اور تجھے کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟۔

981

راشدہ نیاز، جامعۃ المحصنات سنجھورو
شب قدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔ اس میں روح الامین اور فرشنے اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوع صبح تک کے لے سلامتی ہے۔ ( سور ۃالقدر)
کیسا حسین اور وجد میں لانے والا منظر قرآن پیش کرتا ہے کہ فرشتوں کے جھرمٹ میں روح الامین زمین کی جانب رواں دواںہیں اہل زمین کے لئے سوغات ،کائنات کا سب سے عظیم تحفہ لے کر ۔۔۔آسمان سے زمین تک ہر طرف نور ہے اور پوری کائنات سراپا نور ہے ۔نہ صرف یہ رات سلامتی ہے طلوع صبح تک بلکہ یہ رات جو عظیم پیغام لے کر آتی ہے رہتی انسانیت تک کے لئے سلامتی کا پیغام ہے۔
اس رات نے درحقیقت پوری کائنات کو ایک خوشی اور سر شاری سے ہمکنار کر دیا یہ رات عرش و زمین کے باہمی اتصال کی بہت خوبصورت اور بہت حیرت انگیز رات ہے۔ ایسی رات جس کا زمین و آسمان نے آج تک مشاہدہ نہ کیا تھا ۔انسانی فہم و ادراک جتنی بھی ترقی کر جائے وہ اس عظیم رات کی عظمت و ادراک کرنے سے قاصر رہے گاکہ ۔۔۔تجھے کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟
یہ رات رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے
حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں کو(۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،۲۹) میں شب قدر کو تلاش کرو۔
صحیح بخاری
یہ قدر والی رات ہے کیونکہ وہ عظیم الشان فیصلہ اور تدبیر جو اس رات میں کی گئی اس نے واقعی بنی نوع انسان کی تقدیر بدل کر رکھ دی ۔قرآن کی شکل میں جو عقیدہ قانون ،جو آئین اورجو اصول و ضوابط وضع کئے گئے ا نہوں نے انسانیت کو نئی قدروں سے روشناس کرایا ۔ صدیوں سے رائج دور جاہلیت کی سب قدریں سب پیمانے کل تہذیب اور تمدن سب کو اس رات میں مسترد کر دیا گیا ۔اور انسانیت کو عظیم قدریں اور نئے پیمانے دئے گئے ۔لہذا رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیاکہ وہ ہر سال اس عظیم رات کے شایان شان اس کا استقبال کریں اس رات کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کریں ۔
رسول ﷺ نے فرمایا:جس کسی نے شب قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔(صحیحین)
اس امت پر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے کم کاموں پر اور کم وقت میں اتنا اجر اور برکت رکھ دی ہے جو دوسری امتوں کے حصے میں نہیں آئی۔
ایک روایت کے مطابق جب نبی کریم ﷺ نے پہلی امتوں کے اعمال دیکھے تو وہ طویل عمر ہونے کی بناء پر بہت زیادہ تھے اس پر حضور ﷺنے سوچا کہ میرے امتیوں کی عمر یں تو بہت کم ہیں یہ اپنے اجر میں ان تک کیسے پہنچ پائیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر جیسی عظیم نعمت عطا کی ۔
آج پھر شب قدر ان محرمیوں کی تلافی کے لئے ہمیں پکار رہی ہے۔ یہ نورانی رات مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہمیں پھر اس نور کی طرف دعوت دے رہی ہے جس نے چودہ سو سال قبل انسانیت کی روح کو چمکایا تھا ۔
یہ رات محض ایک رسم اور وظائف کے لئے مقرر نہیں کی گئی بلکہ اس رات کو ہمیں ایمان و احتساب کے ساتھ گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ہم اپنے دل کو بیدار کریں اللہ سے اور قرآن سے اپنا حقیقی تعلق قائم کریں ہمارے دل کی دنیا اس قدر بدل جائے کہ ہمارے عمل سے اس کے اثرات ظاہر ہوں گے ۔اپنے گزرے ہوئے روز و شب کا رات کی تنہائی میں جائزہ لیں ۔جو رعایتیں ہم نے اپنے نفس کو دے کر گناہوں کا خوگر بنایا ہے اس رات میں اس کا احتساب کریں آج روز و شب نہ معلوم کتنے کلمہ گو مسلمانوں کا لہو اس مٹی میں جذب ہو رہا ہے۔ اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں کو ن کونسی آزمائش ہے جس کی بھٹی میں ہم سلگ رہے ہیں۔ہم اللہ کی حدوں کو توڑتے ہیں اس کی نعمتوں سے محروم ہیں شب قدر سے ملنے والی سعادت کی ہم نے قدر نہ کی اسی لئے آج نہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں نہ گھر نہ قومی حمیت باقی ہے نہ انسانی جان کی کوئی قیمت ہے ۔یہ سلامتی والی رات یاد دہانی ہے ہمارے لئے کہ حقیقی سلامتی ہمارے معاشرے کی سلامتی ،ایمان کی سلامتی،کردار کی سلامتی، ہمارے گھروں کی سلامتی،ہمارے دلوں کا سکون سب اللہ سے تعلق اور قرآن پر عمل میں مضمر ہے۔ یہ مغفرت اور رحمتوں کی رات ہے۔حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے دریافت کیا یا رسول ﷺاللہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ شب قدر کونسی رات ہے تو اس میں کیاپڑھوں تو آپ ﷺ نے جواب دیا
اللَّھمَّ انَّکَ عَفو تحِب العَفْوَ فاعْف َعنِّی
اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے تو مجھے معاف فرما۔
معافی مانگئے اور خود بھی معاف کرنا سیکھئے ان لمحات میں ۔۔۔۔شب قدر کی یہ ساعتیں چند روز بعد ہمیں بھی حاصل ہونے والی ہیں۔ اللہ سے دعاہے کہ وہ ہمیں شبِ قدر کی اس کے شایان شان قدر دانی کرنے والا بنا دے۔آمین

