لیلۃ القدر اور لیلۃ الجائزہ

1001

غزالہ عزیز
رمضان کے قیمتی لمحات اپنے اختتام کی طرف رواں ہیں، یہ تحریر جب آپ کی نظر سے گزرے گی تو دوسرا عشرہ اختتام پر ہوگا، اور نیکیوں کا موسمِ بہار آخری عشرہ میں داخل ہونے والا ہوگا۔ یہ یقینا اللہ کا ہم پر فضلِ خاص ہے کہ ہم کو اس بہار تک پہنچایا۔ یہ آخری عشرہ جس میں لیلۃ القدر چھپائی گئی، ہم کو اس سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔ بہت مبارک باد کے مستحق ہیں وہ، جو ان لمحات سے استفادے کے لیے کمر کس لیں۔ اور بدنصیب ہیں وہ جو تمنائوں اور آرزوئوں کے ریشم میں الجھ کر ان قیمتی لمحات کو ضائع کردیں۔
خواتین کے لیے تو خصوصاً یہ بات بڑی اہم ہے کہ وہ اپنے لباس کے تنوع، سجاوٹ اور ذائقوں کی بہاروں میں اپنے آپ کو کچھ اس طرح نہ الجھا لیں کہ راتوں کو جاگ کر عبادت ان کے لیے مشکل ہوجائے۔ اگرچہ پورے رمضان اللہ کی رحمتوں اور بخششوں کی بھرپور بارش ہوتی ہے، اللہ کی عطا کا سمندر جوش میں ہوتا ہے، لیکن آخری عشرہ گویا ’’لوٹ سیل‘‘ لگی ہوتی ہے۔ اس عشرے کا ایک ایک دن ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور رضا کی طلب، اور آتشِ دوزخ سے نجات کی لگن اور فکر اس عشرے کی عبادت میں ذوق و شوق کا رنگ بھر دے گی۔ رنگ بھی خونِ جگر کا رنگ… راتوں کو رب کے حضور الحا و زاری سے دعائیں اور تہجد کے نفل، اور دن کو قرآن، حدیث اور سیرت کی صحبت میں غور و فکر اور عمل کے نکات طے کرنا۔ پھر گھر کے کام اور ذمے داریوں سے بھی نمٹنا۔ بچوں کی دیکھ بھال اور توجہ، اُن کی تربیت کے لیے کاوش ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔
خواتین کے لیے ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ وہ دن اور رات کے کچھ حصے میں نفلی اعتکاف کی نیت کرسکتی ہیں۔ اعتکاف کی تین قسمیں ہوتی ہیں: ایک واجب، دوسری سنت، اور تیسری نفل۔ واجب اعتکاف کسی منت یا نذر کے لیے ہوتا ہے، جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروںگا۔ اب اُس کے لیے اتنے دن اعتکاف میں بیٹھنا واجب ہے۔ اور سنت اعتکاف وہی ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے۔ نفلی اعتکاف کے لیے دن اور وقت کی قید نہیں۔ امام محمدؒ کے نزدیک کم سے کم اعتکاف یہ ہے کہ جب کوئی شخص مسجد میں نماز کے لیے داخل ہو تو اس نماز تک ہی اعتکاف کرلیا کرے، کیونکہ جب بندہ نماز کے لیے جاتا ہے تو وہ اللہ کے گھر میں اپنے آپ کو اللہ کے حضور پیش کردیتا ہے۔
ابنِ قیمؒ فرماتے ہیں کہ اعتکاف کا اصل مقصد روح اور دل کو خدا کی پاک ذات سے وابستہ کرنا ہے، پس جب بھی موقع ملے تو فرض اور نفلی عبادات کے اوقات میں نفلی اعتکاف کی نیت کرکے پورے انہماک سے اللہ کی طرف رجوع کرلینا بے حد و بے شمار نیکیوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔
معتکف کے لیے لکھی جانے والی نیکیوں کا کوئی شمار نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا کہ اعتکاف کرنے والا چونکہ (اعتکاف کے زمانے میں) گناہوں سے رکا رہتا ہے اس لیے اُس کے حق میں وہ تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اُس شخص کے حق میں لکھی جاتی ہیں جو تمام نیکیوں پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)
دعا عبادت کا مغز ہے، لہٰذا خوب دعائیں مانگیں اپنے لیے اور سارے مسلمانوں اور امتِ مسلمہ کے لیے… پیارے ہم وطنوں کے لیے، اپنے پیارے ملک پاکستان کے لیے۔ یقینا اللہ دعائیں سننے اور قبول کرنے والا ہے۔
