بات یہ ہے

441

عبدالرحمٰن مومن
’’ تم لوگ بھی ہمارے ساتھ امریکا کیوں نہیں چلتے؟‘‘ا حمد کے ماموں زاد بھائی یاسر نے کہا۔
’’امریکا میں ایساکیا ہے جو ہماری خوب صورت وادی کشمیر میں نہیں ہے؟‘‘ احمد نے پانی میں سے پاؤں نکالتے ہوئے کہا۔
’’کم از کم دشمن فوج کا خوف تو نہیںلگا رہے گا۔ یہاں تو فوج کا سپاہی جب چاہے تمھیں گولیوں سے چھلنی کردے اور تم پتھر اٹھاتے رہ جاؤ۔‘‘ یاسر نے پانی میں پتھر پھینکتے ہوئے کہا۔
’’تم کیا سمجھتے ہو نیویارک میں تمھیں آزادی حاصل ہے؟ وہاں تمھاری نقل و حرکت پر بظاہر پابندی نہیں ہے لیکن تم پرخوب نظر رکھی جاتی ہے۔‘‘ احمد نے یاسر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یعنی تمھیں گولیوں کے شور میں رہنا ہی اچھا لگتا ہے۔ٹھیک ہے تم اگر یونہی خوف کے سائے میں رہنا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ یاسر نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک کہہ رہے ہو تم مجھے نیویارک کی بڑی بڑی عمارتوں سے اچھا اپنی واد ی کا سبزہ زار لگتا ہے۔ مجھے گولیوںکی جھنکار میں ہی سانس لینا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ میں گولی کے جواب میں اللہ اکبر کہہ کر باطل کی طرف پتھر تو اُچھال سکتا ہوں۔ میرا ایک پتھر مجھے آزادی سے ایک قدم نزدیک کر دیتا ہے۔ باطل کا سامنا کرتے ہوئے اللہ کی وحدت کا کلمہ پڑھنے میں جو مزا مجھے آتا ہے وہ تم نیو یارک میں رہ کر محسوس بھی نہیں کر سکتے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں۔

سُرور جو حق و باطل کی کارزار میںہے
تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے

حصہ