شریکِ مطالعہ

798

نعیم الرحمٰن
ممتاز احمد شیخ کے ادبی جریدے ’’لوح‘‘ کا تازہ شمارہ شائع ہوگیا ہے۔ یہ ’’لوح‘‘ کا ساتواں اور آٹھواں مشترکہ اور مجموعی طور پر جریدے کا چھٹا شمارہ ہے۔ حسبِ سابق پرچے کا یہ شمارہ بھی بہترین سفید کاغذ پر 672 صفحات پر مشتمل اور مجلّد ہے۔ ’’لوح‘‘ کو بجا طور پر اردو کے مشہور ترین ادبی جریدے ’’نقوش‘‘ کا نقشِ ثانی کہا جا سکتا ہے جس کے بارے میں ابن ِ انشا نے کہا تھا کہ ’’نقوش کے خاص نمبر ہی شائع ہوتے ہیں، عام شمارے خاص مواقع پر شائع کیے جاتے ہیں‘‘۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کو ’’محمد نقوش‘‘ کا نام دیا تھا۔ معیاری ادبی تحریروں پر مشتمل بے مثال ’’لوح‘‘ کی مسلسل اشاعت پر ایسا ہی کوئی نام ممتاز احمد شیخ کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ لوح کا معیار ہرشمارے کے ساتھ خوب سے خوب تر ہوتا جا رہا ہے اور نقوش کی طرح اِس میں شائع ہونا کسی بھی نئے لکھاری کے لیے بڑا اعزاز ہے۔ ’’لوح ‘‘ کا گزشتہ شمارہ ’’افسانہ نمبر‘‘ تھا جس میں اردو افسانے کا 115 سال کا بہترین انتخاب پیش کیا گیا تھا۔ تازہ شمارہ بھی اپنی ضخامت کے اعتبار سے خاص نمبرسے کم نہیں ہے۔
ممتاز احمد شیخ کے ’’حرف ِ لوح‘‘ میں ’’سب رنگ‘‘ کے شکیل عادل زادہ کے ’’ذاتی صفحہ‘‘ کی جھلک نظرآتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’لوح میرا پرتو ہے اور’’لوح‘‘ ہی اب ایسا ادارہ ہے جس سے میرا رشتہ حد ِارادت تک کی محبت اور چاہت تک جا پہنچا ہے، اگر ’’لوح‘‘ سے میری دلبری اور دل داری اتنی شدید نہ ہوتی تو شاید کچھ بھی ایسا ظہور پذیر نہ ہوتا جو تاریخ کا حصہ بن سکتا۔ ’’لوح‘‘کا کسی ادبی رسالے یا ادارے سے موازنہ یا مقابلہ کبھی حاشیۂ خیال تک میں نہیں آیا کہ ’’لوح‘‘ کم تر و برترکی دوڑ میں نہیں، یہ تو اپنے حصے کی شمع جلانے کا تردد ہے۔ یہ تو سراسر طرز و وضع کا معاملہ ہے جس کے ڈانڈے میرے دل سے جڑے ہوئے ہیں۔ ادبی رسالہ تو ایک آئینے کی مانند ہے جس کی ہر اشاعت کے بعد اس میں سے مدیر کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے اور کوئی بھی مدیر یا مرتب اپنی دھندلائی ہوئی شکل دیکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ’’لوح‘‘ کے لیے اتنے بہت سے اچھے اور عالمی شہرت کے حامل ادبا نے اپنی چھتر چھایا مہیا کردی ہے تو میری ذمے داریاں بھی سہ چند اورکٹھن ہوگئی ہیں۔ رسالے کے صفحات اگر اپنے ہونے کی خود گواہی دے رہے ہوں تو یہ بجائے خود اعتبارکی ایک صورت ہے۔‘‘
بلاشبہ ’’لوح‘‘ نے اپنا اعتبار قائم کردیا ہے۔ ’’افسانہ نمبر‘‘ نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے تین ایڈیشن شائع کرنے پڑے اور مانگ بدستور قائم ہے۔ تازہ مشترکہ شمارے کے ذریعے پرچے کی اشاعت میں باقاعدگی بھی آگئی۔
