ماں کی نصیحت اور رب کی رضا

1609

افروز عنایت
۔27 رمضان جمعہ کا بابرکت دن سوگواران غم سے نڈھال مرحوم کے عزیز و اقارب دوست احباب اڑوس پڑوس کے سنکڑوں افراد کا مجمع تھا میت کو اٹھایا گیا ابھی گھر کا احاطہ بھی پار نہ کیا کہ کڑی دھوپ میں بادل برس پڑے سبحان اللہ سب حیران کہ کیسی اللہ کی رحمت برسی ہے انجانے لوگ مرحوم کے بارے میں سوال و جواب کر رہے تھے کہ یہ بندہ کیسا تھا کیا بہت عبادت گزار تھا کہ رمضان، جمعہ مبارک اور یہ برکھا رحمتوں کی بارش ہے۔ ہر ایک مرحوم کو خوش نصیب تصور کر رہا تھا ماشاء اللہ۔
٭…٭…٭
پانچ سالہ حبیب کو ماں نے صبح سویرے اٹھا دیا کہ بیٹا چلو تمہیں اسکول میں داخل کروائوں بیماری کی وجہ سے یہ جوان ماں اپنے لرزتے ہاتھوں سے اس کے بال سنوار رہی تھی بچے کو تیار کرکے ایک محبت بھری نظر اس پر ڈالی پیشانی پر پیار کیا اور بولی بیٹا تجھے پڑھنا ہے اپنے آپ کو سنوارنا ہے اس بڑے حسب و نسب والے خاندان کا تو بڑا بیٹا ہے اس تمام خاندان کی ذمہ داری تجھ پر ہے۔ (بچے کی پیار سے انگلی تھامی اور اسکول کی طرف چل پڑی) دیکھ بیٹا گھر سے اسکول تک کے راستے کے بیچ بہت گندگی ہے اس گندگی سے اپنے آپ کو بچانا ہے اپنے خاندان کی لاج رکھنا اس پڑھی لکھی ماں کی بھی لاج رکھنا تو سمجھ گیا نہ… میرے لال (یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اسے بہت جلدی ہو)
پانچ سال کا بچہ ماں کے اس فلسفے کو کیا سمجھتا صرف اثبات میں گردن ہلاتا رہا۔
اگلے دن سے حبیب نے اسکول جانا شروع کر دیا لیکن اماں کا وہی سبق تھا جو پہلے دن اسکول کے داخلہ والے دن حبیب کے گوش گزار کیا تھا ننھا حبیب ان باتوں کی گہراہی تک جانے سے تو محروم تھا لیکن اماں کے لفظ اس کے ذہن نشین ہوتے گئے۔ ابھی اسکول جاتے ہوئے اسے چند ہی دن ہوئے تھے کہ ایک دن اسکول سے واپسی پر گھر کے تمام افراد کو روتے ہوئے پایا درمیاں میں اماں کو ایک چار پائی پر سفید کفن میں پر سکون لیٹے دیکھا گھر والوں نے اسے تھام لیا گلے لگایا کہ بیٹا تمہاری ماں اللہ کے پاس جا چکی ہے جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آسکتی یہ ننھا بچہ ماں کے لیے کافی دن رویا پیٹا آخر اسے صبر آگیا لیکن دو چیزیں اس کے ذہن پر نقش ہو گئیں اماں کی آخری نصیحتیں اور امان کا نورانی پرسکون چہرہ۔ وقت کی لگام کس نے تھامی ہے گزر تا ہی جاتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اماں کی نصیحتیں اس کے ذہن میں بازگشت کرتی رہتیں آہستہ آہستہ آگہی آئی تو نصیحتوں کی حقیقتیں بھی آشکار ہوتی گئیں کہ واقعی میں اسکول اور گھر کے بیچ راستہ میں کیا کیا گندگی ہے شرفاء کے بچے ان گندگیوں سے اپنے آپ کے بچانے کی تگ دو میں لگے رہتے صبح ناشتے کے بعد وہ اگلی گلی میں رہائش پزیر اپنے کلاس فیلو (ہم جماعت) کے دروازے پر دستک دتیا میاں محمد کی ماں نکلتی اور دونوں دوستوں کو اسکول کے لیے خدا حافظ کہتی میاں محمد کا نوکر ان دونوں بچوں کو اسکول تک چھوڑنے جاتا میاں محمد ایک خوشحال گھرانے کا بیٹا تھا پانچویں کلاس پاس کرنے پر ماسٹر صاحب نے حبیب کے والد کو تاکید کی کہ یہ بچہ بڑا نیک ذہن اور محنتی ہے اسے ہائی اسکول میں داخل کروائیں۔ حبیب کو اس کی ذہانت کی وجہ سے ہائی اسکول میں جو وظیفہ ملتا وہ آکر تائی کے ہاتھ میں رکھ دیتا سترہ اٹھارہ افراد پر مشتمل یہ گھرانہ تنگ دستی کا شکار تھا چھوٹا موٹا مشترکہ کاروبار جس سے بمشکل افراد خانہ کے کھانے پینے کا بندوبست ہوپاتا لہٰذا حبیب کا یہ وظیفہ اس گھرانے کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ جس بات سے حبیب بھی اچھی طرح واقف تھا اب گھر میں چھوٹے چھوٹے کزن بھی تھے جو اسکول جانا شروع ہو گئے تھے جیسے تیسے وقت گزر ہی جاتا ہے دسویں جماعت میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے پر قاضی صاحب (استاد) نے حبیب کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی تاکید کی یہ وقت حبیب کے لیے بڑا کٹھن اور آزمائش والا تھا ایک طرف اتنا بڑا کنبہ دوسری طرف اس کی تعلیم اس کا اپنا مستقبل وہ بڑی کشمکش میں تھا ماں جو اس زمانے میں جب مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں شاذونادر اسکول کا دروازہ دیکھ پاتی تھیں خود ایک مدرس تھیں اور بیٹے کو بھی اس مقام پر دیکھنا چاہتی تھیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے ساری رات کروٹیں بدلتے گزر گئی صبح آنکھ لگی تو اماں کی نصیحت کا اگلا حصہ اس کے ذہن کے دریچوں پر بازگشت کر رہا تھا ’’بیٹا تو اس حسب و نسب والے گھرانے کا بڑا بیٹا ہے تجھے ان سب کا خیال رکھنا ہے۔
صبح حبیب کی آنکھ کھلی تو اماں کے وہ الفاظ ان کا پر نور چہرہ اسے جھنجھور رہے تھے اس نے حتمی فیصلہ کیا والد کے کمزور کاروبار کو سنبھالنے کا ارادہ کیا کیونکہ والد محترم اپنی کمزوری کی وجہ سے کاروبار کی طرف توجہ دینے سے قاصر تھے اکثر اس گھرانے کو فاقے کرنے پڑ رہے تھے۔
حبیب ذہن تھا تعلیم یافتہ تھا اور محنتی بھی۔ دن رات کی اس کی محنت رنگ لائی تو زوال پزیر کاروبار نے ترقی کی طرف قدم بڑھائے خاندان کے لڑکے لڑکیاں بڑے ہوتے گئے کنبہ بڑھتا جا رہا تھا 5/4 کمروں کا گھر ناکافی تھا حبیب نے کچھ لڑکوں کو کاروبار اور کچھ کو ملازمت میں مدد دی اپنی شادی کے بعد حبیب پر دوھری ذمہ داریاں آگئیں لیکن بیوی بھی نیک بخت اس نے شوہر کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی۔ اس وقت گھر میں چار کنبے آباد تھے ان کے لیے الگ الگ گھروں کا انتظام پھر ان کے بچوں کی شادی بیاہ میں حبیب نے بے مثال کردار ادا کیا عموماً جب کوئی بندہ الگ گھر میں منتقل ہوتا ہے تو وہ باقی لوگوں کی فکروں سے آزاد ہو جاتا ہے کہ اب ان کے بیٹے بھی کمانے کے لائق ہو گئے جیسے تیسے اپنی اپنی ذمہ داریاں اٹھائیں لیکن حبیب نے ایسا نہیں کیا وہ برابر اپنے آس پاس والوں کی ضرورت کے وقت مدد کرتے عید پر اپنے بچوں کے ساتھ تمام خاندان کے بچوں کے لیے نئے کپڑوں کا انتظام بڑی خوش اسلوبی سے کرتے ان کی زندگی ہم سب بہن بھائیوں کے لیے آئیڈل کی حیثیت رکھتی ہے جی ہاں میرے بابا ہم سب کے آئیڈل ہیں ان کی زندگی کی جدوجہد، ایمانداری پارسائی، اور حقوق العباد کی ادائیگی وہ خصوصیات ہیں جو رب العزت کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں ماہ رمضان آتا تو کارخانے کے چند لڑکے جو گائوں سے تعلق رکھتے تھے ان کے کھانے پینے کا سحری و افطار کا بندوبست گھر سے کرواتے کہ بیچارے روزہ رکھتے ہیں ہوٹلوں کا کھانا ان کا پیٹ خراب کر دیتا ہے۔ خاندان کے بچوں کے عید وغیرہ کے کپڑے تو بنواتے ہی تھے ان کاریگروں کے بچوں کے لیے بھی عیدی کے ساتھ عید کے کپڑے بھجواتے عید کے پہلے دن صبح ہی کو والدہ سے بریانی اور قورمہ بنواتے رشتے دار، پڑوسی یا کارخانے کے کاریگر اور کام کرنے والے عید ملنے آتے تو نہ صرف خوش اخلاقی سے ان کا خیر مقدم کرتے انہیں کھانا کھانے کے بغیر کبھی جانے نہ دیتے اپنے والد محترم کے سامنے کبھی اونچی آواز سے بات نہ کرتے دادا خود بڑے فخر سے اس بات کا اعتراف کرتے کہ یہ میری غلط بات پر بھی اعتراض نہیں کرتے ہیں۔ چاہے کتنی ہی مصروفیت ہوتی ہم بہن بھائیوں کو رات کو کھانا کھانے کے بعد بزرگان دین کے واقعات سناتے زندگی کے آخری دنوں میں کچھ دن میرے گھر میں قیام کیا مجھے اور میرے بچوں کو ان کی خدمت کرنے کا موقع ملا یہ چند دن میرے لیے اور میرے بچوں کے لیے بڑے یاد گار دن ہیں جب ہم ان کی صحبت سے مستفید ہوئے اور ان کی دعائوں سے فیض یاب ہوئے۔ ایک دن مجھے کہنے لگے میں بڑا گنہگار بندہ ہوں فرض عبادت وہ بھی ٹوٹی پھوٹی کیا ایسی عبادات میری بخشش کا سبب بنے گئیں کیا رب مجھ سے راضی ہو گا (ان کی آنکھوں میں نمی تھی) میں نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگائے اور ہاتھوں کو چوم کر کہا بابا ہم نے ہمیشہ آپ کو صاف ستھری شخصیت کا مالک دیکھا آپ کی ہستی سے کبھی کسی کو ایذا نہ پہنچا ہمیشہ آپ کا ہاتھ دینے والا دیکھا اور سب سے اعلیٰ بات کہ ہم سب بہن بھائیوں کی دنیاوی اور دنیوی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جس کی وجہ سے آج ہم اگر برائیوں سے دامن بچائے ہوئے ہیں تو وہ آپ کی دی ہوئی تعلیم کی وجہ سے ہے آپ نے ہم سب کو رزق حلال سے پالا اور رزق ہلال کمانے کی تاکید کی آج یہ ساری خوبیاں ہم میں موجود ہیں اس لحاظ سے ہم سب آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں بابا میری بات سن کر مسکرائے اور کافی دیر تک میرے چہرے کو دیکھتے رہے میرا بیٹا جو اس وقت CA کر رہا تھا وہ ان کے پائوں دبا رہا تھا کہنے لگے یہ میری دعائوں سے بلند مقام پائے گا (آمین) پھر میرے بیٹے کو کہنے لگے میری ماں کی شبہہ اور ان کی نصیحت میرے ذہن کے دریچوں میں آج بھی محفوظ ہے ان کی چند نصیحتوں نے میری زندگی کی راہیں روشن کر دیں اگر ان کی زندگی کا ساتھ میرے ساتھ مزید رہتا تو…
بڑی خوش نصیب ہے وہ اولاد جن کے سروں پر مائوں کا سایہ قائم رہتا ہے لیکن میں… اللہ کا شکر ہے زندگی سے مطمئن ہوں ماں کی نصیحت اور ان کی آخری وقت کی دی ہوئی دعائوں نے مجھے کبھی گرنے نہ دیا۔ بارہا ایسے موقعے آئے مجھے ایسا لگتا کہ کوئی میری انگلی پکڑ کر مجھے گرنے سے بچا رہا ہے۔ پھر کافی دیر خاموش رہتے کے بعد گویا ہوئے کہ میرا ہم جماعت میاں محمد شاید میں تو اسے یاد بھی نہ ہوں گا لیکن وہ پڑھ کر پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو گیا شاید مجھے بھی پڑھنے کا موقع ملتا تو ضرور… خیر میرا من مطمئن ہے کہ میں نے اپنی والدہ کی نصیحت پر کافی حد تک عمل کرنے کے قابل رہا شاید اللہ کو میری یہ خوبی پسند آجائے ورنہ… تو میرا دامن خالی ہے۔
٭…٭…٭
اور… آج جب وہ سفرِ آخر پر روانہ ہو چکے تھے لوگ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہے تھے بے اختیار ذہن کے دریچے کھلتے گئے اور ان کی زندگی کے چند ورق میری آنکھوں کے سامنے کھلتے گئے بے شک رب العزت اپنے بندوں کی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا اور اگر وہ نیکی حقوق العباد کے سلسلے میں کی گئی ہو تو سونے پر سہاگہ۔ اللہ رب الکریم بابا کو ان نیکیوں کے طفیل جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے (آمین) یہ مضمون میں نے خصوصاً ان لوگوں کے لیے تحریر کیا ہے جو ماں باپ کے سائے میں پلنے کے باوجود بے راروی کے شکار ہو جاتے ہیں جبکہ اگر بندہ اپنے والدین میں سے کسی ایک کی نصیحت کو گرہ میں باندھ لے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ کیونکہ والدین اولاد کی بھلائی چاہتے ہیں۔

حصہ