عبادتوں کے موسم

667

افشاںنوید
سب سے بڑی عبادت خلقِ خدا کا دکھ محسوس کرنا ہے۔
صبح میں نے فون کیا ڈرائیور کو کہ آج کراچی میں شدید گرمی کی پیشن گوئی ہے، سویرے گاڑی نکال کر سب کام کرلو، ظہر سے قبل فارغ ہوجاؤ۔
پٹھان روزہ، نماز کے پابند ہوتے ہیں، بولا: باجی ظہر پڑھ کر گاڑی نکالوں گا تو میرا ٹائم پاس ہوجائے گا کیوں کہ گھر میں وقت گزارنا بہت مشکل ہے، اس گرمی میں پندرہ سے سترہ گھنٹے لائٹ نہیں ہوتی ہمارے گھر میں، کھلے صحن والے گھر میں دھوپ براہِ راست کمروں میں آتی ہے اور گھر تندور بنا ہوتا ہے۔
اس کا پچھلے ماہ میجر آپریشن ہوا ہے۔ بولا: اتوار کا دن بڑی مشکل سے گزرا، گھر کے باہر درخت کے نیچے بیٹھ کر گزارا… اتوار کو، اور دن اور رات چوبیس گھنٹے لائٹ نہیں آتی ہمارے علاقے میں… پانی الگ ناپید… چھوٹا بھائی، جو رکشا چلاتا ہے، وہ ’’میٹھا‘‘ پانی تلاش کرکے لاتا ہے تو ہم بارہ افراد کا خاندان آبِ زم زم کی طرح پیتے ہیں۔ ہم نیند کے ستائے ہوئے، ہماری عبادت میں کیا مزا…! محلے کی مسجد میں جنریٹر بھی نہیں ہے، کس طرح تراویح پڑھتے ہیں یہ پڑھنے والا جانتا ہے یا خدا۔
ہم اپنے ٹھنڈے ڈرائنگ روم میں تقویٰ کے متلاشی شاید ان کی دنیا کے دکھ سمجھ بھی نہیں سکتے۔
ہمارے مرد ائرکنڈیشن مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھتے ہیں… قالینی جائے نمازوں پر سجدے کرتے ہیں… چٹائی کی جائے نمازوں کا لطف انھیں کیا معلوم!
ایک روز قبل دو درجن کے لگ بھگ پڑوسنیں ہمارے گھر مدعو تھیں۔ ہم اکٹھے ہوکر سوچ رہے تھے کہ شبِ قدر میں بھی اُن کی معافی نہیں جن کے دل کینہ سے پاک نہ ہوں گے… ہماری عبادتوں کا حاصل ہی کیا اگر دل کو پاک نہ کرسکے۔ خواتین کے لیے شاید زیادہ مشکل ہے کینہ سے دل پاک کرنا… لیکن شبِ قدر میں جب بخشش عام ہوگی وہ بھی مشروط ہے حقوق العباد کی ادائی اور پاکیزگی ٔ قلب سے، تو معاملہ آسان بنانا ہوگا۔
ایک خاتون نے کہا: مگر جو دکھ ملے ہیں اپنوں سے ملے ہیں، رحم کے رشتوں سے ملنے والے دکھ کیسے دل سے نکالیں؟ میں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے والے دکھ اپنوں ہی کے ہاتھوں تھے، بھلا کون تھے ابولہب و ابوجہل؟ جو شعب ابی طالب کے باہر تڑپتے بچوں کی آہ وبکا پر تالیاں بجاتے اور کہتے اب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیسے نہیں پلٹیں گے آبا کے دین کی طرف۔ وہ دکھ دینے والے، تین دن نہیں، تین ہفتے نہیں، تین ماہ نہیں، تین سال جن کے سینے نہیں پھٹے شعب ابی طالب کے مظالم پر، وہ کون تھے؟ سب اپنے تھے۔ ماموں، چاچوں کی اولادیں… بھائی، بھتیجے، بھانجے۔
کیسا مثالی صبر، پھر بھی قرآن سے بار بار تلقین کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبر کیجیے۔ یعنی زندگی کو بامقصد رکھنے کے لیے کس عظیم درجے کا صبر مطلوب ہے۔ مکہ کے تیرہ برس ہوں، طائف کے بازار ہوں یا ابی طالب کی گھاٹی…آج بھی ہماری تاریخ کا اہم چوراہا ہیں۔
ایک خاتون نے کہا: بھائی وہ بھی ماں جایا۔ دل صاف کیسے ہو، زندگی بھر کی حق تلفی۔ اب تو اولاد راضی نہیں ماموں، مامی کی شکلیں دیکھنے پر، میں کیا کروں؟
بات ہوئی، قرآن نے محض الف لیلوی داستانوں کے طور پر تو نہیں بیان کیا قصص الانبیاء کو۔ سوچیں، نہ ہمیں کسی نے کنویں میں دھکا دیا، نہ مصر کے بازاروں میں ہماری قیمت لگائی گئی۔ قرآن نے کیسا نقشہ کھینچا ہے ایک معصوم بھائی کے خلاف بھائیوں کی سازشوں کا، کہ باپ کی آنکھوں کی پتلیاں سفید پڑ گئیں آنسوؤں سے۔
ہمیں ہی تو بتایاگیا ہے کہ انسانوں کی دنیا میں یہ سب کچھ ازل سے ہوتا چلا آیا ہے مگر… جب بھائی کو اقتدار ملتا ہے تو پہلو میں بٹھایا زندگی بھر کے سازشیوں کو اور کہا ’’کیا یہ شیطان تھا جو ہمارے درمیان تھا؟‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے اس لیے پہچان گئے کہ وہ شیطان تھا جو اپنوں کے بیچ حائل ہوکر ان کے وجود ہی ناقابلِ برداشت بنادیتا ہے بلکہ ان کے تصور سے ہی دم گھٹنے لگتا ہے۔ وہ شیطان ہوتا ہے جس کی کُل پونجی اور ساری کمائی ہی یہ ہے کہ پیاروں کو جدا کرا دے۔ نفرتوں کے ایسے بیج بودے کہ فصلیں آنے والی نسل کاشت کرتی رہے۔
سب خواتین نے اتفاق کیا کہ ہم نے دل صاف کیا… اس پر ایک خاتون نے کہا: کیا اپنے دل کی صفائی سے بخشش لازم ہوجائے گی؟ جن کے دل ہم سے دُکھے ہیں، جن کو ہم سے شکایتیں ہیں، انھوں نے ہمیں معاف نہ کیا تو کیا ہوگا؟ کیونکہ مخالفت اور نفرت یا دشمنی ہمیشہ دوطرفہ ہوتی ہے، دوسروں کا دل ہماری طرف سے صاف ہو، مقدور بھر تو کوشش کرنی ہی ہوگی۔ مگر واٹس ایپ کے معافی بھرے رسمی پیغامات سے یہ کام نہیں ہونے والا…
اب کیا کریں، رمضان کا چاند اُفق کے اس پار سے جھانک رہا ہے بستیوں پر طلوع ہونے کے لیے۔ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ معاف کروگے تو معاف کیے جاؤگے۔
اگر مہینے بھر کے روزے، رت جگے، تہجد منہ پر دے مارے گئے کہ بتا تو دیا گیا تھا کہ دل میں کینہ ہوگا تو بخشش نہیں ہوگی، باوجود اس کے کہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو بخششوں کے پروانے بٹیں گے!!!!
لہٰذا اجتماعی طور پر سب خواتین نے طے کیا کہ دوسرا اپنے اعمال کا ذمے دار، جس نے جو کیا ہم اس کی مغفرت کی دعا کرلیں، جس کی طرف سے کپٹ ہے آج سے نام لے کر اس کے حق میں دعا شروع کردیں تاکہ ہماری نمازیں اور روزے کسی تو کام آئیں، ایسا نہ ہو کہ اپنے پیارے دنیا میں بھی چھُوٹے اور آخرت بھی گئی۔ ہم تو تاریک راہوں میں مارے گئے۔
نہیں ایسا نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔ رمضان دستک دے رہا ہے کہ اٹھو، معاف کروگے تو معاف کیے جاؤگے۔ جنتیں سجائی جارہی ہیں، فرشتے ہمہ تن مصروف ہیں ان جنتوں کو سجانے میں۔ وہ تمہارے لیے ہیں، بس پہل کرلو، ہاتھ تم بڑھا لو، قدم تم اٹھالو…
پھر…اس کے بعد کا ہر منظر سہانا ہے۔

