بچوں کیلیے لکھنا بچوں کا کھیل نہیں

2284

محمد طارق خان
بچوں کے ادب پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن ہم مجموعی طور پر اپنے تحقیقی مقالوں کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بچوں کے ادب کا اس طرح جائزہ نہیں لیا گیا جیسا کہ لینا چاہیے تھا۔ بہت کم محققین نے اس میدان میں اپنی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے بچوں کے ادب میں کچھ نئے زاویے، رجحانات پر نظر ڈالی ہے۔ ہمیں ایک شکوہ یہ بھی رہتا ہے کہ بچوں کے ادب میں نئے تجربات کی طرف توجہ نہیں دی جارہی جیسی مغرب میں دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ وہاں بچوں کا ادب باقاعدہ تصنیف ہوتا ہے۔ اس کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے، جس کی بنا پر وہاں بچوں کا ادب روز افزوں ترقی کررہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے اندر اردو زبان میں بچوں کا جو ادب پیش کیا گیا ہے۔ اس کا گاہے بگاہے جائزہ بھی لیا جاتا رہا ہے۔ ہم ذرا پیچھے کی جانب جاتے ہوئے 1970ء میں پہنچتے ہیں۔ یہاں ہمیں ’اردو میں بچوں کا اداب‘ لیے محمود الرحمن کھڑے نظر آتے ہیں۔اُنھوں نے اس موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ پیش کیا، یہ مقالہ ۱۹۷۰ء میں نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ نے کراچی سے شائع کیا۔
اس کتاب کے چار حصے ہیں۔پہلے حصے اور دوسرے حصے میں تین باب ہیں جبکہ تیسرے حصے میں چار باب ہیں، آخری اور چوتھا حصہ دو ابواب پر مشتمل ہے۔ آخر میں کتابیات کی فہرست کے ساتھ ساتھ اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔
حصہ اول کے پہلے باب میں بچوں کے ادب کا تعارف و تاریخ بیان کی گئی ہے۔ بچوں کے ادب کے تعارف میں پہلے بچوں کی نفسیات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ بچے تجسس کا پیکر ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے کے بچوں میں چند مشابہتیں ہوتی ہیں، وہ ہر نئی انوکھی اور عجیب شے کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس چیز میں بھی اُنھیں حیرت انگیز صفات نظر آتی ہیں ان سے وہ قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنے جذبے کی تسکین چاہتے ہیں۔ہمارے ہاں مغرب نے حیرت انگیز صفات پر مشتمل کئی کردار متعارف کروائے ہیں۔ سپرمین، بیٹ مین، اسپائیڈر مین وغیرہ… ان کرداروں سے بچوں کی دلچسپی جنون کی حد تک ہے۔ ان کرداروں کو دیکھنے والا چاہے امریکا میں رہتا ہو یا پاکستان میں… اسے ان کرداروں سے محبت ہوتی ہے۔
بچوں کے تعارف کے بعد بچوں کے ادب کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس تاریخ کا آغاز وہاں سے کیا گیا ہے جب لوگ روز آپس میں بیٹھ کر روز مرہ کے واقعات کا اظہار دلنشین انداز میں کیا کرتے تھے۔ ان کے مخاطبین ویسے تو بڑی عمر کے افراد ہوتے تھے لیکن ان محفلوں میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شریک ہوتی تھی، یہ واقعات اور قصے وہ دلچسپی سے سنتے اور ساری عمر ان واقعات سے محظوظ ہوتے تھے۔ بچوں کے ادب کا تعلق لوک کہانیوں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ ایسپ کی کہانیاں آج بھی اسی طرح تازہ بہ تازہ ہیں، جیسے صدیوں پہلے تھیں۔
بچوں کے ادب کی تاریخ میں حکیم لقمان، شیخ سعدی، سنسکرت کی مشہور کتاب پنج تانترا، الف لیلیٰ کا تذکرہ ملتا ہے۔ محمود الرحمن کا خیال ہے کہ بچوں کے ادب کا صحیح معنوں میں آغاز مشرقی ممالک میں ہوا۔
