سیاستدانوں نے سیاست کو تجارت بنالیا ہے، جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد

724

انٹرویو: محمد انور
جسارت میگزین: ’عام لوگ اتحاد پارٹی‘ کے قیام کے مقاصد کیا ہیں؟
جسٹس وجہہ الدین: ہم نے جو پارٹی متعارف کرائی ہے وہ بنیادی طور پر ایک ایگریٹرین پارٹی ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ 1977ء کی ویل ریفارم جو بھٹوصاحب کے آخری دور میں آئی تھی، اس پر عمل درآمد کرانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ایگری اکانومی ایگرو بیسڈ انڈسٹریز اسٹیبلش کرنا چاہتے ہیں، شہروں کی آبادی جو زرخیز زمینوں کو ہضم کررہی ہے اسے روکنا چاہتے ہیں۔ شہروں کی توسیع ہم ہوریزینٹل کے بجائے ورٹیکل یعنی اوپر کی طرف کرنا چاہتے ہیں تاکہ کنکریٹ کا جنگل دیہاتوں کی طرف نہ جائے۔ انوائرنمنٹ کی بہتری کے لیے ہم پاور ہائیڈل یا سولر کی طرف جانا چاہتے ہیں، ہم سو فیصد روزگار چاہتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں، کیونکہ اگر اکانومی صحیح طریقے سے کام کررہی ہو اور سرکاری ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں تو ایسا بآسانی ہوسکتا ہے۔ یہ جو سلسلے ہیں گھوسٹ ٹیچر، گھوسٹ اسپتال اور ڈاکٹرز کے، اگر ختم کردیے جائیں تو یہی پیسہ لوگوں کے روزگار پر خرچ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم سو فیصد ہیلتھ کیئر سسٹم وضع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے سرکاری ملازمین کو سرکاری اسپتالوں میں جانا ہوگا، وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں نہیں جاسکیں گے۔ باہر علاج کے لیے اگر کوئی جائے گا تو صرف سرکاری خرچ پر جائے گا، اپنے پاس جو پیسہ ہے اس کی بنیاد پر نہیں جائے گا۔ جو سرکاری تعلیمی ادارے ہیں انہیں اس لیول پر لایا جائے گا کہ کوئی پرائیویٹ اسکولوں کی طرف اپنے بچوں کو نہیں جانے دے گا۔ سرکاری اسکولوں کی صورتِ حال بہتر بنائی جائے گی، سرکاری افسران پابند ہوں گے کہ ان کے بچے سرکاری اسکولوں میں جائیں، تاکہ اس سے سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر ہو۔ باہر جو بچے تعلیم کے لیے جاتے ہیں وہ باپ کی دولت کی بنیاد پر نہیں جائیں گے بلکہ اہلیت کی بنیاد پر جائیں گے، جنہیں اسٹیٹ سلیکٹ کرے گی۔ اسی طرح ہمارا واٹر وژن یہ ہوگا کہ سیوریج یا گٹر کے پانی کا ایک قطرہ بھی سمندر میں نہیں جانے دیں گے، بلکہ اس کو ری سائیکل کرکے زراعت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسی طرح کراچی سے حیدرآباد تک ایک گرین بیلٹ قائم کردی جائے گی۔ جن افراد کو ہم ملازمتیں دینے میں کامیاب نہ ہوسکے انہیں ماہانہ معاوضہ دیں گے۔ لیکن ہمارے ہاں معاملات مختلف ہیں۔ ایسی پارٹیوں کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ ہمارے درمیان بھی کچھ لوگ آگئے جنہوں نے پارٹی کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی، ہم الیکشن کمیشن میں گئے تو انہوں نے کہا کہ پارٹی کو کون چلائے گا اور کون نہیں چلائے گا اس معاملے کے لیے آپ سول عدالتوں میں جائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری پارٹی کو فنکشنل ہی کرنے نہیں دیا جارہا۔
جسارت میگزین: کیا آپ کو توقع ہے کہ لوگ آپ کو رسپانس دیں گے؟
