جیل کہانی، بیٹی کا قتل

735

قدسیہ ملک
اسلام میں داخل ہونے والے ہر انسان کے حقوق و فرائض کتاب اللہ اور احادیث کی روشنی میں واضح ہیں۔ جس طرح ماں باپ کے حقوق و فرائض ہیں، اسی طرح اولاد، زوجین، استاد و طالب علم، تمام کے حقوق و فرائض بھی ایک مسلمان کی ذمے داریوں میں شامل ہیں۔ مسلمان کو اپنے تمام رشتے داروں، قرابت داروں اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے وہ تمام حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں جو اس پر فرض کردیے گئے ہیں۔ بدلے میں اسے بھی تمام حقوق دیئے جاتے ہیں۔ اسی باہمی حقوق و فرائض کو ادا کرنے سے ایک اسلامی فلاحی ریاست، ایک اسلامی پُرسکون معاشرہ وجود میں آتاہے، جہاں ہر انسان دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتا ہے اور اپنے آپ کو اللہ کے آگے جوابدہ سمجھتا ہے۔ اس طرح احسن الخالقین والے معیار پر انسان پورا اترتا ہے۔
انسان پر سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہے۔ قرآن میں ارشادِ ربانی ہے:
(ترجمہ) ’’اور تیرے ربّ نے حکم کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی ’’اُف‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا، اور یوں دعا کرتے رہنا کہ ’’اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے‘‘۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرماں بردار اولاد اپنے والدین کی طرف نظرِ شفقت و محبت سے دیکھے تو ہر مرتبہ دیکھنے پر ایک حجِ مقبول کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔ عرض کیا گیا: ’’خواہ سو مرتبہ دیکھے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں! اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑے اور زیادہ پاکیزہ ہیں (ان کے لیے سو حج کا ثواب دینا کیا مشکل ہے)۔‘‘
جو لوگ والدین کی خدمت سے کنارہ کشی کرتے ہیں، وہ بہت ہی بدبخت ہیں، لیکن اس میں کچھ قصور والدین کا بھی ہے، وہ بچوں کو مغربی تعلیم و تربیت دیتے ہیں، دینی تعلیم و تربیت سے محروم رکھتے ہیں، نتیجتاً اولاد بڑی ہوکر مغربی عادات و اطوار کو اپناتی ہے، اور سب جانتے ہیں کہ مغرب میں والدین کی خدمت کا کوئی تصور نہیں۔ اولاد جوان ہوکر خودسر ہوجاتی ہے اور والدین سے ان کا کوئی ربط نہیں رہتا۔
اسی طرح والدین پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں جو اولاد کے حقوق ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ شیر خوارگی سے لڑکپن اور جوانی کے مراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار ہوتی ہے۔ اس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ اولادکے لیے پاک اور حلال غذا کی فراہمی والدین کے ذمے ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ رزقِ حلال کمائیں۔ والدین جھوٹ بولنے کے عادی ہیں تو بچہ بھی جھوٹ بولے گا۔ والدین کی خرابیاں نہ صرف ظاہری طور پر بچے کی شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہیں بلکہ باطنی طور پر بھی اس کے اندر رچ بس جاتی ہیں۔ والدین کے جسم میں گردش کرنے والے خون میں اگر حرام، جھوٹ، فریب، حسد اور دوسری خرابیوں کے جراثیم موجود ہیں تو یہ جراثیم بچے کو بھی وراثت میں ملیں گے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے، اوران کو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکا اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے۔ ان کی امانت کو ادا کیا جائے، ان کو آزاد چھوڑنے اور ان کے حقوق میں کوتاہیوں سے بچا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے، اور آدمی اپنے گھر کا ذمے دار ہے، اُس سے اس کی رعیت کے متعلق بازپرس ہوگی۔ اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کیا جائے جس میں اسراف ہو نہ بخل، کیونکہ اولاد پر خرچ کرنا باپ کی لازمی ذمے داری ہے، اور اس میں اللہ کی نعمت کا شکر بھی ہے۔
اگر اولاد اور والدین اپنے حقوق و فرائض سے نابلد و ناآشنا ہوں تو معاشرے کے انحطاط کوکوئی طاقت نہیں روک سکتی۔کیونکہ معاشر ے کی اکائی اسی رشتے سے استوار ہوتی ہے۔ آج ہم اپنے معاشرے میں جن جرائم کو بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں ان سب کی شروعات بھی اسی خاندان کی اکائی سے ہوتی ہے۔ آج ہمارے اسلامی معاشرے میں بھی اولاد کی تربیت پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی، نتیجتاً معاشرے میں تشدد، بے حسی اور بے رحمی بڑھتی جارہی ہے۔ اب ہمارے اردگرد بھی جابجا ایسے واقعات جنم لے رہے ہیں جن کا تصور بھی اسلامی معاشرے میں نہیں کیا جاتا تھا۔ اور وہی اولاد جوان ہونے پر والدین کے ساتھ ناروا سلوک کی خطاوار ہوتی ہے۔ سماء نیوز کے مطابق تحصیل حسن ابدال میں باپ اورچچا نے سہیلی کے ساتھ پارک جانے پر بیٹی کو زنجیروں میں باندھ کر گھر کے کمرے میں قید کردیا اور دو ماہ تک قید رکھا۔ غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو روز مارپیٹ کرتا رہا۔ بالآخر رشتے داروں کی مدد سے لڑکی بھاگ کر تھانے پہنچ گئی۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے والد اور چچا کو گرفتار کرلیا۔ والدہ بیٹی کو کمرے سے نکالنا چاہتی تھی لیکن ڈر کے مارے خاموش رہی۔ بینش کو دارالامان منتقل کردیا گیا۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ گوجرانوالہ میں پیش آیا۔ گوجرانوالہ کے علاقے تھانہ قلعہ دیدار سنگھ کے گائوں گڑھا میں بھائی نے 17 سالہ بہن اور 100 سالہ دادی کو فائرنگ اور تشدد کرکے قتل کردیا جبکہ ملزم کی دوسری بہن زخمی ہوگئی جس کو تشویش ناک حالت میں اسپتال داخل کرادیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق ملزم سفیان نے گھریلو ناچاقی کے باعث اپنی 17 سالہ بہن اقرا اور 18 سالہ بہن سدرہ پر ڈنڈوں سے شدید تشدد کیا، بعد ازاں ان پر فائرنگ کردی۔ اسی دوران دادی اپنی پوتیوں کو بچاتے ہوئے فائرنگ کی زد میں آگئی جس کے نتیجے میں دادی پوتی دونوں جاں بحق ہوگئیں، جبکہ ملزم کی 18 سالہ بہن سدرہ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں اس کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس فوراً موقع پر پہنچ گئی، تاہم ملزم سفیان واردات کے بعد فرار ہوگیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے بہنوں پر فائرنگ کی جنہیں بچاتے ہوئے دادی زد میں آگئی اور ہلاک ہوگئی۔ پولیس نے دہرے قتل کا مقدمہ درج کرکے تفتیش کا آغاز کردیا ہے جب کہ ملزم کی تلاش کا عمل جاری ہے۔