اس حصے میں روسو اور جان لاک کے تعلیمی نظریات کا بھی ذکر ہے جنھوں نے بچوں کے علم و ادب میں عظیم انقلاب پیدا کیا۔ دوسرے باب میں بچوں کے ادب کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں، آغاز الیاس احمد مجیبی کے اس قول سے کیا گیا تھا۔ ’’بچوں کے واسطے لکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘
اس سلسلے میں موضوع کے انتخاب پر بحث کرتے ہوئے عمر کے لحاظ سے تقسیم کی گئی ہے۔ چھوٹے بچے عموماً جانوروں سے مانوس ہوتے ہیں اور اُنھیں پسند کرتے ہیں اس لیے ابتدا میں بچوں کے لیے کہانیوں کے موضوعات انہی چیزوں کے گرد گھومنے چاہیے۔
لیکن یہ ضروری نہیںہے، اس میں ہمیں اعتدال کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ انسانوں کو بھی کردار کی شکل میں ڈھال کر اچھی کہانیاں لکھوائی جاسکتی ہیں، ہم نے جب بچوں کے رسالے جگمگ تارے کا آغاز کیا تو ابتدا میں تمام لکھنے والوں نے جانوروں کو ہی موضوع بنا کر کہانیاں لکھیں۔ اس کی وجہ سے رسالہ یکسانیت کا شکار ہونے لگا۔ پھر جان بوجھ کر ایسی کہانیاں لکھوائی گئیں جس میں کردار انسان ہی رکھے گئے۔
الفاظ اور انداز بیان کے ضمن میں محمود الرحمن سادہ اور آسان الفاظ کے استعمال پر زور دینے ولے نقادوں سے اختلاف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ہمارے نقاد شاید الفاظ کی اہمیت سے آگاہ نہیں، ادب اطفال کے لیے آسان الفاظ کی شرط قائم کردی جائے تو اس سے بچوں کی ذہنی نشو و نما رک جانے کا احتمال ہے۔ کیوں کہ اس شرط کو پوری کرنے کے لیے ہم وہی الفاظ کھپانے کی کوشش کریں گے جنھیں بچے جانتے ہیں۔ جن سے ان کی شناسائی ہے اور اس طرح ہم انھیں نئے نئے الفاظ اور ان کی افادیت سے محروم کردیں گے۔‘‘
یہ بات محمود الرحمن کی کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن اس میں ہمیں یہ احتیاط بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ مشکل الفاظ ایک حد تک ہو اور مشکل الفاظ کے معنی بھی آخر میں دیے جائیں تو بچے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں گے۔
تصاویر کا استعمال بچوں کے ادب میں بہت اہم اور ضروری ہے۔ بغیر تصاویر کے بچوں کا ادب بچوں کا ادب نہیں لگتا۔ تصاویر کے بغیر کہانیاں بچوں کو کسی طرح نہیں بہلاسکتیں۔ اگر بچوں کو کہانیوں کی طرف راغب کرنا ہے تو اس کے لیے تصاویر بہت ضروری ہیں۔ اسی طرح طباعت اور کتابت بھی عمدہ اور دلکش ہونی چاہیے، جسے دیکھ کر بچے کتاب کی طرف راغب ہوسکیں۔
تیسرے باب میں انگریزی میں بچوں کے ادب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انگریزی میں بچوں کا ادب اتنا وسیع ہے کہ اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی دوسری زبان نہیں کرسکتی۔ ہر سن و سال کے بچوں کے لیے عمدہ، دلچسپ اور کار آمد کتب مل جاتے ہیں۔ ان کی شکل، ان کتابت و طباعت، ان کی جلد بندی اور ان کی تصاویر اس درجہ دلآویز اور دلکش ہوتی ہیں کہ بچوں کا دامن خود بخود ان کی طرف کھینچ جاتا ہے۔‘‘
اُنھوں نے انگریزی ادب میں اچھا اور عمدہ لکھنے والوں میں لیوس کیرول، این ایویل، چارلس ڈکنز، اولیور گولڈ اسمتھ، ڈینیل ڈیفو، ولیم بلیک، ورڈزورتھ، کرسچین اینڈرمن، جان بنینن، اگاتھا کرسٹی، اینیڈ بلیٹن، مسز ڈاج، سینٹ نکولس کا ذکر کیا۔