لوح کے سرورق پر ’’اولڈ راوینز کی جانب سے اسیران ِ علم و ادب کے لیے توشۂ خاص‘‘ بالکل درست ہے، کیونکہ لوح کا ہر شمارہ ادب کے شیدائیوں کے لیے تحفۂ خاص ہی ہوتا ہے۔ پھر راوی کی اپنی ادبی روایات ہیں۔ اس کے پرچے ’’راوی‘‘ کا اپنا ایک معیار اور نام رہا ہے، پھر علی گڑھ کی طرح اس درس گاہ سے وابستہ افراد ہمیشہ ان روایات کی پاسداری کرتے ہیں۔ معروف افسانہ نگار مقصود الٰہی شیخ بیرون ِ ملک رہتے ہوئے بھی برسوں تک راوی اور پھر اپنی مادرِ علمی کے نام سے وابستہ اپنا ادبی جریدہ ’’مخزن‘‘ شائع کرتے رہے، جس کے غالباً دس شمارے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔
ممتاز احمد شیخ ہر بار اپنی مادرِ علمی کے بارے میں ’’محبت جو امر ہوگئی‘‘ کے زیر عنوان ایک مضمون شائع کرتے ہیں۔ تازہ شمارے میں مرحوم مظفر علی سید کا ’’راوی ہمارے وقت میں‘‘ شائع کیا گیا ہے جس سے بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوئی ہیں۔ سید صاحب نے کالج میگزین کا مدیر مقرر ہونے کی تفصیلات دل چسپ انداز میں پیش کی ہیں جس سے گورنمنٹ کالج کے اساتذہ صوفی تبسم اور خواجہ منظور حسین کی بصیرت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔
تازہ ’’لوح‘‘ میں رفتگان کی یاد میں مضامین بہت اہم ہیں۔ علی تنہا نے ’’منو بھائی کا مشغلہ اداسی کیوں تھا‘‘ کے زیر عنوان بہت خوب صورت مضمون تحریرکیا ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید نے ’’ساقی فاروقی‘‘ اور ڈاکٹر نزہت عباسی نے ’’رسا چغتائی‘‘ پر قلم فرسائی کی ہے۔ تینوں مضامین میں مرحومین کے حوالے سے کچھ نئے گوشے قارئین کے سامنے پیش کیے گئے ہیں جو معلومات افزا اور ان شخصیات کو عمدگی سے متعارف کراتے ہیں۔
اس شمارے میں ’’خراج ِ تحسین‘‘ کے نام سے ادبی شخصیات پر گوشے شائع کرنے کا آغاز کیا گیا ہے، اس کے لیے پہلی شخصیت شاعرہ، ادیبہ اور دانش ور ’’کشورناہید‘‘ کو چنا گیا ہے۔ محمد حمید شاہد اور عابد سیال نے صاحبِ گوشہ کی شخصیت اور فن کو بہ خوبی پیش کیا ہے جس کے بعد کشور ناہید کی نثر اور شاعری کا اچھا انتخاب کیا گیا ہے۔ ادبی شخصیات کو اُن کی زندگی ہی میں خراج ِ تحسین پیش کرنے کا آئیڈیا بہت اچھا ہے۔
معروف مصنفہ سلمیٰ اعوان نے سفرنامے کے حصے میں سفرِ شام کے دوران شامی ادیبہ مروہ ال ثوبانی سے ملاقات کا احوال سنایا ہے جس میں شام کی تباہی دل کو خون کے آنسو بہانے پر مجبور کرتی ہے۔ مضمون کی آخری سطر ’’جنگ کبھی کسی ایک سبب کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ بے شمار عوامل کا ایک ڈھیر لگ جاتا ہے اور چنگاریاں بھڑک کر آگ کا طوفان اٹھاتی ہیں‘‘ حقیقت کا برملا اظہار ہے۔ یونس خان نے کے ٹو کے سفرکی داستان کے کچھ حصے ’’مشہ بروم‘‘ کے نام سے پیش کیے ہیں۔