یہ اللہ کا فضل ہی تھا کہ جس نے ہم کو نیکیوں کی بہار والے اس مہینے تک پہنچایا، ورنہ ہم میں کتنے ہی ایسے تھے جو ان ساعتوں سے قبل اپنے رب کے حضور پہنچ چکے، اور نہ معلوم کتنے ایسے ہوں گے کہ جن کے لیے بہار کا یہ موسم آخری لکھ دیا گیا ہوگا۔ لہٰذا جاتے موسم کے یہ دن ہم سب کے لیے نہایت اہم ہیں۔
یقین جانیں جتنی اچھی تیاری آپ نے کی، اتنی ہی اچھی فصل آپ کا نصیب بنے گی، ورنہ محض کھانے اور نیند سے محرومی لکھ دی جائے گی، اور اس کی جانچ عید کی رات سے ہی شروع ہوجائے گی کہ آپ نے تقویٰ کے بیج پتھریلی چٹانوں پر پھیلی مٹی کی تہ میں بوئے ہیں، یا سطح مرتفع کے زرخیز میدانوں میں… پتھریلی چٹانوں پر پڑی مٹی تو ہلکی سی آزمائشی بارش پر آپ کے بیجوں کو لے کر بہہ جائے گی اور ہاتھ خالی کے خالی رہ جائیں گے۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں یعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں رات میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)
لیلۃ القدر کی تلاش میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپؐ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبریل امین ملائکہ کے جھرمٹ میں اترتے ہیں اور ہر اُس بندے کے لیے دعا کرتے ہیں جو اُس وقت کھڑا ہو یا بیٹھا ہوا اللہ کا ذکر کررہا ہو۔ (بیہقی)
لیلۃ القدر کی تلاش کی کٹھن محنت کے بعد عیدالفطر کی رات آتی ہے۔ اس کا نام آسمانوں پر ’’یوم الجائزہ‘‘ (انعام کی رات) لیا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو زمین پر بھیجتے ہیں۔ وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوکر ایسی آواز سے پکارتے ہیں جس کو انسان اور جنّات کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے ’’اے محمدؐ کی امت! اُس اللہ کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا قصور معاف کرنے والا ہے‘‘۔ اور جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں ’’کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟‘‘
وہ عرض کرتے ہیں ’’اے ہمارے مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے‘‘۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا فرما دی‘‘۔ اور بندوں سے خطاب کرتا ہے ’’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت و جلال کی قسم آج کے دن اپنے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر رکھوں گا۔ میری عزت کی قسم جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کو معاف کرتا رہوں گا۔ میری عزت اور جلال کی قسم تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ تم نے مجھ کو راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عیدالفطر کے دن ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ)
لہٰذا نگاہ منزل کی طرف اور قدم صراطِ مستقیم پر آگے ہی پڑنا چاہئیں۔ ٹھٹھک کر رک جانا یا پیچھے پلٹنا مایوس لوگوں کا عمل ہے۔ نہ کمال مطلوب ہے، نہ عمل کی تکمیل۔ صرف اور صرف اخلاصِ نیت کے ساتھ سعی اور جدوجہد پر ہی اجر کا پکا وعدہ ہے ’’جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنا چاہیے اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی کوششوں کو پوری قدردانی سے نوازا جائے گا‘‘ (سورہ بنی اسرائیل)۔ اللہ ہم سب کو باعمل مسلمان بنائے اور رمضان المبارک کی اِن جاتی ساعتوں سے بہترین استفادے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