حصہ دوم کے باب اول میں اردو میں بچوں کے ادب کا ابتدائی دور کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہیں۔ اردو میں بچوں کے ادب کا آغاز نویںصدی ہجری میں ہوچکا تھا۔ دکن میں صوفیاے کرام نے طالب علموں اور عام لوگوں کے لیے جو چھوٹے چھوٹے رسائل لکھے تھے، ان ہی سے ادب الاطفال کا آغاز ہوتا ہے۔
خالق باری کسی کی تصنیف ہے اس سے قطعی نظر… خالق باری ایک عرصے تک بچوں کے نصاب میں شامل رہی، خالق باری کی تتبع میں بارھویں اور تیرھویں صدی ہجری میں رازق کی باری، حامد باری، ایزد باری، واحد باری، حمد باری، بالک باری اور قادر نامہ مرزا غالب شائع ہوئیں۔ باب دوم میں ’قدیم دور کے دو فنکار‘ کے نام سے نظیر اکبر آبادی اور غالب کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔
نظیر اکبر آبادی کی کلیات میں ریچھ کا بچہ، گلہری کا بچہ، بلبلوں کی لڑائی، ہنس، طفیلی نامہ، پتنگ بازی، کبوتر بازی اور بلدیو جی کا میلہ دیکھ کر یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ اتنی سادہ اور عام فہم نظمیں چھوٹے بچوں کے لیے ہی لکھی گئی ہیں۔
اسی طرح غالب نے صرف ایک ہی کتاب قادر نامہ لکھی، یہ کتاب اگرچہ اُنھوں نے عارف کے بچوں باقر علی اور حسین علی خان کی تعلیم کے لیے لکھی تھیں لیکن یہ کتاب تصنیف ہونے کے بعد تمام بچوں کی ملکیت ہوگئی تھی۔
تیسرے باب میں انقلاب سے بیسویں صدی تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ محمود الرحمن کے مطابق، انقلاب ۵۷ء کے ہمہ گیر اثرات، سر سید تحریک اور انجمن پنجاب نے اردو کی جملہ اصناف سخن کو متاثر کیا وہیں اثر پذیر ہونے والی اصناف میں بچوں کا ادب بھی شامل تھا۔ مغربی افکر و خیالات نے بچوں کے اردو ادب میں ایک نئے طرز اور اسلوب کا ڈول ڈالا۔ اس کی انفرادیت تسلیم کی گئی۔ اس حصے میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، اسماعیل میرٹھی، نذیر احمد اور سورج بزائن مہر نے بچوں کے ادب کے لیے جو خدمات سرانجام دیں ان کا تفصیلی تذکرہ کیا۔
حصہ سوم کے پہلے باب کا آغاز بیسویں صدی سے کیا گیا ہے۔ اس حصے میں بیسویں صدی کے انقلابات کے اثرات اور بچوں کے ادب پر اثرات کا جائزہ لیتے ہو ئے دوسرے باب میں نظم، تیسرے باب میں کہانی، چوتھے باب میں ناول اور پانچویں باب میں ڈرامے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
بیسویں صدی میں حصہ نظم میں جن شاعروں نے بچوں کے لیے لکھا ان میں علامہ اقبال، حامد اللہ افسر،اسماعیل میرٹھی، شفیع الدین نیر، صوفی غلام تبسم، عشرت رحمانی، قتیل شفائی، ابن انشا، مرزا ادیب، قیوم نظر، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، محشر بدایونی، غلام عباس وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ اسی طرح کہانی کے باب میں ہمیں جو نمایاں نام نظر آتے ہیں ان میں پریم چند، حامد حسن قادری، ڈاکٹر ذاکر حسین، امتیاز علی تاج، اشرف صبوحی، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، حجاب امتیاز علی، راجندر سنگھ بیدی، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، ہاجرہ سرور، رام لال، کمال احمد رضوی، سعید لخت، شفیع عقیل شامل ہیں۔ ان سب نے بچوں کے لیے لکھا اور عمدہ لکھا۔ ان کا بچوں کے لیے لکھا آج بھی دل کو بھاتا ہے۔
