رمضان اسلام کی بہار کا پیغام

763

زرافشاں فرحین
ترجمہ:’’ رمضان کا مہینہ وہ باعظمت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ جو سرمایۂ ہدایت ہے اور روشن واضح دلیل جو حق و باطل کا فرق الگ کردینے والی کتاب ہے‘‘۔
حضرت انسان ہمیشہ سے ہی اپنے خیر خواہ ساتھی، مہربان دوست کی تلاش میں رہا ہے اور جب اس کی نظریں مہربان قرآن کی جانب اٹھتی ہیں تو فلاح و کامرانی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اسے اپنی جانب بڑھتا دکھائی دیتا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تاریک سیاہ رات میں کسی آفتاب کی روشنی ہر سو پھیل گئی ہو اور اس وسیع و عریض سلطنت کے بھٹکے ہوئے راہی کو گمشدہ راہ مل گئی ہو۔ قرآن سے نا آشنا انسانیت کو جب معراج نصیب ہوئی تو مایوسی کی تاریکی میں گھری زندگی کو ماہ مبارک رمضان کی تابناک روشنی عطا ہوئی ایسی روشنی جس نے ظلمت شب کی قبا چاک کردی اور انسانیت کو پیغام ملا کہ ایک ایسا عظیم مہینہ، بابرکت مہینہ طلوع ہو رہا ہے۔ جس میں آدمیت کی سربلندی کا آفتاب ظہور پزیر ہوگا۔
(شہر رمضان الذی ……… البقرۃ : 85)
وہ مہینہ جس میں شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔جنت کے رحمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک پیغام آتا ہے۔
عزیزان ِ من! اس چمن زیست میں پھول ہی نہیں کانٹے بھی ہیں۔ یہاں نسیم سحر ہی نہیں بادِ صر صر بھی ہے۔ یہاں خرمن ہی نہیں ہوتے بجلیاںبھی گرتی ہیں یہاں خیر کے ساتھ شر بھی پایا جاتا ہے۔
یہاں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے کہ بہت سی جادہ پیما ئیاں منزل مقصود سے دور بھی لے جاتی ہیں یہاں رہزن بھی اسے گھلے ملے ہیں کہ ان پر رہنما کا گمان ہوتا ہے۔ ایسے میں انسان کو یہ ہمدرد و خیر خواہ ساتھی یاد دلاتا ہے کہ ’’ ربّنا ما خلعت ھٰذا باطلا۔ (آل عمران 196)
ترجمہ: ’’ اے ہمارے رب آپ نے یہ سب کچھ فضول اور عبث نہیں بنایا‘‘۔
اور غور و فکر کا یہ داعیہ انسان کو اپنی زندگی کے خاص مقصد سے جوڑ دیتا ہے۔
کتنا مہربان ہے یہ دوست اور بہی خواہ ہے یہ ساتھی جو نیکیوں کے موسم بہار میں چہار سو دروازے کھول دیتا ہے اپنے ہر اس مہمان کے لیے بازو وا کردیتا ہے جو اس کے در سے رحمتیں، بخششیں اور جنت کے ٹکٹ حاصل کرنا چاہیں۔
ماہ صیام … کسی صائم کے لیے چابکدستی، فراست و حکمت ، صلاحیت اور Sef Grooming کا مہینہ ہے۔ صائم عربی زبان میں اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو جنگ میں تیار کر کے اعلیٰ نسل سے منتخب ہو کر محاذ جنگ میں بھیجا جاتا ہے۔ گویا وہ بندہ جو اپنے رب کے لیے روزے کی مشقت اٹھاتا ہے دشمن کے خلاف محاذ پر چاق و چوبند ہو کر پوری جرأت و شجاعت سے تن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ محاذ جس سے اس کے محبوب رب نے اسے خبردار کیا۔
ترجمہ: اور شیطان کی پیروی نہ کرنا یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (البقرۃ 168)
یہ رمضان اور قرآن ایک ایسا خیر خواہانہ راستہ دکھاتا ہے جو کسی بھی سلیم الفطرت آدمی کو یہ سبق بھولنے نہیں دیتا کہ یہ زندگی پُر خطر جنگل ہے جہاں قدم قدم پر عدومبین گھات لگائے ہوئے ہے۔
ہم نے کبھی سوچا ہے کہ … کوئی اور ہے ایسا مہربان محبت کرنے والا ساتھی جو ہمیں زندگی کے ہر مقام پر شرف و افضلیت عطا کرنا چاہے وہ راستے دکھائے جو ہمیں سربلندی کی طرف لے جاتے ہیں کیسا پیارا ساتھی جو حسد بھی نہ کرے کوئی رکاوٹ بھی نہ ڈالے بلکہ ہمیں ناکارہ اور غیر سنجیدہ ہونے سے بچائے۔ قرآن شہر زندگی کے پریشان خیال نو وارد کو احساس دلاتا ہے کہ دنیا کی گزر گاہ باعث عبرت ہے یہ بیدار عقل متحرک ذہن رکھنے والوں کو ہی کامیاب قرار دیتی ہے۔ اس کی نگاہ میں جو اپنی زندگی کے مقصد سے غافل ہیں (صمٌ بکمٌ عمیٌ) بہرے گونگے اور اندھے ہیں۔
ترجمہ: ’’یقینا اللہ پاک کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے اور گونگے لوگ ہیںجو عقل سے کام نہیں لیتے ‘‘۔ ( انفال : 22)
قرآن مونس ہمدم بن کر کہتا ہے ان لوگوں کے پاس دماغ ہیں مگر یہ سوچتے نہیں ، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں، کان ہیں مگر سنتے نہیں، یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہوئے یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوتے گئے۔ تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔
اور پھر کیسا کمالِ محبت کا اعجاز ہے۔ حضرت انسان ہر سال اس محبت کرنے والے مہمان رمضان اور قرآن کریم کے پیغام کو بھلا دیتا ہے اور یہ پھر بار بار لوٹ آتا ہے۔ دل کے دروازوں پر دستک دیتا ہے کسی ماں کی صدا کی طرح جس کا دل بلک بلک کر اپنی اولاد کی کامیابی چاہتاہے۔ کسی بکھرے ہوئے پھول کی خوشبو کی طرح جو مٹ کر بھی فضا معطر کرنا چاہتا ہو۔ کسی پورے چاند کے جوبن کی طرح جو قسم کھا کر آیا ہو کہ ظلمت شب کی سیاہی کو شکستِ فاش دیتا ہے اور انسانیت کو گہرے کنویں سے نکال سربلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ دوست مہربان چاہتا ہے کہ یہ ہماری بخشش کا سامان ہو جائے اور رب کا پیغام عام ہو جائے۔
ماہ صیام اندھیروں سے روشنی کی طرف بلا رہاہے وہ مہربان دوست مہمان بن کر پھر آرہا ہے قلب و روح کی جلا بخشنے کا سامان پھر سے مزین کیا جارہا ہے۔ اقبال نے اپنی انقلابی شاعری میں یہ پیغام کتنے خوبصورت پیرائے میں دیا تھا۔