روزہ تنہائی کی عبادت

انسان جب نماز اور حج ادا کرتا ہے تو ہر شخص جان لیتا ہے کہ بندہ کیا کررہا ہے۔ زکوٰۃ میں بھی مال لینے والا بہرحال جان ہی لیتا ہے کہ آپ انفاق کررہے ہیں، مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ خدا کے لیے یہی خلوص روزے کو وہ عظیم عبادت بناتا ہے جس کے متعلق حدیث میں کہا گیا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا (بخاری 1894)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے اور خدا سے جڑنے کا مہینہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی تلقین کی ہے۔ آپؐ اس ماہِ مقدسہ کے آخری عشرے میں اپنی مسجد میں معتکف ہوجاتے اور دنیا سے کٹ کر اپنے شب و روز عبادت کے لیے وقف کردیتے تھے۔
بدقسمتی سے آج مسلمانوں نے رمضان کے مہینے کو موج میلے کا مہینہ بنا لیا ہے۔ عالم عرب ہو یا عجم… افطار پارٹیاں، شاپنگ اور پکوان کی کثرت اس مہینے کی پہچان ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اجتماعی شب بیداریاں اور اجتماعی اعتکاف کے پروگرام بھی اب عام نظر آتے ہیں، حالانکہ یہ عبادات سرتاسر تنہائی کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی طرح درس و تدریس کے پروگراموں کے لیے بھی اس ماہ کا انتخاب کیا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اسی مہینے میں مسجد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
تاہم اہلِ علم کی یہ ذمے داری ہے کہ رمضان کے معاملے میں لوگوں پر بار بار یہ بات واضح کرتے رہیں کہ یہ مہینہ تنہائی کی عبادت کا ہے۔ ہاں سماجی تعلقات کے جو تقاضے ہیں وہ بہرحال نبھائے جائیں گے کہ احباب سے کٹ کر بھی نہیں رہا جاسکتا۔ مگر یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ یہ مہینہ اصلاً راتوں کو جاگ کر رب کی قربت تلاش کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ اپنے ایمان کی ازسرنو دریافت اور اپنے اعمال کے احتساب کا مہینہ ہے۔ یہ اجتماعی عبادت کا نہیں انفرادی عبادت کا مہینہ ہے۔

حصہ