سوشل میڈیا پر ’عظیم‘ سیاسی بصیرت کی دھجیاں

557

پاکستان میں معروف مزاحیہ میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی جانب سے اپنی رمضان نشریات میں کی گئی حرکت پر اُن کے خوب لتے لیے گئے۔ ویسے ہی رمضان نشریات پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں سماجی میڈیا پر خوب شور ہوچکا تھا۔ اب عامر لیاقت نے نام نہاد اور زبردستی کے ’’عشقِ رسولؐ‘‘ کو جذباتی طور پر بنیاد بناکر جو کچھ کیا اُس کے کلپس وائرل ہوچکے۔ پھر مولانا خلیل کا جواب بھی سامنے آگیا، ساتھ ہی عالمی مبلغِ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کے چاہنے والوں نے بھی وضاحت اَپ لوڈ کردی۔ ادھر عامر لیاقت کے چاہنے والے بھی میدان میں الٹی سیدھی دلیلیں دیتے نظر آئے۔ اس پر پیمرا نے خوب ایکشن لیا اور بروقت اقدام اُٹھاکر رمضان کی نشریات میں ’مذہبی معاملے پر ڈراما‘ کرنے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے تناظر میں عامر لیاقت پر پابندی لگا دی۔ اس جرأت مندانہ، درست فیصلے پر پیمرا حکام نے سماجی میڈیا میں عوامی اکثریت سے خوب داد سمیٹی، کئی لوگوں نے وی لاگس بناکر شیئر کیے اور بھرپور جذبات کا اظہار کیا۔ دو دن بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا کی جانب سے عامر لیاقت پر شو کی میزبانی کی پابندی کو کالعدم قرار دے دیا اور پھر موصوف موضوع بن گئے۔شام کووہ ٹی وی اسکرین پر بطور مہمان بیٹھ کرناموسِ رسالتؐ سے اپنے گہرے تعلق اور واقعے پر اپنی وضاحت پیش کرتے نظر آئے۔ مگر ایک سوال کا جواب نہیں دے سکے جو سماجی میڈیا پر خاصا وائرل ہوا۔ سینئر صحافی و تجزیہ نگار طارق حبیب نے ٹوئٹر وال پر ’ربوہ ٹائمز‘ کا وہ اسکرین شاٹ شیئر کیا جس میں بتایا گیا کہ ’عامر لیاقت بہروپیا برطانوی ویزے کے لیے ختمِ نبوت کے بیان سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے قادیانی مرتدوں کے خلاف بات کی مگر برطانیہ کی جانب سے اس بیان پر ویزہ پابندی لگادی گئی۔ عامر لیاقت نے ویزہ پابندی ہٹوانے کے لیے قادیانی مرتدوں سے معافی مانگی جسے قادیانی مرتدوں نے اپنے میڈیا پر بھی پھیلایا۔‘‘
منہ کے فائر پر مبنی ایسا ہی کچھ منظرنامہ اگلے دن امریکا میں سامنے یا، جس نے سماجی میڈیا پر عالمی سطح پر نمایاں جگہ بنائی۔ فرق یہ تھا کہ یہاں میزبان نے معافی مانگ لی، مگر ڈاکٹر عامر لیاقت کی جانب سے ایسا کچھ نہیں سامنے آیا۔ بہرحال ہوا یہ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کو امریکا کے مشہور ٹی وی چینل ٹی بی ایس میں ایک ٹی وی شو میں مدعو کیا گیا۔ شو کی میزبان مقامی مزاحیہ اداکارہ سمانتھا بی تھیں جو ٹرمپ حکومت پر طنز و مزاح کے انداز میں تنقید کرنے کی بھی شہرت رکھتی ہیں۔ شو جاری تھا، بات سے بات نکلی اور ایک ایسے موضوع پر آئی جو امریکا میں اِس وقت خاصا اہم موضوع بنا ہوا تھا۔ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر غیر قانونی طور پر آنے والوں کو گرفتار کرنے کے عمل میں سیکڑوں بچے اپنے والدین سے الگ ہوگئے ہیں۔ بچوں کو جیل میں نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے ہجرت کرنے والے والدین سے الگ کرکے اُنہیں واپس سرحد پار لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس پر خاصی بحث بھی جاری ہے کیونکہ یہ بات کئی بار سماجی میڈیا پر کہی جا چکی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے میکسیکو اور مسلمان سخت اذیت کا باعث ہیں۔ بہرحال شو میں واپس آتے ہیں، ہوا یہ کہ میزبان کے مطابق مہمان یعنی ٹرمپ کی بیٹی نے اس اہم انسانی موضوع پر کبھی اپنے باپ کو توجہ نہیں دلائی تھی، اِسی میں میزبان کے منہ سے جذبات میں مہمان خاتون کے لیے ایک سخت توہین آمیز گالی (کمنٹ) نکل گئی۔ گالی دینے کے بعد اُنہیں بھی سماجی میڈیا پر سخت ردعمل کا سامنا رہا اور ’سمانتھا بی‘کا ہیش ٹیگ ٹا ٹرینڈ میں داخل ہوگیا۔ امریکی صدر کی بیٹی کے دفاع میں وائٹ ہاؤس بھی بول پڑا، ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین بھی سمانتھا کی حمایت میں آگئے۔ ہیلری کلنٹن کی بیٹی نے صدر کو ماضی یاد دلاتے ہوئے اُس گلوکار کا حوالہ دیا جس نے اُس کی ماں یعنی ہیلری کلنٹن کو بھی ایسی گالی دی تھی۔
یہ ہفتہ اِس تناظر میں بھی اہم رہاکہ اس میں موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ پچھلے تین انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ اتفاق سامنے آتا ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنا دورانیہ مکمل نہیں کر سکا۔ پرویزمشرف کے دور میں ہونے والے الیکشن 2002ء کے نتیجے میں بننے والی پی ایم ایل (ق) کی حکومت کے دوران ظفراللہ خان جمالی ڈیڑھ سال اور پھر شوکت عزیز بقیہ مدت وزیراعظم رہے۔ اسی طرح 2008ء کے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں پہلے یوسف رضا گیلانی اور پھر چار سال بعد راجا پرویزاشرف وزیراعظم بنے بقیہ مدت کے لیے۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں میاں نوازشریف وزیراعظم بنے اور یہ بھی چار سال بعد عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے نتیجے میں فارغ ہوئے اور شاہد خاقان عباسی بقیہ مدت کے لیے وزیراعظم بنے۔گویا کسی دورِ حکومت میں کوئی ایک وزیراعظم پوری مدت کے دوران اپنی سیٹ پر نہیں ٹک سکا۔ گو کہ حکمران جماعت نے ایک ایسا جامع ہیش ٹیگ متعارف کرایا جو صوبائی حکومتوں پر بھی فٹ بیٹھا، وہ تھا #We Promised We Delivered، اردو میں ’’کہا تھا اور کر دکھایا‘‘۔ پی ٹی آئی نے اپنی مخاصمت نکالتے ہوئے #RIPPMLN اور یوم نجات پیش کیا۔
دورِ حکومت مکمل ہونے پر نگراں سیٹ اَپ کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایسے میں جب فاٹا کے انضمام پر ہر جانب خوشیاں تھیں اور مبارک بادیں دی جارہی تھیں، اس حوالے سے سینیٹ انتخاب میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہونے والے معاہدے کا عکس بھی خوب شیئر ہوا جس میں جماعت اسلامی کے ووٹ کے بدلے یہ شق واضح درج تھی۔ فاٹا پر صرف ایک جمعیت علماء اسلام (ف) کا ہی احتجاج جاری تھا جس پر عوام نے متحدہ مجلس عمل کو موضوع بنایا (کیونکہ جے یو آئی مجلس عمل کی صدارت اور یہ انضمام کروانے والی جماعت اسلامی نائب صدارت پر ہے) مگر اس حوالے سے دونوں جماعتوں کا جامع جواب فوراً آگیا جس میں وضاحت کردی گئی کہ مجلس عمل کی جماعتوں اور اتحاد کا اس اختلافِ رائے سے کوئی تعلق نہیں۔