تو ہمی دانی کہ آئین تو چیست
زیر گردوں سر تمکین تو چیست
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت اولا یزال است مقدیم

’’کیا تو جانتا ہے کہ تیرا آئین کیا ہے؟ تیری آسمان کے نیچے شان و شوکت کیا ہے۔ کتابِ زندہ قرآنِ حکیم جس میں لازوال قدیم حکمت ہے‘‘۔
امت مسلمہ کے لیے آج بھی قرآن اور رمضان کسی مونس و غم خوار دوست کی طرح اپنے محبتوں کے لازوال تحائف لیے جلوہ فگن ہوچکا ہے۔ یہ ہمارے ظرف پر منحصر ہے کہ ہم اس مہمان کا استقبال کیسے کریں!! مہمان کے استقبال کے لیے چند گزارشات ہیں اپنے اور آپ کے لیے۔ تین چیزیں کم کریں اور تین چیزیں زائد۔ کثرت کلام، کثرت طعام اور کثرت نوم سے گریز۔ قیام لیل اور استفغار کی کثرت سے اپنے گھروں کو روشن اور منور کریں ۔
یہ ماہ عظیم زندگی کے انفرادی دکھوں کا درماں ہی نہیں امت مسلمہ کے تمام کربناک غموں کا مداوا بھی بن کر آتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس امت کے زوال کا باب اسی ماہ مبارک میں بند ہوا اور فتح و کامرانی کا طلوع آفتاب پوری آب و تاب کے ساتھ اسی ماہِ عظیم میں جگمگایا۔ کون نہیں جانتا یومِ بدر، یومِ فرقان، فتح مکہ جیسی عظیم الشان فتوحات ماہ رمضان المبارک میں ہی نصیب ہوئیں۔ اور اس عہد حاضر کی بے مثال آزادی کا جشن قیام پاکستان کی صورت میں رمضان المبارک کی ہزار مہینوں سے افضل رات شب قدر میں ہی نصیب ہوا۔ گویا یہ ماہ مبارک ایک بار پھر بشارتیں لیے سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا سورج پوری دنیا پر چھا جانے کے لیے ایک بار پھر اپنی کرنیں پھیلا رہا ہے۔ امت پرامید ہے خالق کائنات کے وعدے برحق ہیں۔ فتح و کامرانی کے وعدے، صالح قیادت کی حکمرانی کے وعدے، اجر عظیم کے وعدے اور رمضان صدا دے رہا ہے کہ۔

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

مگر عزیزانِ من! اللہ کی نصرت کے یہ وعدے اسی صورت میں پورے ہوتے ہیں جب ہم ایمان کے تقاضے نبھائیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں ۔ ’’ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو ۔ (آل عمران)۔
گویا رمضان کی تمام محنت، ریاضت، بھوک اور پیاس ، ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ اگر ہوگی تو ’’تعلکم تتقون اور تعلکم تفلحون‘‘ یعنی تقویٰ کے حصول اور فلاح و کامرانی کے نصیب ہونے کی خوشخبری ہے۔ یہ ماہ عظیم اللہ کی کبریائی کے اعلان کا مہینہ ہے۔ آیئے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو کر ساری دنیا کو آگاہ کریں کہ اللہ کی اس زمین پر اللہ کے بندوںپر بڑائی اور حاکمیت کا حق صرف اور صرف اللہ کو ہے اور دنیا کے تمام انسان صرف اسی کے بندے ہیں اور ہمیں ہرگز اپنے رب رحمن کی حاکمیت کے سوا کسی کی حاکمیت قبول نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ مبارک کو ہمارے لیے باعث نجات بنا دیں ۔ (آمین)

حصہ