گوروں کو اپنے ہی گھر میں بدترین شکست

503

راشد عزیز
گوروں کو اُن کے اپنے اور پسندیدہ ترین گرائونڈ لارڈز پر جسے ہوم آف کرکٹ اور کرکٹ کے ہیڈ کوارٹر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، بدترین شکست سے دوچار کرنے کے بعد پاکستان کے ہونہار کرکٹرز لیڈز پر سیریز کے دوسرے اور آخری ٹیسٹ میں نبرد آزما ہیں، اور بے چارے انگلش کرکٹرز جو اس سے قبل آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے سیریز ہارنے کے بعد پہلے ہی اپنے عوام اور پریس کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے ہوئے تھے، سخت ترین نفسیاتی دبائو میں ہیں، اور اگر کہیں وہ سیریز ہار جاتے ہیں تو پھر ہیڈ کوچ ٹریور بیلس سمیت کئی افراد کی چھٹی یقینی ہے۔
لیڈز ٹیسٹ میں میزبان ٹیم کے لیے دو باتیں خاص طور پر پریشانی کا باعث ہیں، ایک تو یہ کہ اگر وہ ٹیسٹ ہار جاتے ہیں تو پھر سیریز بھی ہار جائیں گے اور ٹیسٹ رینکنگ میں وہ پانچویں سے ساتویں پوزیشن پر آجائیں گے، اور دوسری پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کو لارڈز ٹیسٹ جتوانے میں اہم کردار بیٹسمینوں نے نہیں فاسٹ بولرز نے ادا کیا ہے اور ہیڈنگلے لیڈز کی وکٹ انگلینڈ کے تمام ٹیسٹ سینٹرز میں سب سے فاسٹ وکٹ ہے جو اپنے بیٹسمینوں سے بھی وفا نہیں کرتی۔ لیڈز کی وکٹ پر بیٹنگ کرنا پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے بھی آسان نہیں ہوگا تاہم اُن کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں، اگر ہارتے بھی ہیں تو سیریز ڈرا ہوجائے گی، لیکن انگلینڈ کے پاس جیتنے کے سوا دوسرا آپشن نہیں۔
ڈبلن میں آئرلینڈ کے خلاف پہلا اور واحد ٹیسٹ جیتنے کے بعد لارڈز میں پاکستان کے ان نوجوان اور ناتجربہ کار کھلاڑیوں نے پہلا ٹیسٹ شروع کیا تو انگلینڈ کی مشکل کنڈیشنز اور انگلینڈ کے تجربہ کار کھلاڑیوں سے ان ہی کے ہوم گرائونڈ پر معرکہ درپیش تھا، لیکن شاید شکست کا خوف ان پر اتنا طاری نہیں ہوگا جتنا کہ گزشتہ دو سیریز جیتنے والی انگلش ٹیم پر تھا۔ یہ سرفراز کی خوش قسمتی تھی کہ وہ ٹاس ہار گیا اور ایک ذمے داری سے بچ گیا۔ لارڈز کی وکٹ روایتی طور پر ایسی وکٹ ہے جو بولر اور بیٹسمین دونوں کے لیے موزوں رہتی ہے۔ اس لحاظ سے انگلش کپتان جوروٹ کا پہلے بیٹنگ کا فیصلہ غلط نہ تھا، لیکن روٹ اور اُس کے کھلاڑیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حریف ٹیم میں چھپے رستم بھی ہیں۔ میزبان کھلاڑی تو یہ سوچ کر کھیلنے آئے ہوں گے کہ محمد عامر کو سنبھل کر کھیل لو، باقی سب خیر ہے۔ لیکن اُن کے لیے محمد عباس ڈارک ہارس ثابت ہوا جس نے ڈبلن کے بعد ایک بار پھر ثابت کیا کہ آئرلینڈ کے خلاف تُکّا نہیں لگا تھا، وہ حقیقتاً ایک باصلاحیت بولر ہے جو آگے چل کر قومی ٹیم کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لارڈز کے گراؤنڈ پر انگلینڈ کی ٹیم پہلے بھی چار بار پاکستان سے شکست کھا چکی ہے لیکن اُس وقت ان ٹیموں میں عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس جیسے نامی گرامی بولرز شامل تھے۔ محمد عباس اور حسن علی جیسے نئے بولر جنہیں کوئی وہاں نام سے بھی نہیں جانتا ہوگا، اور کوئی سوچ بھی نہیں رہا ہوگا کہ وہ انگلش کھلاڑیوں کے قدم ایسے اکھاڑیں گے کہ گوروں کے لیے یہ تادیر ڈرائونا خواب ثابت ہوگا۔ پوری ٹیم کا صرف 184 رنز کے اسکور پر ڈھیر ہوجانا سب ہی کے لیے حیرت کی بات تھی، اور اگر ٹیسٹ کرکٹ کا طویل تجربہ رکھنے والا ایلسٹر کک بھی جلد آئوٹ ہوجاتا، جس نے اپنی ٹیم کے لیے نہ صرف 70 قیمتی رنز بنائے بلکہ دیر تک وکٹ پر ٹھیر کر دوسرے کھلاڑیوں کو بھی حوصلہ دیا، تو شاید پوری ٹیم 100 رنز بھی نہ بنا پاتی۔
پاکستانی ٹیم نے اپنی باری میں 363 رنز بناکر نہ صرف انگلش بولرز کی صلاحیتوں کا پول کھول دیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ وکٹ میں ایسی کوئی خرابی نہیں تھی جو میزبان کھلاڑیوں کی غیر معیاری اور مایوس کن بیٹنگ کا سبب بنی ہو، اور ایک دو نہیں چار بیٹسمینوں نے نصف سینچریاں اسکور کرکے حریف بولرز کا بھرم کھول دیا۔ بابراعظم نے 68، اسد شفیق نے 59، شاداب خان نے 52 اور اظہر علی نے 50 رنز کی اننگز کھیل کر انگلش بولرز کو بے بس کردیا۔
انگلش ٹیم نے دوسری اننگز میں 242 رنز بناکر پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کپتان جوروٹ نے 68 اور بٹلر نے 67 رنز بنائے، لیکن دوسری بار بھی وہ بہت اعتماد سے محمد عباس، حسن علی اور محمد عامر کا مقابلہ نہ کرسکا اور دوسری اننگ میں پاکستان کو جیت کے لیے محض 66 رنز کا ہدف دیا گیا، جو اس نے صرف ایک وکٹ پر پورا کرلیا۔
لارڈز ٹیسٹ کی فتح یقینا ایک بڑا کارنامہ ہے اور سرفراز احمد، کوچ مکی آرتھر کے ساتھ ساتھ تمام کھلاڑی زبردست خراج تحسین کے حق دار ہیں۔ ایک اطمینان کی بات یہ بھی ہے کہ ڈبلن ٹیسٹ میں خراب فیلڈنگ کے بعد پاکستان نے اس شعبے میں بھی بہتری دکھائی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ لیڈز میں بھی پاکستانی کھلاڑی اپنی اسی کارکردگی اور جذبے کو قائم رکھتے ہیں کہ نہیں، کہیں وہ کسی خوش فہمی کا شکار تو نہیں ہوئے! لیڈز کا گرائونڈ لارڈز کے مقابلے میں مشکل ثابت ہوگا اور انگلینڈ کی ٹیم بھی اپنی ساری کشتیاں جلا کر میدان میں اترے گی۔

