عطرِ خیال، شبنم رومانی کے جذبۂ عقیدت کی خوشبو!۔

628

ڈاکٹر عزیز احسن
احساسات کا تموج ، جذبات کا بہاؤ، محبت کا والہانہ پن، عقیدت کے نذرانے پیش کرنے کا قوی تقاضا۔جب یہ سب کچھ یک جا ہوجائے تو شاعرانہ جبلت (Instict) کے تحت شعرِ عقیدت کہنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔شعر کہنے کے لیے جبرِ اندروں کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر قدرت اور شاعرانہ رویہ(Poetic Approach ) جس شاعر کو بھی مُیسر آجائے وہ دنیائے سخن گوئی میں نمایاں، کامیاب اورممتاز ہوجاتا ہے۔
شبنم رومانی نے بھرپور شاعرانہ شخصیت پائی تھی۔ انھوں نے رومانی ہونے کے تمام شواہد کو شعری پیکر عطا کیے۔ ان کا شاعرانہ تشخص ظاہر کرنے کے لیے ، غزل کا صرف ایک شعر ہی پیش کردینا کافی ہے:
بیعتِ حُسن کی ہے میں نے بھی
صاحبِ سلسلہ تو میں بھی ہوں
اس شعر میں حقیقت و مجاز کے دونوں عکس موجود ہیں۔ شاعر نے اپنی حُسن پرستی کا ذکر بھی ،روحانی سلسلوں کی روایت کے تناظر میں کیا ہے۔ اس طرح اس کا صاحبِ سلسلہ ہونا ایک افسانوی احساس سے بڑھ کر حقیقی منظر نامہ بن گیا ہے۔
اس ایک شعر کی قراء ت ہی سے شبنم رومانی کا شعری مزاج اور ان کے شعری متن میں اسلامی روایت کے عناصر کی آمیزش کا ادراک ہوجاتا ہے۔اس شعر کے ذریعے ہم شاعر کی اس صلاحیت کو بھی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں جو حقیقت کو مجازکا رنگ دینے اور مجاز کو حقیقت شناس شعری فضا عطا کرنے کے لیے ، مبداء فیاض کی جانب سے ،اسے ودیعت کی گئی تھی ۔
شعرو سخن کی وادی میں قدم رکھنے والاہر شاعر، پہلے پہل، مجازی محبوب کی تعریف یا اس کے ناروا سلوک کا شکوہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یعنی وہ غزل یا رومانی نظم لکھ کر اپنے احساسات کو ملفوظی جامہ پہناتا ہے۔ احساسات کی یہ تنظیم جب شاعرکی عادتِ ثانیہ بن جاتی ہے ، تو وہ نکاتِ سخن ،حُسنِ زبان، جمالِ اظہار اور لفظوں کی پرکھ کے لوازمات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے مشق کرتا ہے اور ایک مدت اسی انہماک میں گزارنے کے بعد کہیں جاکر اس قابل ہوتا ہے کہ اسے شاعری کی دنیا میں کوئی پہچان مُیسر ہو۔شاعری سے وفاداری ،فن سے استواری چاہتی ہے۔ جو شاعر فکر و فن کی دنیا سے استواری نباہتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ شبنم رومانی بھی ایسے ہی خوش نصیب شعراء میں شامل تھے ۔ انھوں نے ،بڑی سنجیدگی، بڑے شعور اور زبان و بیان کی آگاہی کے ساتھ، زندگی بھر فنِ شعر کی آبیاری کی…اور جب انھیں فنِّ شعر گوئی پر عبور حاصل ہوگیا تو خوش قسمتی انھیں حمد و نعت و مناقب کی تقدس آمیز فضا میں لے آئی ۔چناں چہ اس فضا کو معطر کرنے کے لیے انھوں نے ’’عطرِ خیال‘‘ کشید کیا۔
’’عطرِ خیال‘‘کا ’’انتساب‘‘ ہی اتنا پُر کشش ہے کہ میں اس کا حوالہ دیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
مرے حضور ﷺدلوں میں اتر کے بولتے تھے
سو اس فقیر کی ادنیٰ مثال حاضر ہے
اس ایک شعر کی متنی ندرت،اس میں پیش کیے جانے والے خیال کا اچھوتا پن، بیان کی تازگی اور اظہار کی طرفگی اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر کے دل کی گہرائیوں میں عظمتِ محمد مصطفیٰ ﷺ نے ایسا گھر کرلیا ہے کہ اس کا متن (Text) القائی کیفیت کا حامل ہوگیا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺکے جمالِ ظاہری اور کمالِ باطنی (سیرت ) جس کے دل میں بھی گھر کر جائے وہ آپﷺ کی توصیف کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ شبنم رومانی بھی ان خوش نصیبوں میں ہیں جن کا قلم ان کے دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والے احساساتی ہالے کو لفظوں میں ڈھالتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ا نھوںنے بے ساختہ کہدیا:
