امید کے چیری بلاسم

507

ایمن طارق
(دوسری قسط)
’’نہیں بھائی! بس ابھی تو پانی چلے گا، اور آپ مجھے اتنا مہمان نہ بنایا کریں۔ میں بھی اپنی مدد آپ کرلوں گا۔‘‘ فلور کشن اٹھاتے ہوئے میں نے ایک کونا پکڑا اور نیم دراز سا ہوگیا۔ توقع تھی کہ اب تابڑ توڑ زبانی حملے شروع ہونے کو ہیں اور ہنسی مذاق کے نہ ختم ہونے والے ہفتہ وار سلسلے کا کسی لمحے رخ اب میری طرف ہونے کو ہوگا۔ لیکن کچھ نامانوس سی خاموشی کے احساس نے مجھے سب کے چہروں کا جائزہ لینے پر مجبور کیا۔ ’’کیا ہوا بھائی! خیریت؟ بڑی خاموشی ہے آج؟‘‘
’’تم نے شاید سنا نہیں، اسماعیل صاحب کے بیٹے نے آج خودکشی کی کوشش کی ہے، اسپتال میں ہے وہ، ICU میں، اور اسماعیل صاحب کی اہلیہ کو اس اچانک حادثے سے اسٹروک ہوا ہے۔ بس یہی بات چل رہی تھی ابھی ہمارے درمیان۔‘‘ عثمان بھائی نے جتنی آسانی سے یہ بتایا مجھے اتنا ہی مشکل لگا اس پر یقین کرنا۔ اسماعیل صاحب ہمارے حلقۂ احباب میں اپنی زندہ دلی کے سبب بڑے مشہور تھے، ان کی حسِ مزاح اور بذلہ سنجی محفل کو زعفران زار بنادیتی، اور ان کی خوش لباسی ان کی شخصیت کو چار چاند لگاتی تھی۔ ’’یار! زندگی خوش رہنے اور دوسروں کو خوش رکھنے کے لیے ہے‘‘۔ یہ اُن کے مخصوص جملے تھے جو مجھے اس وقت یاد آرہے تھے۔ لیکن ایسا کیا ہوا کہ اتنا خوش مزاج شخص اپنی اولاد کی کسی ایسی ذہنی الجھن سے بے خبر رہا جس نے اس معصوم سے 15 سالہ بچے کو اپنی جان لینے پر مجبور کردیا۔ ایک کرنٹ سا لگا مجھے، اور اپنی اس کیفیت کو چھپانا اس وقت ممکن نہیں تھا میرے لیے۔ یحییٰ کی شکل میری نظروں میں گھوم گئی جو اسی بچے کا ہم عمر تھا۔ سب ہی کے چہروں پر ایک خوف ظاہر تھا، انجانا سا ڈر، جیسے کسی قریبی دوست کے اچانک کسی موذی بیماری میں مبتلا ہوجانے پر انسان اپنی صحت سے متعلق ہر ابنارمل علامت پر دل میں ہزار اندیشے پال لیتا ہے کہ کہیں میں بھی تو اس کا شکار نہیں ہوگیا! ہم سب ہم عمر ہی تھے، تقریباً آگے پیچھے سب کے ہی بچے تیزی سے ٹین ایج تک پہنچ رہے تھے یا قریب قریب تھے۔
’’آج میں نے سوچا ہے کہ اسماعیل صاحب کے بیٹے کے لیے مل کر دعا کرلیتے ہیں اور ساتھ میں کچھ غور بھی کرتے ہیں کہ ہماری کمیونٹی میں بچوں کے اندر پائی جانے والی ان بے چینیوں اور ذہنی الجھنوں کے اسباب کیا ہیں۔‘‘ عثمان بھائی کی آواز ہم سب کو دوبارہ کمرے میں واپس لائی۔ یہ ہماری اس ہفتہ وار گپ شپ کی سب سے خاص روایت تھی جس میں عثمان بھائی حالاتِ حاضرہ کے کسی بھی موضوع کو چھیڑ دیتے اور پھر نقاب کے بعد حجاب پر پابندی کے امکانات، فرانس کے چالیس سالہ صدر کی ساٹھ سالہ بیوی… ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر خود کو دنیا سے باخبر ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔ Brexit کے بعد کیا ہوگا، ترکی کے صدارتی انتخابات میں اردوان کے جیتنے کے کیا امکانات ہیں اور بحریہ ٹائون میں اسٹیج گر کر ٹوٹنے سے مرنے والوںکی خبر کو میڈیا نے کیوں چھپایا۔