جسٹس وجہہ الدین: دیکھیں اِس وقت تو حالات مخدوش ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ پارٹی مرحوم نہیں بھی ہوئی ہے تو مفلوج ضرور ہوگئی ہے۔ کچھ لوگوں کو لیڈری کا شوق نئی پارٹی بنانے کی طرف لے کر آتا ہے، اس لیے پارٹی بنالی جاتی تھی۔ مگر اب دو ہزار افراد کی ممبر شپ دکھانی پڑتی ہے۔ پہلے یہ نہیں تھا۔ ہر شخص اپنی سیاسی پارٹی بنالیا کرتا تھا۔ لیکن ہماری صورت حال ایسی نہیں تھی، ہماری صورت حال یہ تھی کہ ایک عرصے تک میں نے کسی سیاسی پارٹی کو جوائن نہیں کیا، 2000ء میں مَیں سپریم کورٹ چھوڑ کر آیا تو میں نے سیاسی سرگرمیوں اور لائر موومنٹ میں حصہ لیا، صدارتی انتخابات میں وکلا نے مجھے نامزد بھی کیا لیکن میں نے سیاسی پارٹی 2011ء میں بہت چھان پھٹک کر جوائن کی، وہ پی ٹی آئی تھی، لیکن وہاں ساڑھے پانچ پونے چھ سال رہنے کے دوران جو حالات دیکھے، میں نے یہ محسوس کیا کہ باتیں وہ نہیں تھیں جو نظر آرہی تھیں۔ ہم نے کوشش کی کہ معاملات درست ہوجائیں لیکن میں نہیں کرسکا، اور یہ محسوس کیا کہ آئندہ بھی یہ معاملات درست نہیں کرسکوں گا تو میں نے تحریک انصاف چھوڑ دی۔ پھر دیگر پارٹیوں کا بھی جائز لیا تاکہ جوائن کرسکوں، مگر کوئی بھی ایسا نظر نہیں آیا جس کو جوائن کرسکوں۔ نتیجتاً میں نے اپنی پارٹی بنالی۔
جسارت میگزین: میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ اس وقت خلائی مخلوق کی حکومت ہے، حالانکہ ان کی پارٹی کی حکومت ہے اور اس کا دور بھی ختم ہونے والا ہے، آپ میاں صاحب کے مؤقف پر کیا کہتے ہیں؟
جواب : دیکھیں اس وقت میاں صاحب اکائونٹیبلٹی پروسس میں ہیں۔ جب کوئی انسان جس کے معاملات عدالتوں میں ہوتے ہیں اور پورا کیرئیر دائو پر لگا ہوتا ہے تو وہ مروجہ سیاسی طریقہ کار کے مطابق ان اداروں کو ہی چیلنج کردیتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بے نظیر کے خلاف جب کارروائی شروع ہوئی تھی تو انہوں نے بھی عدالتی کارروائیوں کو نہیں مانا تھا۔ یہ طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے۔ ہمارے مسائل اس لحاظ سے بہت گمبھیر ہیں۔ یہ کوئی معمولی مسائل نہیں ہیں۔
سوال : 70 سال نو ماہ کا پاکستان ہوچکا ہے، مگر وہ ترقی نہیں ہوسکی جس طرح دیگر ممالک کو ملی ہے، کون ذمے دار ہے اس صورت حال کا؟
جسٹس وجہہ الدین: بنیادی بات یہ ہے کہ چونکہ سیاست دان پرفارم نہیں کرسکے لہٰذا طالع آزمائوں کے لیے راستے کھل گئے، ورنہ ان کی گنجائش کسی بھی ملک میں نہیں ہوتی۔ حکومتیں ووٹ کی بنیاد پر ہوتی ہیں، ووٹرز کی پسند کی بنیاد پر نہیں ہوتیں، لیکن جب سیاست دان پرفارم نہیں کرتے تو پھر اس طرح کی ایکسٹرا کانسٹی ٹیوشن ایکٹویٹیز رونما ہوتی ہیں۔ میں ترقی کے بارے میں آپ کے مؤقف سے متفق نہیں ہوں۔ ترقی تو بہت ہوئی ہے اس ملک میں۔ ماشا اللہ اتنی وسیع آبادی ہے آپ کے ملک میں، کھانے پینے کی چیزیں کہیں سے منگوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ سامانِ تعیش کو قابو کریں، اپنے ملک کی پیداوار پر انحصار کریں، فالتو درآمدات نہ کریں، رشوتوں کا جو بازار گرم ہے، ملک کا پیسہ باہر جاکر خرچ ہوتا ہے وہ نہ کریں تو وائبل انڈسٹریز موجود ہے۔ لوگ بھی کارکردگی دکھانے والے ہیں۔ یہی پاکستانی جب بیرون ملک جاتے ہیں تو ساری دنیا ان کی پرفارمنس پر عش عش کرتی ہے۔
سوال : مگر ہمارا ملک آمریت کے دور میں زیادہ ترقی کرسکا جبکہ یہ جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ پھر جمہوری دور میں یہ کیوں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے؟
جواب : کسی بھی ملک کے لیے پہلی ضرورت امن و امان ہے۔ اگر آپ ملک میں امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور لوگ اپنے کاموں سے لگے رہیں تو پھر ملک میں ترقی ہوتی ہی ہے حکومت کوئی بھی ہو، چاہے جمہوری ہو یا آمرانہ دور ہو۔ آمروں کے ابتدائی ادوار میں امن و امان کا سلسلہ ہوتا ہے، سیکورٹی کا سلسلہ ہوتا ہے لہٰذا عوام کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں پھر اس وقت جب آمر اپنی گدی کو بچانے کے لیے سیاست میں کود جاتا ہے، سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے تو پھر وہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اُس وقت جاری و ساری رہا ہو جب وہ ٹیک اوور کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دان درست طرح کی گورننس دینے میں کبھی اس ملک میں کامیاب ہوا ہی نہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کا کام گورننس مہیا کرنا نہیں ہے۔آمروں کا کام بھی گورننس مہیا کرنا نہیں ہے۔ یہ کام ہے بیوروکریٹ کا، یہ کام ہے افسر شاہی کا، یہ کام ہے اُن لوگوں کا جو اپنی اہلیت کی بنیاد پر اپنے سیکریٹریٹ کو چلا رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ کسی بندے کو تین سال بھی اس کے عہدے پر نہیں رہنے دینا چاہتے جو آپ کی مرضی کے مطابق کام نہیں کررہا… یا جو مرکز سے آیا ہو اسے فارغ کرنا چاہیں جیسے آئی جی اے ڈی خواجہ جو ایک دیانت دار اور باصلاحیت افسر ہے لیکن وہ حکومت سندھ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، اس کے لیے ایک عرصے سے عدالتی جنگ چل رہی ہیں۔ اگر اے ڈی خواجہ کو عدالتوں نے تحفظ نہ دیا ہوتا تو اس کا انہوں نے تیا پانچا کردیا ہوتا۔ لہٰذا سیاست دانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاست دانوں کا کام حکومتیں چلانا نہیں ہوتا۔ سیاست دانوں کا کام پالیسی بنانا ہوتا ہے، سیاست دانوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ نوکر شاہی کے ذریعے پالیسیوں پر عمل درآمد کرائیں۔ مگر یہاں تو سیاست دانوں نے سیاست کو تجارت بنالیا ہے۔ جب یہ صورتِ حال پیدا ہوجائے تو ملک میں کوئی گورننس نہیں ہوگی… اور یہی ہوتا رہے گا کہ ملک میں کچھ عرصے تک نام نہاد ڈیموکریسی، پھر آمرانہ دور۔
جسارت میگزین: جب سیاست دان اپنے اپنے مفاد کے لیے قانون سازی کریں تو پھر کس طرح آئیڈیل جمہوریت آسکتی ہے؟
جواب : جی بالکل، نہایت افسوسناک بات ہے۔ دیکھیں برطانیہ میں اگر کوئی منسٹر کسی خاتون کی ٹانگ پر ہاتھ رکھ دے تو وہاں کوئی اس کا احتساب نہیں کرتا، مگر اس منسٹر کو خود عوام کے ردعمل پر استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ جس ملک میں اخلاقیات نہیں، قانون پر عمل درآمد ہی نہیں ہے تو پھر وہاں پر کیا ہوگا؟
سوال : سیاست دان اور سیاسی حالات کیسے بہتر ہوں گے؟
جسٹس وجہہ الدین: اس کے لیے حل یہی ہے کہ سیاست میں جو بھی آئے وہ بہتر انسان ہو۔ ہمارے ہاں اگر چیف جسٹس کو بچی کا رشتہ دیکھنا ہو تو وہ زیادہ آسان کام ہے بہ نسبت وکلا میں سے جج کا انتخاب کرنا۔ کیونکہ اس کے لیے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ امیدوار کی قانونی اہلیت کیا ہے، وہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ امیدوار شریف آدمی ہے یا نہیں۔ عدالت میں بیٹھ کر اپنی جیبیں تو نہیں بھرے گا!
سوال : جس ملک میں سیاست دان، بیوروکریٹ اور عام آدمی بھی صرف اپنا مفاد دیکھ رہا ہو، ایسے ملک کا مستقبل کیا ہے؟
جسٹس وجہہ الدین: دیکھیں میں آپ سے عام آدمی کے بارے میں متفق نہیں ہوں۔ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اوپرکے لوگ درست کام کریں گے تو وہ بھی صحیح کام کرے گا۔ اگر اوپر کے لوگوں نے لوٹ مار مچائی ہوئی ہوگی تو نیچے کا یا عام آدمی بھی جہاں تک اُس کی رسائی ہوگی، ایسا ہی کچھ کرے گا، یا کرنے کی کوشش کرے گا۔ میں یہاں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں، میں سندھ میں صرف چھ ماہ چیف جسٹس رہا، پھر میں سپریم کورٹ چلا گیا۔ میری تقرری کے بعد سے تمام عدالتوں کے ججوں اور عملے نے وقت کی پابندی شروع کردی، طریقہ کار کے تحت فرائض انجام دینے شروع کردیے۔ اُس وقت سندھ میں 28 ججوں کی اسامیاں تھیں لیکن میں ان 28 ججوں کا کام صرف 20 ججوں سے لے رہا تھا۔

حصہ