ہم کسی سے کم نہیں

502

فخر الدین
اس وقت کیا سما بپا ہوا ہوگا ، لوگوں کو کتنی خوشی محسوس ہوئی ہوگی، وہ دن بھی کیا عجیب دن ہوگا، معلوم نہیں اس وقت ہم کہاں تھے۔ شاید اپنے بستر پر یا پھر ماں کی گود میں۔۔۔ بہت افسوس ہوتا ہے کہ کاش اس وقت ہم سمجھدار اور عاقل و بالغ ہوتے۔ ہم بھی فخر سے سر اٹھا کر پاکستان زندہ باد اور نعرہ تکبیر، ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے۔ ہم بھی شکرانے کے طور پر نوافل ادا کرتے، ہم بھی سوشل میڈیا پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور اس طرح کے دوسرے فخریہ پوسٹس شیئر کرکے دنیا کو بتاتے کہ ہم کسی سے کم نہیں، اوہ معذرت! اس وقت تو سوشل میڈیا کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔ وہ وقت تو 1998 ء کا تھا جبکہ سوشل میڈیا تو اکیسویں صدی میں عروج کو پہنچا ہے۔
جب 28 مئی 1998ء کو جمعرات کے دن عصر کے قریب جب سورج زردی مائل تھا اور بلوچستان چاغی کے مقام پر پاکستان نے انڈیا کے 5 ایٹمی دھماکوں (جس کی قوت 43 کلو ٹن تھی) کے جواب میں پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے ( جس کی قوت 50 کلو ٹن تھی) کرکے حریف ملک بھارت کے غرور کو خاک میں ملا دیا تھا۔ بھارت نے 1974 میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستانی سالمیت کو نہ صرف خطرے میں ڈالا تھا،بلکہ جوش میں آکر اپنی فوج کو کشمیر بارڈر پر جمع کرنا شروع کیا تھا جس سے ایک حقیقی جنگ ہونا نظر آرہا تھا ، لیکن پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف اپنی سا لمیت کی دفاع کی بلکہ حریف ملک بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا۔ اس وقت پاکستان کئی مشکلات سے دوچار تھا اور بڑی طاقتوں کی طرف سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔
امریکی صدر کلنٹن بار بار پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو فون کرکے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی ترغیب اور ساتھ ساتھ اقتصادی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دے رہا تھا ، لیکن پاکستانی عوام اور حکومت نے بروقت سے ہی قدم اٹھایا اور ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں جبکہ عالم اسلام کا پہلا ملک بنا۔ اس دن کو ’’یوم تکبیر‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ 14 اگست 1947 ء کے بعد دوسرا قومی دن ہے کیوں کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان بنا تھا اور 28 مئی 1998 کو پاکستان نے اپنی بقا کی جنگ جیتی تھی۔ یہ دونوں دن پاکستان کیلئے تاریخی اور بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ 14 اگست 1947 کے دن کا بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور آج کے دن کا بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہے جنہوں نے اپنے ملک کی بقا کی خاطر اپنی ٹیم کے ساتھ شب وروز محنت کرکے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔
آج 28 مئی کو یوم تکبیر منایا جارہا ہے۔ یہ یوم تفاخر ہے اور ہماری قومی تاریخ کا انمٹ باب ہے۔ آج جگہ جگہ جلسے جلوس بھی ہوں گے پروقار تقاریب کا انعقاد بھی ہوا ہوگا، مختلف تقاریب میں بڑے بڑے سیاستدان دوسروں کے لکھے ہوئے پرجوش تقاریر سنا کر لوگوں سے خوب داد بھی وصول کریں گے مگر اس دن کے منانے کا جو اصل مقصد ہے وہ ہم نہیں جانتے۔ بے شک آپ بازار،گلی یا محلے وغیرہ میں 100 لوگوں سے پوچھے کہ 28 مئی کے دن کو ہم کیوں مناتے ہیں؟ اس دن کیا ہوا تھا؟تو تقریباً پچاس لوگ سے ہی جواب دیں گے باقی غلط۔ یہاں تک تو ٹھیک پھر آپ یہ سوال پوچھئے کہ اس دن کے منانے کا مقصد کیا ہے ؟ تو میرے اندازے کے مطابق 100 میں سے 10 لوگ بھی صحیح جواب نہیں دے پائیں گے۔ اکثر لوگ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس دن پاکستان ایٹمی طاقت بنا تھا اس لئے۔ یہاں تک تو سب کو معلوم ہونا چاہیے جو پھر بھی ہے نہیں،لیکن ساتھ ساتھ اس دن کو منانے کا مقصد سامنے رکھ کر اس دن کو منانا چاہیے۔
یہ بھی صحیح ہے کہ ہم اس دن کی یاد میں مناتے ہیں مگر ہم کو اس دن سے سبق حاصل کرنا چاہیے ، اس دن ہمارے جذبات اور خواہشات پاکستان کو عالم اسلامی میں نہیں بلکہ پورے دنیا میں بہترین مقام کے حصول کا ہونا چاہیے۔ تو آؤ آج کے دن عہد کرتے ہیں کہ سرزمین پاکستان کی خاطر نہ تو ہم ڈریں گے نہ بکیں گے ، نہ کسی کی باتوں میں الجھیں گے اور نہ کسی کی خاطر اپنے ملک کی عزت کو داؤ پر لگائیں گے ، آج سے ہم عہد کرے کہ آج کے بعد ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ہمارے ملک کو نقصان ہو جس مقصد کے لیے یہ ملک بنا تھا اس مقصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کرینگے اور جن مقاصد کے حصول کی خاطر یہ پاک سرزمین وجود میں آیا تھا وہ حاصل کر کے رہیں گے۔
اب آپ خود سوچئے کی پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کا پاکستان بنانے کے لئے آپ کو کیا کرنا ہے بس سوچئے اور عمل (جہد مسلسل کے ساتھ) شروع کیجئے وہ بھی آج سے۔اگر ہم نے ایسا کیا تو انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو عالم اسلام اور عالم دنیا کی نمائندگی حاصل ہوگی اور ہم سر اٹھا کر فخر سے کہیں گے کہ ’’بھائی اب آپ کیا سوچ رہے ہو اٹھو اور نعرہ لگاؤ ہم ’’ہم کسی سے کم نہیں‘‘۔