لیکن آج کا یہ موضوع کچھ انوکھا سا لگا مجھے اور شاید اوروں کو بھی، جیسے اچانک Management کی ڈھیروں ورکشاپ کروانے والے ٹرینر سے کوئی اُس کی ذاتی زندگی میں Management کے بارے میں سوال کرلے… ’’آپ اگر کچھ ٹائم دے سکیں نیکسٹ ویک اینڈ پر مسجد میں How to deal with teens? پر ورکشاپ ہے فادرز کے لیے۔‘‘ عظمیٰ کی بات یاد آئی مجھے، اُس نے مجھے کل رات ہی یہ بتایا تھا۔ ’’یہ ساری ورکشاپس تم ہی اٹینڈ کرلیا کرو، عورتوں کے پاس ہی اتنا فالتو وقت ہوتا ہے، مجھے پتا ہے باپ کی کیا ذمے داری ہے اور اس کو کیسے نبھانا ہے۔‘‘ مجھے اپنا جواب بھی یاد آیا۔
’’ہاں تو بھائیو! آپ سب اپنے خیالات شیئر کریں اور ساتھ میں تجاویز بھی دیں کہ آج کے ان چیلنجز کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟‘‘ عثمان بھائی کا سوال اتنا عجیب نہ تھا، لیکن اس کے جواب میں چھائی خاموشی کچھ عجیب سی تھی۔ کچھ ایسی کہ جیسے گھنٹوں جس موضوع پر محنت کرکے اسٹیج پر چڑھیں تو مائیک ہاتھ میں دے کر کسی ایسے موضوع پر تقریر کی دعوت دی جائے جس کی تیاری تو کیا اُس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہو۔
’’شاید اسکولوں کا ماحول اور میڈیا کی یلغار وجہ ہے آج بچوں کے بگڑنے کی، اسی لیے میں بچوں کو اسٹیٹ اسکول سے اسلامک میں Move کررہا ہوں۔‘‘ قیصر کی آواز میں دبا دبا جوش تھا جیسے وہ بنیادی وجہ تک پہنچ گیا ہو، اور پرائمری اسکول کے بچوں کا باپ ہونے کے ناتے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرلینے کی امید بھی اُس کی گفتگو سے ظاہر تھی۔
’’مجھے لگتا ہے بڑی تعداد میں خواتین کا ورکنگ ویمن ہونا بچوں کی تربیت کو بہت متاثر کررہا ہے، اسی لیے میں نے تو جاب کی اجازت ہی نہیں دی حمنہ کو، ماں کی ذمے داری تو اولاد کی تربیت ہی ہے اور کرنا ہی کیا ہوتا ہے انہیں!‘‘ عاصم نے بڑی سنجیدگی سے اپنی رائے پیش کی اور سب ہی نے تائید میں سر ہلایا۔
’’اور میرا خیال ہے کہ سارا کیا دھرا یہاں کے ماحول کی آزادی کا ہے، بلکہ یہاں کا پانی ہی کچھ بچوں کو خودسر اور من مانی کرنے والا بنادیتا ہے۔‘‘ اب کی دفعہ واصف نے ذرا اور اعتماد سے رائے دی کہ لوہا گرم تھا اور اس کا یہ مؤقف کہ ’’میں تو بس وقت کے انتظار میں ہوں کہ قطر Move ہوجائوں، کم از کم اسلامی ملک تو ہے‘‘، جس پر ہم سب زیادہ کان نہ دھرتے تھے، اب اِس وقت اس کی بات دل پر اثر کررہی تھی۔
عثمان بھائی بڑے صبر سے سب کا مؤقف سن رہے تھے اور ابھی تک اُن کی طرف سے کوئی رائے سامنے نہیں آئی تھی۔ ان کی اچھی عادت ان کی Listening skills تھیں جس سے سامنے والے شخص کو لگتا کہ وہ اس کی بات پر ہمہ تن گوش ہیں۔ مجھے بھی کچھ خیالات الفاظ میں ڈھلتے محسوس ہوئے۔ وجوہات تو بہت ساری سامنے آگئی تھیں لیکن تدارک پر بات نہ ہوسکی تھی۔ ’’اگر مائیں اپنے وقت کو مینج کریں اور بچوں پر بھرپور توجہ دیں تو بچے Gadgets اور انٹرنیٹ کے عادی ہی نہ بنیں، جہاں سے وہ ایسے تباہ کن آئیڈیاز لیتے ہیں، اور اپنے مسائل کو آن لائن حل کرنے کے بجائے گھر میں اعتماد پاسکیں۔ آج کل عورتیں بس علامہ بننے کے لیے سارے دینی و دنیاوی کورس تو کرلیتی ہیں لیکن بچوں کے مسائل حل نہیں کرپاتیں۔‘‘ یہ میری رائے تھی جسے پیش کرکے بڑی گہری سانس لی میں نے، کہ جیسے ایک بہت بڑی مشکل کا حل چٹکی بجانے پر مل جائے۔ مجھے یاد آیا کہ پچھلے کئی برسوں کے روٹین میں آفس کے بعد جم سے ہوتا ہوا جب میں گھر آتا تو کھانا ٹیبل پر لگاکر عظمیٰ یا تو نماز پڑھ رہی ہوتی یا کوئی آن لائن لیکچر سن رہی ہوتی، اور بچے اپنے کمروں میں یا تو سو چکے ہوتے یا کسی ہوم ورک کے اسائنمنٹ میں مصروف ہوتے۔ کھانا کھاتے اور موبائل پر فیس بک چیک کرتے ہوئے مجھے یہ وقت سب سے پُرسکون اور Luxurious محسوس ہوتا دن بھر کی ذہنی تھکن اورآفس پولیٹکس کے بعد… ’’عظمیٰ پلیز اپنی نفل نمازیں جلد پڑھ لیا کرو، اور جب میں آفس سے آئوں تو بیٹھ کر کچھ بات ہی کرلیا کرو۔ محترمہ اتنا ٹائم ملتا ہے تمہیں سارا دن عبادت کے لیے اور درس و تدریس سننے کے لیے، لیکن پھر بھی تم مجھے دیکھتے ہی نیت باندھ لیتی ہو۔‘‘
’’بابا! میں اندر آجائوں؟‘‘ عثمان بھائی کے بڑے بیٹے زکریا کی آواز نے اس گفتگو کا طلسم توڑ دیا۔ ’’جی بیٹا! آیئے۔‘‘
’’امی کا فون آیا تھا، ان کا میسج ہے کہ آپ ایک گھنٹے میں ان کو کمیونٹی سینٹر سے پک کرلیں، ان کی کلاس چالیس منٹ میں ختم ہوجائے گی، اور وہ کہہ رہی ہیں کہ ڈائننگ روم میں ٹیبل سیٹ ہے، بس آپ کو اوون سے Baked green beans اور Lemon and herbs چکن نکالنی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے زکریا آپ جایئے اور اپنی سورہ رحمن دہرا لیں، میں سونے سے پہلے سنوں گا۔‘‘ عثمان بھائی کے پُرسکون لہجے میں دیے گئے اس جواب نے میرے ضبط کا پیمانہ لبریز کردیا۔ ’’بھابھی گھر میں نہیں تھیں تو آپ آج کینسل کردیتے عثمان بھائی۔‘‘
’’ارے نہیں بھئی ہر چیز بالکل پلان کے مطابق ہی ہوئی ہے، سامعہ کا کورس چل رہا ہے کوئی Interpretation کا، اور آج کا دن اس نے اسی لیے رکھا ہے کہ میں گھر پر ہوں تو بچوں پر بھی نظر رہے اور گھر سے نکلتے ہوئے کھانا پورا وہ تیار کرکے نکلی تھیں، اس لیے آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔‘‘
’’چلیں پہلے ذرا دعا کرلیں اسماعیل صاحب کے بیٹے کے لیے، اور کھانا کھا کر پھر میں آپ لوگوں کو بتائوں گا آدم اور حوا دنیا میں ساتھ کیوں آئے تھے؟‘‘
عثمان بھائی کی انوکھی سی بات پر سب کے ہی چہرے سوالیہ نشان سے بن گئے، لیکن وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا چکے تھے ربّنا ھب لنا من ازواجن ذرّیتنا…
’’اے اللہ، میرے مالک ہماری اولاد اور ازواج کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا، ان کو گمراہی سے بچانا اے اللہ! اولاد کی آزمائش سے بچانا اور ہمیں ان کا بہترین مددگار اور دوست بنانا، اے اللہ! اسماعیل بھائی کے بیٹے کو بہترین شفا دینا اور اس کو زندگی کی طرف لوٹا دینا میرے مالک۔‘‘
دعا کے بعد اٹھتے ہوئے وہ معمول کی خوش گپیاں مفقود تھیں اور ذہن اٹک سے گئے تھے کہ آدم اور حوا کو ساتھ کیوں بھیجا گیا؟
(جاری ہے)

حصہ