چاند رات

(راشدہ نیاز ، معلمہ جامعات المحصنات سنجھورو)
اللہ کا بے شمارشکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیںرمضان لمبارک کو پانے کا موقع عطا فرمایا اور اس میں مقدور پھر نیکی کمانے او رروزے دار کے اجر وثواب کی توفیق عطا فرمائی۔ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ سب روزے دار جنہوںنے قرآن پاک سے منسوب اس ماہِ مبارک میںقرآن کا فہم حاصل کرنے کی بھرپورکوشش کی ۔روزہ داروں کی کوشش کو اللہ تعالی رحمتِ خاص سے نوازتا ہے ۔قرآن پاک پانے والوں کی خوشیوں میں ایک اور اضافہ عیدالفطر بھی ہے۔عید الفطر کی رات کو فرشتوں میں خوشی کی دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العز ت ان سے دریافت کرتے ہیں کہ بتائومزدور اپنی مزدوری پوری کر چکے تو اس کی جزا کیا ہے؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اجرت ملنی چاہیئے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ فرشتوں تم گواہ رہو کہ میںنے ان روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لئے جنت واجب کر دی اسی لئے اس رات کا نام فرشتوں میں’’ لیلۃالجائزۃ‘‘یعنی انعام کی رات ہے۔
چاند رات ہمارے معاشرے میں ایک خاص قسم کاتاثر رکھتی ہے جس میں خوشی اور مسرت اوردوستوں رشتہ داروں کی ملاقاتوں پر دلی خوشی کا احساس پایا جاتا ۔یقیناًیہ ایک جائز امر ہے لیکن جو تکلیف دہ چیز اس رات میں نظر آتی ہے وہ یہ کہ جس کو انعام کی رات کا نام دیا گیا وہ بازاروں کی نظر ہو جاتی ہے اور ’’ قید سے نجات ‘‘کا تاثر دیتی ہے ۔لگتا ہے وہ تمام جکڑے ہوئے شیطان اپنے لا ئولشکر اور تمام ہتھیار چال بازیوں کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں، محلوں او ربازاروں پر پل پڑتے ہیں ۔عیدکا چاند نظر آتے ہی نہ ذہن جگمگاتے ہوئے لگتے ہیں نہ دلوں میں وہ نور کا سماں ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شبِ عید شاپنگ، مہندی، چوڑیوں، سلائیوں اور میچنگ کی فکرمیں گزر جاتی ہے اور نماز فجر سے غفلت میں مبتلا ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ گھڑیاںرب کی رضا کے حصول کی خصوصی گھڑیاں ہیں۔
اس رات میں بازاروں کی محض رونق دیکھنے والوںکی بھی کمی محسوس نہیں ہوتی ۔محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں رمضان المبارک کے کچھ اثرات رہ گئے ہیں ۔مزدوری اپنی مزدوری لینے کے بجائے شیطانی مشغولیات سے دل کو مردہ کر رہے ہوتے ہیںاور وہ تمام اجر و ثواب جو پورے رمضان المبارک میں سمیٹا ہوتا ہے ضا ئع ہو جاتا ہے۔ اسلامی تہواروں میں نہ لہو ونہ لعب اور نہ انسانیت سوز نظارے بلکہ خاکساری وخشیت الہی کے جلوے ہونے چاہئیں ۔اتحاد و اتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویر نظر آنی چاہیئے ۔ عبادات الہی اور ذکر و تسبیح و تہلیل ہونی چاہئے۔ہم سب کو اپنے معمولات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ ہم ان مقدس ساعات میں کہاں اور کیا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں ؟ہم دنیا کی چیزوں کی طلب میں اخروی انعام کو بھول جاتے ہیں؟کیا اللہ کی طرف سے نظرِعنایت اور خصوصی انعام کی کوئی اہمیت نہیںہے ؟عید کی تیاری کے سب مراحل اگر پہلے پورے کر لئے جائیں تو اس مقدس عظیم رات کے ایک ایک لمحے سے بخوبی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ شبِ عید پر ہمارے اطراف جو نقشہ نظر آتا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے محاسبہ نفس کی بہت ضرورت ہے۔کیا ہم طالبِ دنیا ہیں یا طالبِ آخرت!!
’’اللہ رب العزت ہم سب کو حقیقی عید کی خوشیوںسے ہمکنار فرمائے ۔ (آمین)‘‘