اللہ کی عبادت مقصدِ حیات

بنتِ عطا
اللہ کے ہم پر اربوں کھربوں احسانات ہیں۔ ان کا شمار کرنا تو دور ان کا تصور تک کرنا بھی ہمارے بس میں نہیں۔ اللہ نے ہم پر جو بے شمار انعام کیے ان کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں۔ ہم اسی کی بندگی اسی کی اطاعت کریں ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے وہ ہم سے ناراض ہو۔ اللہ نے ہمارے لئے نیکیاں حاصل کرنا بھی کوئی مشکل نہیں بنایا۔ چھوٹے سے عمل پر بے انتہا ثواب لکھ دیا۔ قرآن کا ایک حرف پڑھنے پر 10نیکیاں لکھ دیں، سورہ فاتحہ ایک بار تہائی قرآن کے برابر ہے، سورہ خلاص چوتھائی قرآن کا ثواب رکھتا ہے، سورہ زلزال و عادیات ایک مرتبہ پڑھنے سے نصف قرآن کے برابر اجر مل جاتا ہے، راستہ سے تکلیف چیز دور کردینا یا کسی مسلمان سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔ سونے جاگنے، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے غرض زندگی کے تمام معمولات کے لئے مخصوص دعائوں کا تحفہ ہمیں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دیا۔ جن کے اہتمام سے ہم اپنے دنیاوی امور بھی عبادت بنا سکتے ہیں۔اللہ کے قرب کے لئے اگر ہم چل کر جائیں گے تو وہ دوڑ کر ہماری طرف آئے گا۔ دین پر چلنا دنیا آخرت دونوں کامیاب بنانا بالکل مشکل نہیں۔ کسی بھی نیکی کو حقیر مت سمجھیں درحقیقت یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہی بڑے بڑے اعمال کی جانب مائل کرتی ہیں۔ اگر ہماری زندگی میں چھوٹی چھوٹی نیکیاں بھی شامل نہ ہوں تو بڑی بڑی عبادتیں تو ہماری طبیعت کو گراں ہی محسوس ہوں گی لہٰذا ذکر و اذکار، مسنون دعائوں کا اہتمام کریں۔ اپنے دنیاوی امور سر انجان دیتے رہیں مگر ان کی ابتدا و انتہا ان اعمال سے کریں۔ آپ کا سونا جاگنا کھانا پینا پہننا اوڑھنا ملنا ملانا آپ کا ہر عمل عبادت بن جائے گا۔ ان کی برکت سے آپ کے روز مرہ کے کام کس خوش اسلوبی سے مکمل ہوں گے آپ کو خود حیرت ہوگی۔ آپ کی زندگی ان کی برکت سے بہت سہل ہوجائے گی آزما کر دیکھ لیجئے۔

حصہ