لوح کا افسانوی حصہ ’’سن تو سہی جہاں میں ہے ترا فسانہ کیا‘‘ 135 صفحات پر مشتمل ہے جس میں سینئر اور نئے افسانہ نگاروں کی پچیس نگارشات شامل کی گئی ہیں جن میں مسعود مفتی کے ’’وہ ایک کش‘‘، رشید امجد کے ’’پیاس سے مرتے شخص کا خواب‘‘، سمیع آہوجا کے ’’قید در قید‘‘، زاہدہ حنا کے ’’اکثر شبِ تنہائی میں‘‘، انوار احمد کے ’’نصوح کا دوسرا خواب‘‘، محمد حامد سراج کے ’’خاک بسر‘‘ اور نیلم احمد بشیر کے افسانے ’’خواب میں گم‘‘ پر اظہارِ خیال تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ان میں سے ہر افسانہ نگار آپ اپنا تعارف ہے۔ ہر افسانہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ انور زاہدی، مشرف عالم ذوقی، شموئل احمد، زید سالک ، شہناز شورو، سیمیں کرن، شہناز پروین، منزہ احتشام گوندل کی تحریریں بھی بہت عمدہ ہیں۔ دیگر افسانے بھی مدیر کے انتخاب کی داد کے مستحق ہیں۔ مجموعی طور پر افسانوں کا حصہ بہترین اور مستقل اہمیت کا حامل ہے۔
معروف افسانہ نگار محمد الیاس کے 5 ناول اور 9 افسانوی مجموعے قارئین کی داد حاصل کرچکے ہیں۔ لوح میں ان کے نئے ناولٹ ’’پریت نہ جانے‘‘ کا ایک حصہ شامل ہے۔ نجیبہ عارف کا حال ہی میں منفرد ناول ’’راگنی کی تلاش میں‘‘ مکالمہ کے سالنامے میں مکمل ہوا ہے، جلد ناول کتابی شکل میں منظرعام پر آئے گا۔ نجیبہ عارف کے ناول ’’گرد کے بگولے‘‘ کا ایک حصہ بھی شامل ہے۔
نظم وغزل کے حصے ساٹھ ساٹھ صفحات پرمشتمل ہیں۔ حصۂ نظم میں 27 شعرا کی 88 تخلیقات کو شامل کیا گیا ہے جس میں نصیراحمد ناصر، علی محمد فرشی، حسین مجروح، فاضل جمیلی اور اقتدار جاوید کی نظمیں کمال کی ہیں۔ جواز جعفری نے اساطیری نظم کے نام سے عبدالرشید، خالد شریف، ممتاز احمد شیخ، نصیر احمد ناصر، تبسم کاشمیری اور شعیب بن عزیز پر عمدہ نظمیں کہی ہیں۔ حصۂ غزل میں 68 شعرا کی 123 غزلیں قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہیں۔ بہت ہی خوب صورت شاعری ’’لوح‘‘ میں موجود ہے۔ اگر کچھ اشعار پیش کرنا چاہوں توکالم میں اس کی گنجائش نہیں نکل سکے گی۔
’’لگا رہا ہوں مضامین ِ نوکے انبار‘‘ کے زیر عنوان مضامین میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کا ’’جاپانی ادب‘‘ کے بارے میں، افتخار عارف کا ’’ورق پہ لکھی سچائی‘‘، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا ’’پروین شیر کا وضع کردہ پینوراما‘‘ اور مبین مرزا کا مضمون ’’شیوہ غالب‘‘ موجودہ شمارے کا حاصل ہیں۔ دیگر مضامین میں بھی اہم موضوعات پر معلومات افزا اور چشم کشا تحریریں شامل کی گئی ہیں جنہوں نے اس شمارے کو ثروت مند کیا ہے۔