تحریک انصاف نے اپنی ’عظیم سیاسی بصیرت‘ پر مبنی اقدامات سے اپنے آپ کو خبروں کا بھرپور حصہ بنایا۔ اس کا آغاز کراچی کے علاقے ملیر میں مشہور آر سی ڈی گراؤنڈ میں منعقدہ جلسے کی منسوخی سے ہوا۔ تراویح کے بعد رکھے گئے اس جلسے کی حاضری انتہائی کم تھی لیکن سیکورٹی کلیئرنس کے نام پر عمران خان کی بغیر خطاب ایئر پورٹ سے واپسی پر شدید تنقید کی گئی۔ لوگوں نے خوب تصاویر شیئر کرکے سیکورٹی کلیئرنس کے بے تکے بہانے پر تنقید کی۔ ایک سماجی میڈیا کے صارف نے لکھا کہ ’’سیکورٹی کلیئرنس کا مسئلہ تھا تو عوام کو اُس گراؤنڈ میں کیوں خطرے کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑا، اور خود ایئرپورٹ سے ہی بھاگ گئے؟‘‘ بات یہاں ختم نہیں ہوئی، اس کے بعد اگلا مرحلہ نگران وزراء اعلیٰ کے تقرر میں اپنے مشورے کا حصہ ملانے پر ہوا۔ خیبر پختون خوا جہاں خود پی ٹی آئی کی حکومت تھی وہاں منظور آفریدی کے نام پر ’عظیم‘ سیاسی بصیرت کا نمونہ دیکھنے میں آیا۔ ایسی تفصیلی ٹوئٹ سامنے آئیں کہ اس کے بعد خاصا احتجاج سامنے آیا۔ سماجی میڈیا پر اُن کا ماضی بھی کھنگال دیا گیا اور اُن کی رشتے داریوں تک کا سماجی میڈیا پر پوسٹ مارٹم ہوگیا۔ ابھی اس معاملے سے نکلے بھی نہ تھے کہ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کی مشاورت میں پی ٹی آئی کی ’عظیم سیاسی بصیرت‘ مزید کھل کر سامنے آئی۔ پھر یہ بصیرت یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ تحریک انصاف نے ناصر کھوسہ کا نام دے کر واپس لینے پر موصوف کو ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنوا ڈالا۔ سماجی میڈیا پر تواتر سے انہوں نے عوامی ردعمل کو وجہ قرار دیا، مگر اُسی سماجی میڈیا پر تحریک انصاف کی جانب سے عامر لیاقت سمیت دیگر جماعتوں کے معروف کرپٹ اُمیدواران کو شامل کرنے پر آنے والے ردعمل پر کوئی جواب نہیں دے سکے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوئی، ایسا لگا کہ اللہ تعالیٰ خود عوام کو کچھ سمجھانا چاہ رہا ہے۔ عمران خان کو سوشل میڈیا پر اُن کے پرانے لقب یعنی ’یو ٹرن خان‘ سے بھی پکارا گیا۔ ٹوئٹر پر ’ایک اور یوٹرن‘ کا ہیش ٹیگ دو دن تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب سے تعلق رکھنے والے فاروق بندیال نے انٹری مار دی۔ فاروق بندیال کی تحریک انصاف میں شمولیت کی تصویر اور خبر کے بعد سوشل میڈیا پر جو عوامی ردعمل آیا وہ بھی سب نے دیکھا ہوگا۔ چند گھنٹوں میںہی ٹوئٹر پر ’فاروق بندیال‘ بھی ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ الیکٹرانک میڈیا نے بھی اِس حوالے سے اپنے مفادات کے تناظر میں خوب رگڑا لگایا۔ فاروق بندیال کے ماضی کو کرید کر اخباری خبر کے اسکرین شاٹ سامنے لائے گئے۔ موصوف کو جرم ثابت ہونے پر فوجی عدالت سے سزائے موت ہوچکی تھی جو کہ اداکارہ شبنم کی معافی کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ پی ٹی آئی کے چاہنے والے اسے اپنے لیڈر کی ایک کم علمی قرار دیتے رہے۔ ویسے فاروق بندیال کا بھی کیا قصور! انہوں نے جب دیکھا کہ آئین کی دفعہ 62۔