سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

1249

(دوسراحصہ)
علامہ اقبال اور سید مودودی
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سید مودودی کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے۔ بقول میاں محمد شفیع (مدیر ہفت روزہ اقدام)، علامہ موصوف “ترجمان القرآن” کے اْن مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے۔ اْن (مضامین) ہی سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو حیدرآباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی اور اسی دعوت پر مولانا 1938ء میں پنجاب آئے۔ میاں محمد شفیع صاحب اپنے ہفت روزہ اقدام میں لکھتے ہیں کہ “مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تو درحقیقت نیشنلسٹ مسلمانوں کی ضد تھے اور میں یہاں پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ مودودی ان کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے۔ جہاں علامہ اقبال بالکل واضح طور سے آزاد (مولانا آزاد) اور مدنی (مولانا حسین احمد مدنی) کے نقاد تھے وہاں وہ مولانا کا ترجمان القرآن جستہ جستہ مقامات سے پڑھواکر سننے کے عادی تھے۔ اور اس امر کے متعلق تو میں سو فیصدی ذمہ داری سے بات کہہ سکتا ہوں علامہ نے مولانا مودودی کو ایک خط کے ذریعے حیدرآباد دکن کے بجائے پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی دعوت دی تھی۔ بلکہ وہ خط انہوں نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا”۔
شریف الدین پیرزادہ کی گواہی
اس وقت کے مارشل لا حکومت کے قائم کردہ دستوری کمیشن کے مشیر اور کمپنی لا کمیشن کے صدر سید شریف الدین پیرزادہ اپنی کتاب ’’ارتقائے پاکستان‘‘ میں لکھتے ہیں۔ “مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کے ایک سلسلہ مضامین کے ذریعے جو 1938ء اور 1939ء کے درمیان شائع ہوئے، کانگریس کے چہرے سے نقاب اتاری اور مسلمانوں کو متنبہ کیا۔ موصوف نے برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا، کانگریس کی لادینیت کی قلعی کھولی اور یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کے مخصوص حالات میں اس کے لیے جمہوریت ناموزوں ہے۔ اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک ووٹ اور ہندوؤں کو چار ووٹ ملیں گے۔ انہوں نے ہندوؤں کے قومی استعمار کی بھی مذمت کی اور اس رائے کا اظہار کیا کہ محض مخلوط انتخاب یا اسمبلیوں میں کچھ زیادہ نمائندگی اور ملازمتوں میں ایک شرح کا تعین مسلمان قوم کے سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو تجویز انہوں نے پیش کی اس میں تین متبادل صورتوں کی نشاندہی کی گئی تھی”۔ ان صورتوں میں آخری صورت ہندوستان کی تقسیم کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سید شریف الدین پیرزادہ ارتقائے پاکستان میں جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ تجاویز اور مشورے جو سر عبداللہ ہارون، ڈاکٹر لطیف، سرسکندر حیات، ایک پنجابی، سید ظفرالحسن، ڈاکٹر قادری، مولانا مودودی، چودھری خلیق الزمان وغیرہ نے دیئے، وہ ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی سڑک کے سنگہائے میل ہیں”۔
یہاں اس بات کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ اسلام کا سہی معنوں میں جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر تقسیم ہند سے قبل اس بات کا خطرہ موجود تھا اور وہ درست تھا کہ اگر ووٹنگ ہوگی تو مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو ووٹ چار گناہ سے بھی زیادہ ہونگے اسی طرح اس بات کا خطرہ مسلمان ریاست میں بھی ہر وقت موجود رہے گا۔ عام طور پر معاشرہ اچھے، نیک اور صالح لوگوں کی کمی کا شکار رہتا ہی ہے۔ ایک مسلم ریاست میں بھی ضروری نہیں کہ ایک بہت واضح اکثریت نیک اور صالح لوگوں پر ہی مشتمل ہو۔ کم ایمان والے یا اسلام کے متعلق کم علمی کا شکار لوگ کسی بھی قسم کے بہکائے میں آسکتے ہیں اور جمہوریت کی صورت میں وہ کسی بھی قسم کے بہکائے یا دباؤ کا شکار ہوکر کوئی بھی رائے قائم کر کے ایک اسلامی مملکت کو غیر اسلامی افراد کے حوالے کر سکتے ہیں اس لیے جمہوریت کو اسلا م سے قریب تصور کرنا میرے نزدیک ایک بہت بڑی بھول ہے۔ یہ بات بھی بہت غور کرنے کی ہے اسلام کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہے اور خلیفہ اللہ کا نائب ہوتا ہے اور اللہ کے آگے جوابدہ جبکہ جمہوریت میں حاکم اعلیٰ عوام ہوتے ہیں اور سربراہ مملکت عوام کے آگے جوابدہ ہوتا ہے۔ یہ ایک واضح فرق ہے اور اسی لیے جمہوریت کا کوئی تعلق اسلام سے بنتا ہی نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے علما اس فریب کا شکار ہو چکے ہیں کہ جمہوریت اور اسلام میں (نعوذباللہ) چولی دامن کاسا ساتھ ہے ہم جتنی جلد اس فریب سے باہر نکل آئیں اتنا ہی پاکستان اور اسلام کے لیے اچھا ہے۔
ریفرنڈم میں پاکستان کی حمایت
صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا اور لوگوں کو اس موقع پر آمادہ کرنے کے لیے کہا “اگرمیں صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لیے کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ہورہی ہے تو لامحالہ ہر اس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے” اس تاریخی موقع پر آئندہ کے نظام کے بارے میں مولانا نے لکھا “وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا جیسا کہ وعدہ کیا جارہا ہے تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے، اور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کررہے ہیں”۔
مولانا اس حد تک تو استصواب رائے کے حق میں تھے کہ ایسی تمام ریاستیں یا علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، وہ اس استصواب رائے کے نتیجے میں ایک مملکت کی شکل اختیار کر سکتی ہیں تو استصواب رائے میں شریک ہو جانا چاہیے لیکن شرط یہ ہے کہ آزاد ہوجانے کی صورت میں اسلام کا نفاذ ہو بصورت دیگر ہمیں وہاں اسلامی نظام کے لیے اسی طرح جدوجہد جاری رکھنا ہو گی جس طرح اب (تقسیم سے قبل) جاری رکھی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ مولانا نے اس بات کا خدشہ بہت پہلے ظاہر کر دیا تھا کہ اگر جدوجہد کی صورت میں کوئی مسلمانوں کی مملکت وجود میں آبھی گئی تو وہ مسلمان کافرحکومت کے علاوہ اور کچھ نہ ہو گی اور یہ بات اتنی غلط بھی ثابت نہیں ہوئی۔ 70سال سے صورت حال ایک ایک پاکستانی کے سامنے ہے اور پاکستان کا ایک ایک شہری اس بات کا گواہ ہے کہ پاکستان کافرستان‘کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
مسلم لیگ علماء کمیٹی کی رکنیت
قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران مسلم قومیت پر سید مودودی کے مضامین مسلم لیگ کے حلقوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے رہے۔ بعد ازاں مسلم لیگ یو پی نے اسلامی نظام مملکت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے علماء کی ایک کمیٹی بنائی تو مولانا مودودی نے اس کی رکنیت قبول کرتے ہوئے اس کام میں پوری دلچسپی لی۔ اس کا مسودہ کمیٹی سے وابستہ ایک معاون تحقیق مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے مسودہ تیار کیا تھا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مولاناعبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں۔ “غالبا 1940ء یا شاید اس سے بھی کچھ قبل جب مسلم لیگ کا طوطی ہندوستان میں بول رہا تھا۔ ارباب لیگ کو خیال پیدا ہوا کہ جس اسلامی حکومت (پاکستان) کے قیام کا مطالبہ شد و مد سے کیا جارہا ہے خود اس کا نظام نامہ یا قانون ِ اساسی بھی تو خالص اسلامی بنانا چاہیے۔ اس غرض سے یو پی کی صوبائی مسلم لیگ نے ایک چھوٹی سی مجلس ایسے ارکان کی مقرر کردی جو اس کے خیال میں شریعت کے ماہرین تھے کہ یہ مجلس ایسا نظام نامہ مرتب کرکے لیگ کے سامنے پیش کرے۔ اس مجلس ِ نظام ِ اسلامی کے چار ممبران کے نام تو اچھی طرح یاد ہیں۔ (1) مولانا سید سلیمان ندوی (2) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (3) مولانا آزاد سبحانی (4) عبدالماجد دریا بادی”۔