مرے حضور کو خوشبو پسند تھی شبنمؔ
سو ظرفِ حرف میں ’’عطرِ خیال‘‘ حاضر ہے
یوں تو شبنم رومانی کا تقریباً سارا کلام ہی منتخب ہے۔ لیکن میں یہاں خصوصی طور پر اللھم لبیک(تاثراتِ حج و عمرہ) کا ذکر کروں گا کہ حج و عمرہ کی سعادت پانے والا ہر زائر احساسات کے تموج کا شکار تو ہوتا ہے لیکن اظہار پر ایسی قدرت اچھے اچھے شعراء کو بھی حاصل نہیں ہوپاتی ہے جس کا مظہر ان کی مذکورہ نظم ہے۔اس نظم میں احرام بنادھنے کی کیفیت کے اظہار سے لے کر طواف، سعی، وقوفِ عرفات، شب ِ مزدلفہ، قیامِ منیٰ اور رمی جمار کا ذکر اس خوبصورتی سے کیا گیاہے کہ شاعر کی قدرتِ کلام اور اسلوب کی کشش پر رشک آتا ہے۔ اس نظم کا آغاز ہی قاری کی توجہ جذب کرنے کے لیے کافی ہے:
جیتے جی اہلِ محبت نے کفن پہنا ہے
خلعتِ فاخرہ اُتری ہے، کہ مَیل اُترا ہے
’’میرے اللہ! میں حاضر ہوں‘‘ یہی کہنا ہے
یہی کہنا ہے کہ حاضر یہ ترا بندہ ہے
نظم آگے بڑھتی ہے تو اس مقدس فضا کے تمام رنگ اپنے ملفوظی پیکر میں سمیٹتی جاتی ہے ۔ان فضاؤں میں رہتے ہوئے اپنے خالق کی موجودگی کا احساس بدرجہء احسان ، انسان پر طاری ہوتا ہے اور وہ مناسکِ حج و عمرہ میں اس حقیقت کے نزدیک پہنچ جاتا ہے کہ ’’عبادت ایسے کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو‘‘ …لیکن اس کیفیت کا اظہار ناممکن ہے ، اس لیے شاعر کہتا ہے:
کوئی پوچھے تو میں سمجھانہیں سکتا، لیکن
میں نے ہر سمت ان آنکھوں سے تجھے دیکھا ہے
بات یہیں نہیں رک جاتی، شاعر اپنے بیان کو دلیل آشنا کرنے کے لیے ایک اور شعر میں اس بات کی وضاحت کرتا ہے:
میں نے ہر سمت ان آنکھوں سے تجھے دیکھا ہے
کہ مرے پیشِ نظر آئینہء طیبہ ہے !
حضور اکرم ﷺ نے امت کو تعلیم فرمایا تھا:
’’اَنْ تَعْبُدَاللّٰہُ کَاَنَّکَ تَرَاہُ‘‘ (اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو) ۔شاعر نے حضور اکرم ﷺ کی تعلیم کے اس نکتے کے استحضار کے لیے ہی ’’آئینہء طیبہ‘‘ کی ترکیب وضع کی ہے۔کیوں کہ اگر مسلمان کے پیشِ نظر تعلیمِ رسول ﷺ نہ ہو تو یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ عبادت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے۔
حضورِ اکرم ﷺ کو اللہ رب العزت نے پیکرِ انسانی میں اس دنیا میں مبعوث فرمایا ۔اس لیے آپ ﷺ کو انسان ہی کہا جائے گا لیکن ایسا انسان جس کی مثال کسی اور انسان کی صورت میں نہ موجود تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔ شبنم رومانی نے اپنی نظم ’’انسان ہیں وہ بھی مگر‘‘ میں اس خوبصورتی سے نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بشری جہت کا ادراک رقم کیا ہے کہ اس میں آپﷺ کی عظمتوں ، آپﷺ کی انفرادیت اور انسانی دنیا میں آپﷺ کی شان کی یکتائی کا بیان کسی مبالغے یا بناوٹ کے بغیر آگیا ہے:
انسان ہیں وہ بھی ‘مگر
انسانیت کے واسطے
اک دائمی منشور ہیں
وہ آسماں کا نور ہیں
جو خاک سے پیدا ہوا
وہ آفتابِ روح
جوادراک سے پیدا ہوا
علمِ حقیقی
جن کے اسمِ پاک سے پیدا ہوا
نعتیہ شاعری کی نزاکتوں سے آگاہ شعراء نے ہمیشہ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اس شعری فضا کے تقاضے پورے کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ کیوں کہ یہ ماورائی حقائق کا اظہاریہ ہے۔ شبنم رومانی کو بھی ہر ذمہ دار اور حساس شاعر کی طرح اس فن کی نزاکتوں کا احساس ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں:
ایک مصرع جو تریؐشان کے شایاں ہوجائے
کلمہ حرف پڑھے، لفظ مسلماں ہوجائے
روشنائی نہیں روشنی چاہیے
کوششِ مدحتِ مصطفیؐ کے لیے
ہر لغت عاجز ہے، کیسے حقِّ مدحت ہو ادا
ایک اک حرفِ سخن ، بہتر سے بہتر چاہیے
یہی وجہ ہے کہ نعت لکھتے ہوئے ،شبنم رومانی نے اپنی صلاحیتِ شعر گوئی کا عطر کشید کرنے کی پوری کوشش کی اور حرفِ مدحت کو جگمگا نے کا قرینہ پیدا کیا۔
(جاری ہے)