63 کے ہوتے ہوئے اُن سے بھی بڑے بڑے کرپٹ، لٹیرے، عدالتی نااہل مجرم بآسانی پاکستان تحریک انصاف یا پی ایس پی کی لانڈری سے پاک صاف ہوکر اسمبلی جانے کے لیے پر تول رہے ہیں تو اُنہیں اپنا کردار تو بہت صاف محسوس ہوا اور انہوں نے بھی رکن اسمبلی بننے کی ٹھان لی۔ معروف صحافی و تجزیہ نگار کامران خان نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ’’ناصر کھوسہ کی بدترین ناکامی، منظور آفریدی پر شرمندگی، ناصر درانی کے بارے میں غلط حساب، فلم اسٹار شبنم کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا مجرم عمران خان کے ساتھ بھرپور مصافحہ کرتے ہوئے۔ میرے پیارے اسد بھائی، جہانگیر بھائی، عارف علوی بھائی، براہِ کرم اس معاملے کو دیکھیں، پاکستان تحریک انصاف کے اندر کچھ بہت برا ہورہا ہے‘‘۔ ٹوئٹر پرعمران خان کی چاہنے والی ایک صارف نے اس طرح لکھا ’’میں قسم کھاتی ہوں کہ یا تو تحریک انصاف کی ریسرچ ٹیم سو رہی ہے، یا انہیں روزہ لگ رہا ہے، یا انہیں بھی لوڈشیڈنگ، گرمی لگ گئی ہے۔ عمران خان صاحب براہِ کرم ایسی ٹیم سے نجات حاصل کریں جسے یہ تک نہیں معلوم کہ فاروق بندیال ایک زانی ہے۔ اس سے نجات پائیں‘‘۔ اسی طرح معروف صحافی حامد میر کا ٹوئٹ سامنے آیا کہ
“Not difficult to investigate just call Shabnam in Dhaka she will tell you that she never left Pakistan after 1971 tragedy she left Pakistan after 1978 when Farooq Bandial and his friends …… Don’t have the courage to write about his crime.”
اس کے بعد فواد چودھری نے ٹوئٹ کیا کہ ’’چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ان اطلاعات کا سخت نوٹس لیا ہے جن کے مطابق ایک سزا یافتہ مجرم تحریک انصاف کا حصہ بنا ہے، نعیم الحق پر مبنی ایک رکنی کمیٹی تین دن میں حقائق چیئرمین کے سامنے رکھے گی، تحریک انصاف کسی صورت اخلاقی معیارات پر سمجھوتا نہیں کرے گی۔‘‘ کچھ دیر بعد آفیشل اعلان کرکے فاروق بندیال کو الگ کردیا گیا۔ یوں اس پورے ہفتے میں عین قومی انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت نے جس بھرپور ’سیاسی بصیرت‘ کا اظہار کیا وہ سب نے دیکھا، سنا، سمجھا اور محسوس بھی کیا۔
اسی طرح ایک اور اہم قومی موضوع سماجی میڈیا کی زینت بنا، وہ تھا ہم سب کی زندگی ’پانی‘ سے متعلق۔ پانی کا بحران کراچی میں تو بری طرح سر اٹھا چکا ہے، کراچی میں واٹر بورڈ مافیا، ٹینکر مافیا اور کرپشن بھی پانی کی کمی کے عوامل میں شامل ہیں، لیکن مجموعی طور پر پاکستان تیزی سے خشک سالی کی جانب گامزن ہے، اگر معاملات سے صرفِ نظر کیا گیا تو جان لیں کہ حکمران تو اپنے جہاز میں بیٹھ کر باہر نکل جائیں گے مگر آپ اور ہم یہاں پانی کو ترستے رہ جائیں گے۔ بھارت کی آبی جارحیت کو انتہائی سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے، وگرنہ آنے والے دنوں میں خدانخواستہ جو صورتِ حال ہوگی اس کے لییکیپ ٹاؤن کے موجودہ منظرنامے کو دیکھ لینا کافی ہے۔ پانی کے موضوع پر جہاں احادیث شیئر کی جارہی ہیں وہیں حکومت کو بھی ڈیم بنانے اور بھارتی جارحیت کے خلاف کمر کسنے پر زور دیا جارہا ہے۔

حصہ