اعتکاف،صرف اسی کے ہو کر رہو

صغریٰ نور محمد،جامعۃالمحصنات سنجھورو
دنیا کی جان لیوا مصروفیت میں سکون کا گوشہ مقام اعتکاف ہے ۔دنیا کا سارا کاروبار دنیا کا سارا سازو سامان اور اہل و عیال کو چھوڑ کر انسان چند چیزوں کے ساتھ رمضان کے آخری عشرے میں اللہ کے گھر میں آبیٹھتا ہے اور اللہ کے گھر کے ایک کونے میں ایک مسافر کی طرح ،ایک مہمان کی طرح بیٹھ کر یہ سارا عشرہ گزارتا ہے۔ وہ عشرہ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ بندہء مومن کو آگ سے بچانے والا عشرہ ہے۔
حضر ت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے معتکف(اعتکاف کرنے والا)کے بارے میں فرمایا: اعتکاف کرنے والا چونکہ (اعتکاف کے زمانے میں )گناہوں سے رکا رہتا ہے ،اس لئے اس کے حق میں وہ تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیںجو اس شخص کے حق میں لکھی جاتی ہیں جو تمام نیکیوں پر عمل پیرا ہو۔(ابن ماجہ)
اعتکاف یہی تو ہے کہ آدمی دنیاوی کاروبار اور تعلقات سے کٹ کر الگ تھلگ ہوکر گھریلو مصروفیات اور نفسانی خواہشات سے بے تعلق ہوکر فکر و عمل کی ساری قوتوں کو خدا کی یاد اور عبادت میں لگادے اور سب سے الگ ہوکر خدا کے پڑوس میں جابسے اس عمل سے ایک طرف تو آدمی ہر طرح کی فضول باتوں اور برائیوں سے محفوظ رہے گا دوسری طرف خدا سے اس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور اللہ کی یاد اور عبادت سے قلب وروح کو سکون اور سرور محسوس ہوتا ہے اور چند دن کی تربیت کا یہ عمل اس کے دل پر یہ گہرا اثر چھوڑے گا کہ دنیا میں اپنے چاروں طرف ہر طرح کی رنگینیاں اور دل کشی دیکھنے کے باوجود خدا سے تعلق مضبوط رہے،خدا کی نافرمانی سے بچے اور اس کی اطاعت میں قلب و روح کا سکوں و سرور تلاش کرے اور پوری زندگی خدا کی بندگی میں گزارے ۔اعتکاف میں نظر اسی پر مقصود رہے کہ لا الہ الا اللہ تو حقیقت میں اعتکاف فنائے محض ہے ۔تو جس نے اس نیت سے اعتکاف کیا وہ واقعی معتکف ہے ورنہ جو شخص اس اخلاص سے محروم رہااس کا اعتکاف بے روح ہے ۔یہ نیت کا ذرا سا کھوٹ ساری محنت پر پانی پھیر دینے والا ہوسکتا ہے۔ پس اعتکاف کا مطلب دنیا سے کٹ کر اللہ سے جڑنا اور عبادت کرنا ہے اعتکاف کی اصل روح یہی بندگی اور تعلق باللہ ہے۔

حصہ