روزہ ہماری صحت اور اخروی نجات کا ذریعہ

674

ڈاکٹر اسلم جاوید
اسلام اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر پہلوکے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرتا ہے۔ معاشرت، معیشت، تجارت، سیاست، حکومت اور صحت سے متعلق رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ ارکانِ اسلام جہاں ہمیں روحانی طور پر راحت و سرور پہنچاتے ہیں وہیں جسمانی لحاظ سے بھی صحت وتندرستی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پنجگانہ نماز ہو یا ماہِ رمضان کے روزے… یہ ہمارے لیے روحانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ جسمانی آسودگی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی نہ صرف برائیوں سے روکتی ہے بلکہ جسمانی ورزش کا بہترین موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ خاص کر موجودہ مصروف دور میں مصروف زندگی گزارنے والوں کے لیے تو جسمانی فٹنس کے حوالے سے نعمتِ بے بہا ہے۔ اسی طرح روزہ بھی اپنے اندر صبر واستقامت، تزکیۂ نفس اور ایثار وہمدردی کے ساتھ ساتھ انسان کے جسم سے اَن گنت بیماریوں کو دور کرنے کا قدرتی ذریعہ ہے۔ انسانی جسم کو کئی آلائشوں سے پاک کرنے کا بہترین سبب اور جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے کا باعث بھی ہے۔ حکیمِ اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان ہے: ’’معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر دوا کی بنیاد ہے، اور ہر جسم کو وہی کچھ دو جس کا وہ عادی ہے‘‘۔ روزہ پرہیز کے حوالے سے ہمیں بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔ روزے کی مدد سے موجودہ دور کے کئی خطرناک امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فی زمانہ بلڈ پریشر، یورک ایسڈ، کولیسٹرول، موٹاپا، جوڑوں کا درد، بواسیر اور شوگر جیسے موذی اور خطرناک امراض کے ہاتھوں انسانیت نہ صرف خوفزدہ ہے، بلکہ اکثریت اس کے نرغے میں پھنس چکی ہے۔ روزے جہاں رحمت و مغفرت کی برسات لاتے ہیں، وہیں صحت و تندرستی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، اس کے روحانی اثرات سے ہم سب واقف ہیں۔ آخرت میں ملنے والے نتائج، برکات و ثمرات ہم سب کے ذہن نشین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں روزے رکھے۔ رمضان کے احکامات صحت مندوں کے لیے ہیں، اور مریضو ں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک حد تک رخصت دی ہے، مگر مریضوں کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رمضان میں روزے کا اہتمام کریں۔ اللہ کے فضل و کرم سے ایک بار پھر ہماری زندگی میں ماہِ رمضان کی برکتوں، رحمتوں ، اور مغفرتوں کی برسات ہورہی ہے۔ امید ہے کہ ہم سب اس مہینے کی باسعادت گھڑیوں میں سے اپنی اپنی ہمت و توفیق کے مطابق اپنا حصہ وصول کرنے میں مصروف ہوں گے۔ یہ ماہِ مقدس اللہ کی خوشنودی و رضا اور مغفرت کا پیغامبر تو ہے ہی، لیکن صحت و تندرستی کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ رمضان کریم میں عموماً لوگوں کا عبادات کی طرف رجحان قدرتی طور پر بڑھ جاتا ہے۔ جوان، بچے اور بوڑھے سبھی بڑے شوق و ذوق سے دن میں روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
پنجگانہ نماز کی ادائیگی باقاعدہ کی جاتی ہے۔ حصولِ ثواب اور قربِ ذات کے لیے ہر مسلمان وفورِ جذبات سے لبریز دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ اگرچہ نماز و روزہ اللہ کی خوشنودی کا صدیوں سے ذریعہ چلے آرہے ہیں لیکن جدید سائنسی اور طبی تحقیقات نے ان عبادات کی بدنی افادیت کو بھی ثابت کردیا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسانی جسم اور روح دونوں ہی شامل ہوتے ہیں۔ روزہ محض بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے، بلکہ فطرت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی عملی مشق ہے۔ آج اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سائنسی ارتقاء اور اسبابِ دنیوی کی فراوانی سے انسان کے روحانی و جسمانی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ روپے پیسے کی ریل پیل سے اس نے اپنے طرزِ رہن سہن اور لباس و خوراک میں غیر فطری عوامل کو شامل کرکے اپنے جسمانی اور صحت و تندرستی کے کئی عوارض کو دعوت دے رکھی ہے۔ ذہنی انتشار اور بدنی خلفشار کی بہتات کے اس دور میں روزے سے بڑی کوئی نعمت ہو ہی نہیں سکتی۔ روزہ صرف روحانی عبادت کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ بدنی کسرت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ روزے کی مدد سے موجودہ دور کے کئی خطرناک امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