جماعت اسلامی کا قیام
سید مودودی نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے۔ جو لوگ اس تجویز سے اتفاق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور “جماعت اسلامی” قائم کی گئی۔ جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں پورے ہندوستان میں سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودی کو جماعت کا سربراہ منتخب کیاگیا۔
پہلی قید
تقسیم ہند کے بعد سید مودودی پاکستان آگئے۔ پاکستان میں قائد اعظم کے انتقال کے اگلے ہی ماہ یعنی اکتوبر 1948ء میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے پر آپ گرفتار ہو گئے۔ گرفتاری سے قبل جماعت کے اخبارات “کوثر”، جہان نو اور روزنامہ “تسنیم” بھی بند کردیے گئے۔ سید مودودی کو اسلامی نظام کا مطالبہ اٹھانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن الزام یہ دھرا گیا کہ وہ جہادِ کشمیر کے مخالف تھے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری سے قبل اس کا متن بھی مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا۔ انہیں 20 ماہ بعد 1950ء میں رہائی ملی۔
اپنی پہلی قید و بند کے دوران انہوں نے “مسئلہ ملکیت زمین” مرتب کی، “تفہیم القرآن” کامقدمہ لکھا، حدیث کی کتاب “ابو داؤد” کا انڈکس تیارکیا، کتاب “سود” اور “اسلام اور جدید معاشی نظریات” مکمل کیں۔
قادیانی مسئلہ
1953ء میں سید مودودی نے “قادیانی مسئلہ” کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب تحریر کی جس پر انہیں گرفتار کرلیا گیا اور پھرفوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنادیا۔ سزائے موت سنانے کے خلاف ملک کے علاوہ عالم اسلام میں بھی شدید ردعمل ہوا۔ جن میں مصر کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے رہنما علامہ حسن الہضی بی، کابل سے علامہ نور المشائخ المجددی، فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی کے علاوہ الجزائر اور انڈونیشیا کے علماء نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے سید مودودی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جبکہ شام کے دار الحکومت دمشق میں ان کی سزائے موت کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ بالآخر حکومت نے سزائے موت کو 14 سال سزائے قید میں تبدیل کردیا۔ تاہم وہ مزید دوسال اور گیارہ ماہ تک زندان میں رہے اور بالآخر عدالتِ عالیہ کے ایک حکم کے تحت رہا ہوئے۔
فتنہ انکار حدیث
1958ء میں مارشل لا کے نفاذ کی سخت مخالفت کرنے کے بعد اس وقت کے صدر ایوب خان نے سید مودودی کی کتاب “ضبط ولادت” کو ضبط کرلیا اور ایوبی دور میں ہی فتنہ انکار حدیث نے سر اٹھایا اور حکومتی سر پرستی میں ایسا طبقہ سامنے آیا جس کا کہنا تھا کہ اسلام میں حدیث کی کوئی حیثیت نہیں حتیٰ کہ مغربی پاکستان کی عدالت کے ایک جج نے حدیث کے بارے میں شک ظاہر کرتے ہوئے اسے سند ماننے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر سید مودودی نے اسلام میں حدیث کی بنیادی حیثیت کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے دونوں کو اسلامی قانون کا سرچشمہ قرار دیا۔ انہوں نے فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف اپنے رسالے “ترجمان القرآن” کا “منصب رسالت نمبر” بھی شائع کیا۔
(جاری ہے)

حصہ