لال جوڑا

491

شگفتہ جیلانی امروہوی
فیکٹری سے گھر لوٹتے ہوئے رشید بہت خوش تھا جیسے کوئی لاٹری نکل آئی ہو۔ اس نے گھر میں قدم رکھتے ہوئے سب کو زوردار سلام کیا… بیوی بچے حیران کہ جس کی آواز میں ہمیشہ دھیرج نقاہت کی حد تک پائی گئی، آج طاقت کیسے پیدا ہوئی! صابرہ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا ’’شیدے آج تو تُو بڑا خوش نظر آرہا ہے، کیا بات ہے۔‘‘
’’ہاں تو بات ہی ایسی ہے، تُو بھی سنے گی ناں تو ناچنے لگے گی۔‘‘
’’ہائے اللہ شیدے بتاتا کیوں نہیں…؟‘‘ صابرہ کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ شیدا بولا ’’ارے خوش بخت تیری دعائیں قبول ہورہی ہیں، تُو نے کہا تھا ناں کہ تیرا دل چاہ رہا ہے لال جوڑا پہننے کو، بس بنا لینا…‘‘
’’سچی…!‘‘ صابرہ کو یقین نہیں آرہا تھا۔
صابرہ اور رشید بچوں کے سونے کے بعد گھنٹوں گھریلو مسائل پر بات چیت کیا کرتے، مگر مسائل جوں کے توں ہی تھے۔ عید کی آمد میں دن کم رہ گئے تھے اور گھر کے کسی فرد کے کپڑے، جوتے نہیں بنے تھے۔ بچوں کی فیس، چھوٹے بچے کا اسکول میں داخلہ، زرینہ خالہ کا قرضہ، گھر کی دگرگوں حالت صابرہ کو رات بھر سونے نہیں دیتی تھی۔ گھر میں ٹوٹا ہوا بانوں کا پلنگ برسوں سے صحن میں بُننے کے انتظار میں پڑا تھا۔ صابرہ کو فکر رہتی کہ زبیدہ جوان ہے، کل کلاں کو رشتہ آیا تو مہمانوں کو کہاں بٹھائیں گے؟ اور عید بھی قریب آرہی تھی۔ بس ایک دری تھی جس پر گھر بھر کا اٹھنا بیٹھنا اور سونا رہتا، اللہ اللہ خیر صلاّ۔
آج ماں باپ کی غیر معمولی خوشی دیکھ کر بچے محظوظ ہورہے تھے۔ رشید نے چھوٹے کو اپنی گود میں بھرتے ہوئے کہا ’’میرا بیٹا شلوار کرتا پہنے گا عید پر…‘‘ بلو بھی قریب آگئی، بولی ’’ابا میرے کپڑے؟‘‘ زبیدہ، نصیر اور بشیر سب نے ابا کو گھیر لیا ’’ابا میرا جوڑا، ابا میرا جوتا، ابا میری فیس…‘‘ رشید نے سب کو اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا ’’میرے شہزادوں کے نئے اور بہترین کپڑے بنیں گے اب کی عید پر‘‘۔ رشید کی سب سے بڑی بیٹی بولی ’’ابا یہ تم اتنے خوش کیوں ہو، اور ہمارے کپڑے جوتے کس طرح بنیں گے؟‘‘
’’ارے سیٹھ نے تمام مزدوروں کو اب کی عید پر بونس دینے کا اعلان کیا ہے، کیونکہ ان مزدوروں سے ہی تو اُن کی فیکٹری کا پہیہ چلتا ہے بھلے مزدور کا ہاتھ کٹے یا پیر۔ دیکھ، تیرے باپ کی یہ دو انگلیاں بھی تو اسی فیکٹری کی مشین میں آگئی تھیں مگر پہیہ نہیں رکنے دیا تیرے باپ نے۔ بونس ہمارا حق ہے۔‘‘
صابرہ بولی ’’سچی میں بونس دینے کا اعلان کردیا سیٹھ نے؟‘‘
’’ہاں ہاں، قسم اللہ کی…‘‘ گھر والوں کی عید تو آج ہی ہوگئی تھی، سب کے چہرے دمکنے لگے۔ صابرہ اچانک بولی ’’پر عید کے دن تو کم رہ گئے ہیں، درزن کپڑے نہیں لے گی سینے کو۔‘‘