حدیثِ نبویؐ ہے کہ ’’روزے رکھو، صحت مند ہو جاؤ گے‘‘ (الترغیب والترہیب)۔ عصرحاضر کی جدید سائنسی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جسمِ انسانی پر سال بھر میں لازماً کچھ وقت ایسا آنا چاہیے جس میں اُس کا معدہ کچھ دیر فارغ رہے۔ کیونکہ مسلسل کھاتے رہنے سے معدے میں مختلف قسم کی رطوبتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو آہستہ آہستہ زہر کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ لیکن روزے سے یہ رطوبتیں اور ان سے پیدا ہونے والے کئی مہلک امراض ختم ہوجاتے ہیں اور نظام انہضام پہلے سے قوی تر ہوجاتا ہے۔ روزہ شوگر، دل اور معدے کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ہے اور مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سنت نبویؐ اور جدید سائنس …1621)
ڈاکٹر عبدالحمید دیان اور ڈاکٹر احمد قاراقز اپنے ایک آرٹیکل Medicine in the Glorious Quran میں لکھتے ہیں:
’’روزہ انسان کی جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی بیماریوں کے لیے مؤثر علاج ہے۔ یہ آدمی کی مستقل مزاجی کو بڑھاتا ہے، اس کی تربیت کرتا ہے اور اس کی پسند اور عادات کو شاندار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روزہ انسان کو طاقتور بناتا ہے اور اس کے اچھے اعمال کو پختہ عزم دیتا ہے، تاکہ وہ لڑائی وفسادات کے کاموں، چڑچڑے پن اور جلد بازی کے کاموں سے اجتناب کرسکے۔یہ تمام چیزیں مل کر اس کو ہوش مند اور صحت مند انسان بناتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی ترقی، قوتِ مدافعت اور قابلیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تاکہ وہ مشکل حالات کا سامنا کرسکے۔ روزہ انسان کو کم کھانے کا عادی بناتا ہے اور اس کے موٹاپے کو کنٹرول کرتا ہے جس سے اس کی شکل و شباہت میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔
روزہ انسانی صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے، جو کئی جسمانی، اعصابی اور نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتا ہے یا انہیں اعتدال میں لاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ روزہ انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کو خارج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیں، جس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے بلکہ دماغی صلاحیتوں کو بھی جلا ملتی ہے۔ روزہ موٹاپا اور پیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے، خاص طور پر نظام انہضام کو بہتر کرتا ہے۔ لیکن یہ فوائد تبھی ممکن ہوسکتے ہیں جب سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں اور پانی یا شربت بھی زیادہ پینے کے بجائے وقفے وقفے سے پئیں۔
روزہ داروں کو اس بات کا خاص خیال رہے کہ سحر و افطار کے اوقات میں کھانے میں اعتدال برتیں۔ تیزی میں زیادہ کھانا ہرگز نہ کھائیں اور افطاری کے وقت یک دم زیادہ میٹھا پانی نہ پئیں، جو لوگ عام دنوں میں خشک روٹی کھاتے ہیں وہ پراٹھا نہ کھائیں۔ مرغن اور تلی ہوئی اشیاء سے پرہیز کریں۔ دل، جگر، شوگر، بلڈ پریشر، دمہ، السر اورگردے کے امراض والے حضرات رمضان المبارک میں خصوصی احتیاط برتیں۔ دل کے ایسے مریض جن کے دل کی تکلیف میں استحکام نہ ہو، بار بار انجائنا کے اٹیک ہوتے ہوں، یا وہ پیشاب آور ادویات استعمال کررہے ہوں تو انھیں روزہ نہیں رکھنا چاہیے، یا ایسے مریض جن کو تازہ تازہ ہارٹ اٹیک ہوا ہو، وہ بھی صحت مند ہونے پر روزے رکھیں۔ دمے کے ایسے مریض جو Inhailerاستعمال کرتے ہوں یا ان کی بیماری شدت اختیار کرجاتی ہو، وہ بھی روزے سے پرہیز کریں۔ چالیس سال سے زائد عمر کے افراد کو افطاری ہمیشہ آہستہ آہستہ کرنی چاہیے، کیونکہ اگر انھیں دل کا مرض لاحق نہ بھی ہو تو اچانک سامنے آسکتا ہے۔ تمام دیگر امراض میں مبتلا افراد کے لیے وہی معمول کی احتیاطی تدابیر ہیں جو وہ رمضان سے قبل اختیار کرتے ہیں۔ آخر میں اللہ رب العزت سے دعا کیجیے کہ رب کریم ہمیں رمضان کریم کی سعادتوں، رحمتوں اور برکتوں سے لطف اندوز ہونے اور روزوں کا اہتمام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

حصہ