آج کی ہماری جیل کہانی بھی ایسے ہی ایک قصے کو بیان کررہی ہے جس میں ایک جواں سالہ بیٹی کو ماں اور بھائیوں نے مل کر محض اس لیے مارڈالا تاکہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے محلے داروں، عزیز و اقارب اور پولیس کو آگاہ نہ کرسکے۔ جب ہم جیل گئے تو پتا چلا کہ یہاں ایک ساس بہو قتل کے کیس میں آئی ہیں۔ ساس کو سزا ہوگئی مگر بہو کو ابھی سزا نہیں ہوئی ہے۔ جب بوڑھی اماں (جو مقتولہ کی والدہ تھی) سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا؟ تو کہنے لگی کہ اس کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا، میرے بیٹوں نے اسے بہت سمجھایا، وہ نہ مانی، بلکہ کہنے لگی کہ تم سب کی شکایت تھانے میں کروں گی۔ اسی میں ہاتھا پائی ہوئی اور وہ مرگئی۔ مرگئی کہنا جتنا آسان تھا، مارنا اتناآسان نہ تھا۔ وہ قتل کی سنگینی کو بیٹے کی محبت کے آگے سمجھ ہی نہیں پارہی تھی۔ کسی انسانی جان کو محض اس لیے مار دیا گیا تھا کہ وہ پولیس میں جاکر شکایتیں نہ لگائے۔ ایک پورا گھرانا اپنے ہی مکینوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگیا تھا۔ جب ہم اماں کی بہو سے ملے تو وہ بہت بری طرح رو رہی تھی، کہنے لگی: اماں نے تو مجھے اور میرے شوہر کو9 سال پہلے ہی جائداد کے تنازعے پر گھر سے نکال دیا تھا، اب ان کا ایک بیٹا اور وہ مقتول بیٹی ان کے ساتھ رہتے تھے۔ اہلِ محلہ نے بتایا کہ قتل والے روز یہ دونوں ماں بیٹا، بیٹی کے خون میں لت پت گھر سے باہر نکلے تھے۔ بیٹا تو موقع پر ہی فرار ہوگیا اور پولیس اماں کو پکڑکر تھانے لے آئے۔ لیکن مجھے پتا نہیں کیوں پکڑلیا۔ یہ کہہ کر اماں کی بہو دھاڑیں مارمار کر رونے لگی۔کہنے لگی: میرے تین بچے پتا نہیں کس حال میں ہوں گے۔ میرے بے گناہ شوہر کو بھی پولیس نے جیل میں بند کردیا۔ جب ہم نے اس بات کا تذکرہ سینئر ایس ایس پی شیبا شاہ سے کیا تو کچھ حیران کن حقائق ہمارے سامنے آئے۔ شیبا شاہ کے مطابق بہو اور بیٹے نے قتل کی رات قاتل ماں بیٹے کو اپنے گھر میں پناہ دی تھی، اور انہیں قاتل کے سہولت کار بننے کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانی پڑرہی ہے۔ جب ہم نے ان کی بہو سے اس بابت استفسار کیا تو وہ تھوڑی گڑبڑا سی گئی اور بولی: لیکن ہم نے تو قتل نہیں کیا، نہ ہمیں بتایا گیا کہ یہ لوگ برابر کے شریک نہیں تھے۔ لیکن قتل کے بعد ماں بیٹے نے جائداد کا لالچ دے کر انہیں اپنے ساتھ ملالیا جس کی وجہ سے وہ بھی اس جرم میں شریک ہیں۔ بات تو درست تھی۔ لیکن بہو کو کون سمجھاتا کہ اس نے بھی غلط کام کیا ہے۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے اس کی کونسلنگ کی گئی اور بتایا گیا کہ قتل میں وہ بھی برابر کا شریک مانا جاتا ہے جو قاتل کی مدد کرے۔ اسے توبہ کرنے کی طرف راغب کیا گیا۔ اسے بتایا گیا کہ تھوڑے سے دنیاوی لالچ کی خاطر دین و دنیا دونوں سے ہاتھ دھونے سے بہتر ہے کہ تم توبہ کرو، اللہ اپنے بندے کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماں کی بھی کونسلنگ کی گئی کہ اولاد بھلے کتنی ہی نافرمان کیوں نہ ہو، والدین اسے قتل نہیں کرسکتے۔ ماں کو توبہ کی جانب مائل کیا گیا۔ قتل جس بھائی نے کیا وہ ابھی تک مفرور ہے، اس کی تلاش جاری ہے۔ پولیس کی جانب سے والد اور بھائی دونوں کو تلاش کیا جارہا ہے، جس کے بعد امید کی جاتی ہے کہ مزید حقائق سامنے آسکیں گے۔

حصہ