لیڈز کی یادگار فتح

ہیڈنگلے لیڈز کو فاسٹ بولرز کی جنت کہا جاتا ہے۔ لیڈز میں بیٹسمینوں کو ہمیشہ شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے، اسی لیے اس گرائونڈ پر عموماً کم اسکور ہوتا ہے۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلی گئی سیریز میں پاکستان کے نقطۂ نظر سے یادگار ترین ٹیسٹ 1987ء کا تھا جب عمران خان کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم نے میزبان ٹیم کو اننگ اور 18 رنز سے شکست دی تھی۔
2 تا 6 جولائی 1987ء کو کھیلے گئے اس میچ میں انگلینڈ نے پہلے بیٹنگ کی اور پوری ٹیم صرف 136 رنز بنا کر آئوٹ ہوگئی، کوئی بھی کھلاڑی عمران خان اور وسیم اکرم کا مقابلہ نہ کرسکا۔ صرف ڈی جے کیپل 53 اور کپتان این بوتھم 26 رنز بنا سکے۔ عمران خان نے 37 اور وسیم اکرم نے 36 رنز دے کر تین، تین وکٹیں لیں۔ پاکستان نے اپنی باری میں 353 رنز بنائے جس میں سلیم ملک کے 99، اعجاز احمد کے 50 اور وسیم اکرم کے 43 رنز شامل تھے۔ انگلینڈ کی ٹیم دوسری اننگ میں بھی سنبھل نہ سکی اور اس بار عمران خان نے پہلے سے بھی زیادہ تباہ کن بولنگ کی۔ انگلینڈ نے 199رنز بنائے جس میں ڈیوڈ گاور کے سب سے زیادہ 53 رنز شامل تھے۔ عمران خان نے 40 رنز دے کر 7 وکٹیں لیں اور میچ میں مجموعی طور پر دس کھلاڑیوں کو آئوٹ کرکے مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کیا۔

پاک انگلینڈ ٹیسٹ سیریز غیر معمولی واقعات

٭ 1971-72ء کی ٹیسٹ سیریز کے حیدرآباد میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان کی طرف سے ماجد خان اور مشتاق محمد اور انگلینڈ کے ڈینس ایمس 99 رنز کے اسکور پر آئوٹ ہوئے۔
٭ 1971ء میں کھیلی گئی سیریز میں پہلی بار ایجبسٹن ٹیسٹ میں انگلینڈ کی ٹیم کو پاکستان کے خلاف فالوآن پر مجبور ہونا پڑا۔
٭ 1961ء میں ڈھاکا ٹیسٹ میں جاوید برکی پہلی اننگ میں سینچری (140 رنز) اور دوسری اننگ میں صفر پر آئوٹ ہوئے۔
٭ 1977-78ء میں لاہور ٹیسٹ میں مدثر نذر نے 557 منٹ میں 114 رنز بنا کر دونوں ملکوں کے درمیان سست ترین سینچری کا ریکارڈ قائم کیا۔
٭ 1971ء میں لیڈز ٹیسٹ میں وسیم باری نے 8 کیچ لے کر بہترین وکٹ کیپنگ کا مظاہرہ کیا۔
٭ 1961-62ء کی ہوم سیریز میں حنیف محمد نے ڈھاکا ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 111 اور دوسری اننگ میں 104 رنز بنا کر دونوں اننگز میں سینچری بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔
٭ ظہیر عباس پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں ڈبل سینچری بنائی، انہوں نے 1974ء میں ایجبسٹن ٹیسٹ میں 274 رنز کی اننگ کھیلی۔
٭ 1987ء کی سیریز میں پہلی بار ایسا ہوا کہ حریف کپتانوں نے اوول ٹیسٹ میں سینچریاں اسکور کیں۔ عمران خان نے پہلی اننگ میں 118 رنز بنائے جب کہ اسی ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں مائیک گیٹنگ نے 150 رنز (ناٹ آئوٹ) بنائے۔

حصہ