نعتیں

سہیل غازی پوری

لفظوں کو اس طرح تر و تازہ کیا کرو
جب کچھ نہ لکھ سکو تو مدینہ لکھا کرو
رکھ کر چراغِ نعت درودوں کے درمیاں
ایوانِ آرزو میں شبینہ ادا کرو
حکمِ خدا بھی ہے، یہ حدیثِ رسولؐ بھی
کم زور و کم ترین کو رتبہ دیا کرو
جن کا وجود وقفِ ثنائے رسولؐ ہو
ایسی ہی ہستیوں سے ہمیشہ ملا کرو
آئے جو گفتگو میں کہیں موسموں کا ذکر
طیبہ کے موسموں کا حوالہ دیا کرو
چاہو اگر کہ آئو نظر بھیڑ میں سہیلؔ
چہرے پر اُنؐ کے نام کا غازہ ملا کرو

سبیلہ ؔ انعام صدیقی

دیدار ہے مدینے کا عرفانِ معتبر
سرشار جس سے دل ہو وہ فیضانِ معتبر
وہؐ جب بنائیں گے مجھے مہمان اپنے گھر
دیکھوں گی چشم نم سے میں فرقانِ معتبر
جن کو خدا نے رحمتِ عالم بنا دیا
تا حشر ہوں گے عالی و ذی شانِ معتبر
انوار سے ہے ان کے اجالا جہان میں
یکساں ہے سب کے واسطے احسانِ معتبر
ان کا خیال ، ان کی محبت اور احترام
ہے زندگی میں بس یہی سامانِ معتبر
چوموں گی جس گھڑی کہ میں روضے کی جالیاں
کر دوں گی پیش نعت بہ الحانِ معتبر
سیراب روح اور ہو سجدہ گذار سر
اس طرح ہوں ادا مرے ارکانِ معتبر
لگتا ہے آنے والی ہے طیبہ سے اب صدا
ملنے کو ہے بس اب مجھے ایقانِ معتبر
رکھوں گی ان کے در پہ سبیلہؔ جو میں جبیں
ہو گا تبھی عطا مجھے ایمانِ معتبر

مہ جبیں قیصر

چراغِ آرزو دیکھو ہزاروں دل میں جلتے ہیں
چلا ہے قافلہ طیبہ کی جانب ہم بھی چلتے ہیں
لبوں پر نام احمدؐ کا، تصور میں مدینہ ہے
نگاہِ شوق میں ہر دم مگر آنسو مچلتے ہیں
سلام و نعت میں جن کی زباں مصروف رہتی ہے
انہی کے معجزوں سے زندگی کے رخ بدلتے ہیں
قدم بوسی کو آقا کی جگہ مل جائے تھوڑی سی
یہی ارماں لیے روضے کی جانب ہم بھی چلتے ہیں

حصہ