ یہ گیلِکسی ،پہلی مرتبہ ۲۰۱۲؁ء میں دریافت ہوئی تھی،مگر اُس وقت سائنسدان یقینی طور پر یہ نہیں بتا سکے تھے کہ یہ گیلِکسی ہم سے کتنی دُور ہے اور یہ کہ اِس کی روشنی کتنے سال پہلے وہاں سے چلی تھی۔
…………
اب یہ دریافت ،ایک’ اَٹاکما۔۔اَکبر۔۔ ملی میٹر۔۔ اَیرے ‘ریڈیو دوربین[ALMA] کے ذریعہ کی گئی ۔جناب ’رِچرڈ ۔اے ۔لوویٹ‘نے اِس کی تازہ ترین خبر دی ہے،جو ایک جرنل Nature میں شائع ہوئی ہے۔
…………
جاپانی سائنسدانوں کی ایک ٹیم’تاکویا۔۔ہاشیموتو‘ کی سربراہی بنی ہوئی ہے[جن کا تعلق جاپان کی ’اوساکاسَنگیو یونیورسٹی‘ سے ہے]،اُنہوںنے[ ’چلی جنوبی امریکہ ‘میں قائم ایک ریڈیو ٹیل اسکوپ جو’ اَٹاکما اَکبرمیلی میٹر اَیرے‘{ALMA}کہلاتی ہے] کے ذریعہ یہ تحقیق کی، اور اِس کے واسطے سے وہاں سے آنے والی ڈبل آیونائیزڈآکسیجن کیspectral line کا تجزیہ کیا[ڈبل آیونائیزڈ کامطلب آکسیجن کے معتدل اَیٹم میںسے دو ’ایلیکٹرونز‘کو دیس بدر کر دینے سے جو’ آئن ‘بنتا ہے!]۔
…………
عام طور پر یہ ’اِسپکٹرل لائین‘،’اِ سپیکٹرم‘ کے سُرخ حصے کی طرف ہوتی ہے،مگر اِس کیس میں جبکہ روشنی بہت ہی دُور سے آرہی ہے ،یہ بہت دُوری کی وجہ سے یہ کھینچ کر ،مائیکرو ویو بن جاتی ہے۔
…………
اس کھینچنے کی بنیاد پرہی خلائی سائنسدان اس قابل ہوئے کہ اس گیلِکسی کے فاصلے کے درست اَعداد و شماردے سکیں۔اب اس کے حساب سے معلوم ہوا کہ یہ ہم سے سوا تین ارب نوری سال دُورہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب اُس کی روشنی وہاں سے چلی تھی تو کائنات کی عمر اُس وقت صرف پچپن ۵۵ کروڑ سال تھی ۔
…………
جب ان ستاروں کی روشنی کے رنگ اور چمک پر تجزیہ کیاگیا،اور ان کے’ اَیسٹرو فیزیکل ماڈلز‘ بنائے گئے، پھرمزید غور و خوص کے بعدمعلوم ہوا کہ ان میں کئی ایسے ستارے موجود ہیں جن کی روشنی اُس وقت وہاں سے چلی تھی جب اِن ستاروںکی عمر محض تیس۳۰ کروڑ سال تھی۔
اِس کا مطب، بگ بینگ کے صرف پچّیس۲۵ کروڑسال بعد یہ ستارے بننا شروع ہو چکے تھے۔
…………
جناب نکولا لا پورط ،جو برطانیہ اور فرانس کے مشترکہ سائنسدان ہیں کہا کہ’’ ہم جانتے ہیں کہ جب پہلا ستارہ روشن ہوا تو کائنات کا اَندھیرا چھٹنا شروع ہو گیا۔‘‘ یہ ایک خوش آئند دریافت ہے کہ جس سے مستند ہوجائے گا کہ اِن ستاروں کی روشنی سے ہی کائنات پہلی مرتبہ منور ہونا شروع ہوئی۔
…………
ایک اورسائنسدان جناب ’رِچرڈ اَیلیکس‘[جو اس ریسرچ ٹیم کا حصہ تھا]مانتے ہیںکہ’’ قریب ہے کہ ہم پہلے ستاروں کی پہلی روشنی اپنے آنکھوں سے دیکھ سکیں گے!‘‘
…………
جناب فیبیئن شنیدر جو اس ٹیم کا حصہ نہیں ہیں،پر جوش ہیں کہ’’ہم کو اس سے اس کائنات کی تاریخ اور اس کی ساخت کے ارتقاء اور پھیلائو کے بارے میں مزید بہتر معلومات ہو سکیں گی۔‘‘
…………
ہالینڈ کے جناب رِچرڈ بائونر کہتے ہیں کہ’’شائد ایسی بہت سی گیلیکسیز اور بھی ہوں گی،مگر چلّی سے اِن کا دیکھنا بہت مشکل ہو گا،کیوںکہ اس کی روشنی بہت ہی دھیمی [ڈِم ]ہوگی،لیکن پھربھی بھرپورکوشش کی جائے گی، اگرچہ یہ بہت محال اور چیلینجینگ ہوگا۔‘‘
…………
کیولی انسٹیٹیوٹ آف کوسمولوجی کی جنابہ رَینسکی اِسمتھ کہتی ہیںکہ’’ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ بِگ بینگ کے فوراً بعد کچھ گیلیکسیز بننا شروع ہو گئی تھیں،اور بہت جَلد اِرتقاء پا گئی تھیں۔‘‘اُنہوں نے مزید کہا’’یہ ناسا کی ’جیمس وَیبب اسپیس ٹیلیسکوپ ‘ کے لئے بڑا دلچسپ حدف ہوگا! ستاروں کے بننے کا انداز کہ وہ کیسے بنے،گیلیکسیز کے ارتقاء کا طریقہ کیا تھا،اوراُس وقت کا معلوم ہونا جب اس کائنات کے اندھیرے ختم ہوئے۔‘‘
…………
اس دریافت کی سندکے لئے صرف چلّی [جنوبی امریکہ] میں قائم جاپان کے ’الما‘کی گواہی کافی نہیں۔ ناسا کی جانب سے قائم کئے جانے والے’جیمس وَیبب اِسپیس ٹیلیسکوپ ‘کاسب سے پہلا شکار انہی قدیم ستاروں کوبننا ہے،یہ وَیب ٹیلسکوپ ۲۰۲۰ ؁ ء میںمکمل کام شروع کر دے گا ۔
…………
کیا!یہ سب علم اُس سوال کے جواب کی طرف جاتا ظاہرنہیں ہورہا ہے،جو اللہ بزرگ و برتر نے قرآن میں پندرہ سو سال پہلے انسان سے پوچھا تھاکہ’’دریافت کرو کہ میں نے اِس کائنات کی تخلیق کی شروعات کیسے کی؟‘‘
٭……٭……٭

حصہ