کونوکارپس، کے الیکٹرک کا بیج

1250

زاہد عباس
۔20 مئی کا دن میرے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھا، میں اپنے دفتر سے ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ بجلی بند ہوگئی۔ ویسے تو بجلی کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ بندش کوئی نئی بات نہیں، لیکن شدید گرمی یعنی ہیٹ ویو اور اس پر بجلی کا نہ ہونا میرے لیے ایک عذاب ہی تھا۔ میں انتہائی غصے میں خواجہ آصف کی ایجاد کردہ ضرب المثل ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ کا ورد کرتا کبھی ایک کمرے میں جاتا تو کبھی گھر کے مرکزی دروازے کے قریب جا بیٹھتا۔ میں کراچی الیکٹرک کے شکایتی مرکز پر بذریعہ فون شکایت لکھوانے کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا! سو 44 سینٹی گریڈ برستی آگ سے نڈھال شدید گرمی کے عالم میں کڑھتا رہا۔
میری چھوٹی بیٹی حریم جو ابھی فقط چار سال کی ہوئی ہے، میرے قریب آتے ہوئے بولی ’’پاپا امی کا دوپٹہ گیلا کرکے لاؤں، اسے اوپر لے لینے سے گرمی نہیں لگتی‘‘۔ معصوم بچی کے ہونٹوں سے ادا ہوتے جملے سن کر میری بے قراری مزید بڑھنے لگی، اس کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوچلا تھا کہ کراچی کے عوام پر عذاب بن کر مسلط ہونے والے محکمے ’کے الیکٹرک‘ کی جانب سے کی جانے والی اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے ننھی کلیوں کو بھی چلچلاتی دھوپ کی سختیاں برداشت کرنے پر مجبور کرڈالا ہے۔
خیر میں مسلسل ’کے الیکٹرک‘ کے شکایتی مرکز فون کرتا رہا اور ہر مرتبہ نیا جھوٹ سننے کو ملتا رہا۔ یوں 20مئی کی دوپہر سے بند کی جانے والی بجلی 21مئی کی دوپہر بحال کی گئی۔ بجلی کی بحالی کے ساتھ ہی میرے لبوں سے دعا نکلی ’’خدا کراچی کے عوام کو اس محکمے سے نجات دلادے‘‘۔گھر والوں نے سارا دن انتہائی پریشانی اور رات بے چینی کے عالم میں جاگ کر گزاری۔ ویسے تو ’کے الیکٹرک‘ کے کرتوتوں سے ہر شخص ہی واقف ہے، لہٰذا اس محکمے کی کارکردگی پر بات کرکے اپنا ہی خون جلانے سے بہتر ہے کہ کراچی کے بدلتے موسم کے ساتھ سورج کے بدلتے تیور پر بات کرلی جائے۔
ایک زمانہ تھا جب اندرونِ سندھ خاص کر جنوبی پنجاب سے لوگوں کی بڑی تعداد گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے کراچی کا رخ کیا کرتی۔ جون اور جولائی کے مہینوں میں بادلوں کے سائے، سارا دن چلتی ٹھنڈی ہوائیں اور حسین شامیں یہاں کی پہچان ہوا کرتیں۔ ملک بھر میں پڑتی سخت گرمی سے بچنے اور حسین و دلفریب موسم کے مزے لینے ملک کے طول و عرض سے لوگ یہاں آیا کرتے تھے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کراچی میں معاشی، معاشرتی، سیاسی، یہاں تک کہ ماحولیاتی تبدیلی آنے لگی۔ شہر دوست اقدامات نظرانداز کیے جانے لگے۔ پارکوں اور سڑکوں کے ساتھ بنائی گئی گرین بیلٹس پر قبضے کیے جانے لگے۔ ماحول دوست درختوں کو کاٹا جانے لگا۔ لوگوں کی شہر کی طرف ہجرت نے آبادی میں بے پناہ اضافہ کیا۔ رہائشی ودیگر سہولیات کے لیے تعمیرات کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے جنگلات کاٹ دیئے گئے۔ اس سے کراچی کے انفرااسٹرکچر پر منفی اثر پڑا۔ ایک جانب میٹرو پولیٹن شہر ہونے کے باعث عمارتوں کا جنگل بنتا رہا، تو دوسری جانب صنعتوں سے گیسوں کا اخراج ہونے لگا جس کی وجہ سے شہر میں آلودگی بڑھنے لگی۔ ہر ادارہ اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگا۔ کرپشن اور جائز، ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ نفسانفسی اور ہوس اس قدر بڑھی جس نے شہرِدل کو تنہا کر ڈالا۔
نتیجتاً یکسر ماحولیاتی تبدیلی آگئی، اور پھر 2015ء کو کون بھول سکتا ہے! یہ سال کراچی والوں کے لیے انوکھا ثابت ہوا۔ اس سال رمضان المبارک شروع ہوتے ہی گرمی کی شدت سے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ اس قدر شدید گرمی کراچی والوں کے لیے نئی بات تھی، چنانچہ اسے سمجھنے اور اقدامات اٹھانے میں وقت لگا، اور اس دوران ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور 1700 تک جا پہنچی۔ ماہرین کے مطابق بدلتے موسم کے باعث کراچی کے عوام کو ہر سال ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں، ہیٹ ویو کیا ہے اور کیوں آتا ہے اس سے متعلق جان لیتے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق ہیٹ ویو موسمیاتی تغیرات کے باعث پیدا ہونے والا ایک ایسا عمل ہے جسں کی وجہ سے کسی بھی مقام کے اوسط درجہ حرارت میں 5 سے6 ڈگری اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہوا بھی بند ہوسکتی ہے اور یہ عمل 3 سے5 دن تک جاری رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے ماحولیاتی شعبے میں دو اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں ’’مٹی گیشن‘‘ یعنی کمی کرنا، اور ’’ایڈا پٹیشن‘‘ یعنی مطابقت پیدا کرنا۔ کلائنٹ چینج ایک قدرتی عمل ہے، چنانچہ اسے روکنا یا اس میں تبدیلی کرنا ممکن نہیں، لیکن اس سے مطابقت پیدا کرنا ازحد ضروری ہے۔
اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے سابقہ سٹی ناظم کراچی مصطفی کمال کے زمانے میں شجرکاری مہم کا آغاز کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے شہر میں لگائے جانے والے25لاکھ پودے انتہائی مضرصحت اور ماحول دشمن ثابت ہوئے۔ کراچی کی سڑکوں، محلوں اور پارکوں میں لگایا جانے والا افریقی پودا ’کونوکارپس‘ ہماری مقامی آب وہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں۔ یہ درخت کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہا ہے۔ کونوکارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ اس درخت پر پرندے بھی اپنا گھونسلہ نہیں بناتے۔ کونوکارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثرانداز ہوتا ہے جس کے باعث کراچی سے مون سون روٹھ گیا ہے۔ 5 سے 10 روپے میں فروخت ہونے والا یہ درخت بیج کے بغیر شاخ لگا دینے سے بھی تیزی سے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دور سے ہرے بھرے نظر آنے والے اس درخت کی گھنی چھاؤں میں ٹھنڈک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ ہوا میں موجود نمی کے ذریعے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کونوکارپس مس فٹ ہونے کے باوجود مکمل فٹنس کے ساتھ کراچی کی سڑکوں کے کنارے موجود ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پورے کی خرید وفروخت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ شہرِ قائد میں اس کی مزید آبادکاری سے بھی پرہیز کیا جائے تاکہ کونوکارپس نامی اس درخت کی جانب سے کی جانے والی خاموش دہشت گردی سے شہر کی آب وہوا کو بچایا جا سکے۔
واضح رہے کہ 2016ء میں سندھ ہائی کورٹ نے کونوکارپس درخت کو فوری طور پر کاٹنے کا حکم جاری کیا تھا، مگر چونکہ کراچی شہر کا کوئی وارث نہیں لہٰذا اس حکم پر کسی بھی قسم کا کوئی عمل نہ ہوسکا۔
دنیا بھر میں ماحول دوست درختوں اور جنگلات کے پھیلاؤ پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کسی بھی ملک کے 25 فیصد حصے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کُل رقبے کے صرف 4 فیصد حصے پر ہی جنگلات ہیں جو انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے،` جبکہ ایک اندازے کے مطابق روس میں 48 فیصد، برازیل میں 54فیصد،انڈونیشیا میں 47 فیصد، سوئیڈن میں 74 فیصد، اسپین میں 54 فیصد، جاپان میں67 فیصد، کینیڈا میں 31 فیصد، امریکا میں 30 فیصد، بھارت میں23 فیصد، بھوٹان میں 72 فیصد،اور نیپال میں 39 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں۔
پھر اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ماضی میں کراچی کا دلفریب موسم یہاں لگے ماحول دوست درختوں کی ہی بدولت ہوا کرتا تھا۔
مجھے اب تک یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں محلے کے تقریباً تمام ہی گھروں میں کوئی نہ کوئی درخت ضرور ہوتا۔ 1960ء کی دہائی میں لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈرگ کالونی، لالوکھیت، ناظم آباد، نئی کراچی سمیت سارا ہی شہر سرسبزوشاداب ہوا کرتا تھا۔ کراچی سے باہر نکلتے ہی ہر طرف لہلہاتے کھیت دکھائی دیتے۔ محلوں میں زیادہ تر نیم، بادام، شیشم، پیپل، کھجور، سکھ چین، اور بڑ کے درخت ہوتے، جن کی گھنی چھاؤں میں ہم گھنٹوں کھیلا کرتے۔ اسی زمانے کے لگے چند قدیم درخت آج بھی شہر کے مختلف علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کونوکارپس کی خاموش ماحولیاتی دہشت گردی کے نتیجے میں بدلتے موسم اور ہیٹ ویو سے جان چھڑاکر موسمی اعتبار سے کراچی کو 1960ء کی دہائی والا شہر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو اپنی مدد آپ کے تحت نئے سرے سے شجرکاری مہم شروع کرنی ہوگی، خود آگے بڑھ کر سارے ہی شہر سے کونو کارپس نامی ماحول دشمن درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا، اور اس کی جگہ کراچی کی آب و ہوا سے مطابقت رکھنے والے پودے لگانے ہوں گے، تب ہی ہیٹ ویو جیسے عذاب سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر کراچی سمیت پورے ملک کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانا ناممکن ہے۔

حصہ