تراجم میں معروف شاعر اور ٹی وی پروڈیوسر ایوب خاور نے چند اچھے تراجم کیے ہیں۔ نسیم سید اور صدف مرزا کے تراجم بھی خوب ہیں۔ فلم اور موسیقی کے بارے میں امجد پرویز نے’’لتا منگیشکر‘‘ اور خرم سہیل نے’’بین الاقوامی سنیما اور پاکستانی فنکار‘‘ پر عمدہ مضامین تحریر کیے ہیں۔ سلمان باسط کا خاکہ اور ایس معین قریشی کا طنزو مزاح سے بھرپور مضمون ’’خدمتِ خلق‘‘ بھی دل چسپ ہیں۔ آخر میں معروف شاعر اور ڈراما نگار سرمد صہبائی کی کچھ کافیوں نے پرچے کو منفرد ذائقہ عطا کیا ہے۔ غرض ’’لوح‘‘ کا یہ شمارہ ہر اعتبار سے مکمل، بھرپور اور شاندار ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر نیاز علی محسن مگھیانہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ طب کے پیشے سے وابستہ ہونے کے ساتھ انہوں نے تحریر سے بھی ناتا جوڑا اور اس میں مزاح کو اپنایا، اور اپنی مزاحیہ تحریروں کو کسی ایک صنفِ ادب تک محدود نہیں رکھا۔ کہانیاں، انشائیے، سفرنامہ، کالم نگاری، غزل گوئی اور ماہیہ نگاری میں تخلیقی اظہار کیا۔ 1990ء کی دہائی میں محسن مگھیانہ سے تعارف اُن کی منفرد آپ بیتی’’انوکھا لاڈلا‘‘ کے ذریعے ہوا۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے دل چسپ اندازِ بیان نے شروع سے آخر تک اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ ایسی شگفتہ کتاب بہت کم پڑھنے کو ملتی ہے۔ اگلے چند برسوں میں ان کے کالموں کے مجموعے ’’چھیڑ خانی‘‘، ’’مسئلہ ہی کوئی نہیں‘‘، ’’اٹکھیلیاں‘‘ اور سفرنامہ ’’دیسی اِن ولایت‘‘ نے ثابت کیا کہ اردو ادب کو ایک بہت اچھا مزاح نگار مل گیا ہے۔ افسوس ’’انوکھا لاڈلا‘‘ اور ’’دیسی اِن ولایت‘‘ جو میری فیورٹ کتابوں میں شامل ہیں، کسی دوست کی نذر ہوگئیں اور تلاش کے باوجود دوبارہ نہیں ملیں۔ نئے ملینیم میں ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی کوئی تحریر نظر نہیں آئی۔ چند روز قبل اردو بازار میں ان کی تازہ تصنیف ’’بھاگ ڈاکٹر بھاگ‘‘ نظرآئی تو اسے فوراً خرید لیا۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا قلم اِس بار بھی عروج پر نظر آیا۔ ان کے کالم پڑھ کر مزاح کے بارے میں اس تاثرکی تصدیق ہوئی کہ مزاح مسکراہٹوں اور آنسوؤں کے سنگم پر تخلیق ہوتا ہے۔ ان کی فکر میں سنجیدگی اور بیان میں شگفتگی کا متوازن امتزاج موجود ہے۔ انہوں نے معاشرتی مسائل کا احاطہ بہ خوبی اور بہتر انداز میں کیا ہے۔ عام آدمی کی زندگی کے روزمرہ کے مسائل کو ڈاکٹر صاحب نے بہت شگفتہ انداز سے پیش کیا ہے۔ ’’بھاگ ڈاکٹر بھاگ‘‘ کے کالم زندگی کی بہت سی دلچسپیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں، اور یہ نثر پارے شگفتگی ہی نہیں اپنے قاری کو لفظ کا ذائقہ اور سانسوں کو خوشبو بھی بہم پہنچاتے ہیں۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ عام سی صورتِ حال کو شگفتہ انداز میں پیش کرنے کے قرینے سے بہ خوبی آشنا ہیں۔ اردو محاورات اور ضرب الامثال کا تخلیقی استعمال نیا لسانی زاویہ پیش کرتے ہیں جو فکاہیہ ادب کا ایک اہم جزو ہے۔ بعض کالموں کے عنوانات بجائے خود دل چسپ ہیں جیسے’’سچ بولو اور بھاگ جاؤ‘‘، ’’پونچھ روٹ میں ملن‘‘، ’’گدھے پرمہر‘‘، ’’لوڈ شیڈنگ کے چند فوائد‘‘، ’’دعوتِ طعام و دعوتِ کلام‘‘، ’’بے اختیارکرسیاں‘‘، ’’موقع پرستی ہزار نعمت ہے‘‘، ’’روٹی کھل گئی‘‘، ’’ادھار محبت کا استرا ہے‘‘ اور’’بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے‘‘ اپنے عنوانات سے ہی قاری کو متوجہ کرلیتے ہیں۔
آخر میں ایک اقتباس بطور نمونہ پیش ہے:
’’ایک پلیٹ میں سب سے زیادہ کھانا ٹھونسنے کا مقابلہ علیحدہ سے ہوتا تو اولمپکس میں ایک اورگولڈ میڈل ہم لے اُڑتے۔ ایک پلیٹ میں مرغِ مسلّم کے درجن سے زیادہ پیس نہایت چابک دستی سے سجائے جارہے تھے۔ پلے ہوئے مرغ کے ٹکڑے اگر مسیحائی سے زندہ ہوسکتے تو یقین جانیے ایک ہی پلیٹ میں سے کئی کئی سالم مرغ پھڑپھڑاتے نکل آتے۔‘‘
جھنگ کے اسپتال میں چیف سرجن کی ذمے داریوں کے ساتھ تحریر سے ناتا جوڑے رکھنا یقینا آسان نہیں ہے، لیکن ڈاکٹر محسن مگھیانہ کو یہ ناتا توڑنا نہیں چاہیے۔ اس کتاب پربھی اشاعت کا سال 2016ء درج ہے لیکن کراچی میں یہ اب دستیاب ہوئی ہے۔ پرانی کتابوں کی اشاعتِ نو پر بھی توجہ دینا چاہیے۔

غزل

باقر رضا
اپنے سائے میں بیٹھے لوگوں سے زخم کھائے تو پیڑ نے جانا
بار آور ہوئیں مری شاخیں سنگ آئے تو پیڑ نے جانا
اُڑنے والے بھی ہوتے ہیں مجبور آشیانوں سے ہوگئے ہیں دور
ڈھل گئی رات دن نکل آیا وہ نہ آئے تو پیڑ نے جانا
روشنی کا فروغ ہونے میں جسم و جاں کا زیاں تو ہونا تھا
سطح کاغذ پہ حرف کے تارے جگمگائے تو پیڑ نے جانا
اپنا مامن بگاڑا جاتا ہے اپنا مسکن اجاڑا جاتا ہے
ابنِ آدم کی حرص نے جنگل جب کٹائے تو پیڑ نے جانا
شبِ تاریک سے نمٹنے کو اپنے اندر کی روشنی ہے بہت
باغ کے گوشوں میں کہیں جگنو ٹمٹما ئے تو پیڑ نے جانا
جبر کوئی دبا نہیں پایا کوئی طوفاں مٹا نہیں پایا
گھاس کے ننھے ننھے پتوں نے سر اٹھائے تو پیڑ نے جانا
دستۂ ظلم بننے والوں کو سخت تاوان دینا پڑتا ہے
اپنے پہلو پہ جب کلہاڑی کے وار کھائے تو پیڑ نے جانا
دل کشی حریت میں کتنی ہے کس قدر خوش نما ہے آزادی
جاں نثاروں نے سولیوں پہ بدن جب سجائے تو پیڑ نے جانا
پھول پھل یوں ہی تو نہیں آتے سایہ سب کو عطا نہیں ہوتا
غم رضا موسموں کی سختی کے جب اٹھائے تو پیڑ نے جانا

حصہ