’’ارے چھوڑ اپنی درزن کو، سب کے سلے سلائے کپڑے خرید لیں گے ہم‘‘۔ یہ سنتے ہی سب پر خوشی کی برسات برسنے لگی۔ سب ہاتھ اٹھا کر سیٹھ کو دعائیں دینے لگے۔ ’’پر بونس ملے گا کب؟‘‘ صابرہ نے شیدے کا کندھا ہلایا۔
’’فکر کیوں کرتی ہے، عید سے ایک دن پہلے بھی ملا تو سب چیزیں بنی بنائی لے لیں گے… سب کو بازار کی سیر کرائوں گا، چھولے کی چاٹ بھی کھلا دوں گا‘‘۔ بچوں کے چہروں پر خوشی کی چمک نمایاں نظر آرہی تھی۔ صابرہ حسبِ عادت فکرمند ہوتے ہوئے بولی ’’کیا کھانا بھی؟‘‘
’’بس تُو چپ کر جا، سب ہوجائے گا‘‘۔ شیدا اطمینان سے بولا۔ ’’میٹھا جو بنانا ہے ناں… مٹھائی کا ڈبہ آجائے گا… بس تُو بے فکر ہو کے سو جا۔‘‘
آج صبح سے صابرہ گھر کی صفائی میں لگی ہوئی تھی۔ خوشی تھی کہ گھر کے درودیوار سے چھلکی پڑتی تھی۔ ان سب دنوں کا خرچا بھی صابرہ اپنی ماں سے لے آئی تھی کہ بونس پر لوٹا دے گی۔
آج خیر سے ستائیسویں شب تھی۔ عبادت سے فارغ ہوکر صابرہ نے کہا ’’آج تو مل جائے گا ناں بونس؟‘‘
’’ہاں ہاں… ان شاء اللہ مل جائے گا، میں اکیلا تھوڑی ہوں، میرے ساتھ اور بھی لوگ ہیں جن کی آس لگی ہوئی ہے بونس پر۔ سلیمان بابا کا اکلوتا بیٹا اسپتال میں ہے، عبداللہ چاچا کا سامان مالک مکان باہر نکال دے گا اگر اس کو دو ماہ کا کرایہ نہ ملا۔‘‘
صبح صبح رشید تیار ہوکر خوشی خوشی صابرہ سے بولا ’’دیکھ اب کے عید پر لال جوڑا بنانا، بڑی سندر لگتی ہے تُو لال جوڑے میں۔ اور ہاں چوڑیاں بھی لال ہی لینا، اور دیکھ سرمہ اور ہونٹوں کی لالی نہ بھول نہ جانا‘‘۔ صابرہ شرمائی اور بولی ’’یہ سب تو میں نے پہلے ہی سوچا ہوا ہے۔‘‘
صابرہ اور بچے شیدے کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ ہر آہٹ پر صابرہ چونک جاتی۔ پھر دروازے پر دستک ہوئی، سب کی نظریں دروازے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ رشید منہ لٹکائے من من بھر کے قدموں کے ساتھ چلتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔ گویا سب کچھ ہارا ہوا جواری ہو جیسے۔ زمین پر بچھی ہوئی چادر پر بیٹھ گیا۔ صابرہ پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بولی ’’شیدے کیا بات ہے تُو پریشان لگ رہا ہے…‘‘
’’وہ… وہ… بونس…‘‘ رشید کے حلق میں جیسے الفاظ پھنس گئے ہوں۔‘‘
’’کیا جیب کٹ گئی…؟‘‘ صابرہ بولی۔
’’نہیں… نہیں وہ بس سیٹھ کا ایک سائن رہتا تھا پھر بونس مل جاتا، مگر سیٹھ…‘‘… ’’کیا ہوا سیٹھ کو… مر گیا سیٹھ؟‘‘ صابرہ پریشان ہوتے ہوئے بولی۔
’’نہیں نہیں اللہ اس کی زندگی دراز کرے، بڑا نیک ہے، عمرے پر چلا گیا۔‘‘

حصہ