ناول کے باب میں محمود الرحمن نے راشد الخیری، کرشن چندر، سراج انور، عشرت رحمانی، انور عنایت اللہ، عزیز اثری، راز یوسفی، نظر زیدی اور لطیف فاروقی کا تذکرہ کیا ہے۔ بچوں کے لیے ناول لکھنا اور اس میں دلچسپ کو برقرار رکھنا ایک مشکل کام ہے، اس لیے کم ہی ادیبوں نے ناول لکھنے کی طرف توجہ دی۔
اسی طرح بچوں کے لیے ڈرامے بھی لکھے گئے۔ ڈرامے کے باب میں پہلے بچے اور ڈرامے کا تعلق واضح کیا گیا۔
محمود الرحمن لکھتے ہیں :’’ بچے شروع ہی سے نقال ہوتے ہیں، وہ دوسروں کو جیسا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں خود بھی ویسا ہی کرنے لگتے ہیں۔ اس میں اِنھیں بڑا مزہ آتا ہے۔ نقالی اور تمثیل کاری کی اس فطرت نے انھیں ڈرامے میں دلچسپی لینے پر آمادہ کیا۔ ‘‘
بچوں کے لیے اردو میں بہت زیادہ ڈرامے تو نہیں لکھے گئے لیکن انھیں کم بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اردو میں امتیاز علی تاج، نور الٰہی محمد عمر، ہر چند اختر، چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر عابد حسین، غلام عباس، مرزا ادیب، عبدالغفار مدھول، اظہر افسر نے متعدد ڈرامے لکھے۔
آخری حصے میں ریڈیائی ادب اور اخبارات و رسائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ حصہ دیگر ابواب کے مقابلے میں کافی کمزور نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ اس موضوع پر مزید تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی تھی۔
تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد ریڈیائی ادب کا جائزہ لیتے ہوئے بچوں کے شعبے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس شعبے کی نگرانی راجہ فاروق علی خان، عبدالماجد مرحوم، افضل صدیقی، ظفر اقبال، فاروق تیموری اور عصمت زہرہ کے نام رہی۔ اُنھوں نے اچھے لکھنے والوں سے متعدد چیزیں لکھوائیں۔
اسی طرح اخبارات و رسائل کا جائزہ لیتے ہوئے ہفتہ وار پھول لاہور، ہفت روزہ غنچہ بجنور، پندرہ روزہ سعید کانپور، ماہنامہ پیام تعلیم دہلی، ماہ نامہ بچوں کی دنیا الہ آباد، ماہنامہ تعلیم و تربیت لاہور ،ماہنامہ ہدایت لاہور، ماہنامہ نونہال دہلی، بچوں کا آج کل دہلی، ماہنامہ بچوں کی دنیا لاہور، ماہنامہ کھلونا دہلی، ماہنامہ بھائی جان کراچی، ماہنامہ ہمدرد نونہال کراچی، ماہنامہ سیارہ کراچی، میرا رسالہ کراچی، ماہنامہ پھلواری لاہور، ماہنامہ پھول دہلی وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان رسائل کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔
اختتام میں محمود الرحمن اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اردو میں بچوں کا ادب اگرچہ اتنا بلند نہیں ہے کہ ہم بلا پس و پیش اسے بچوں کے بین الاقوامی ادب کے سامنے پیش کرسکیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم اس کی حقیقت و اہمیت سے ہی انکار کر بیٹھیں۔ بچوں کے اردو ادب کی پانچ سو سالہ تاریخ اتنی ناقص نہیں کہ اسے بھلا دیا جائے۔
مجموعی طور پر یہ کتاب بچوں کے ادب کا بھرپور اور مربوط جائزہ پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب ۱۹۷۰ء میں نسخ فونٹ میں شائع ہوئی ہے۔
۱۹۷۰ء تک بچوں کے ادب میں جو اختراعات ہوئیں ان کا تفصیلی تذکرہ ہمیں اس کتاب میں ملتا ہے۔ اگرچہ موجودہ دور میں بچوں کے ادب میں انقلابی تبدیلیاں آچکی ہیں اور سائنس و ٹیکنالوجی نے جن نئے رجحانات کو متعارف کروایا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان رجحانات کو بھی تفصیلی طور پر پیش کیا جائے۔

حصہ